دیامر کی بدقسمتی یہ ہے کہ چند دہشت گردوں کی وجہ سے گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع مسلسل بدنام ہوتا جارہا ہے۔ اس میں کچھ اپنوں کی بے رعنائیاں ہیں تو کچھ غیروں کی ریشہ دوانیاں شامل ہیں۔خمیازہ دیامر کی عوام نے بھگتنا ہوتا ہے جو کسی صورت مستحسن نہیں۔ایک طویل عرصے سے باقاعدہ پلان کے تحت دیامر کے حدود میں دہشت گردانہ کاروائیاں کروائی جارہی ہیں۔خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان ظالمانہ کاروائیوں کے پس پردہ کون سی قوت کارفرما ہے۔کبھی سرراہ مسافروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔ کبھی کسی فوجی اور پولیس آفیسرکو قتل کیا جاتا ہے۔ کبھی کسی تھانے میں حملہ کروایا جاتا ہے۔ کبھی رینجرز کے نوجوانوں پر اٹیک کیا جاتا ہے۔اور کبھی سیاحوں کوبے دردی سے مارا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک افسوسناک واقعہ گزشتہ دنوں سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن کے دو انجینئرز کے اغوا کی شکل میں رونما ہوا۔اطلاعات کے مطابق چند روز پہلے دن دیہاڑے داریل سو تھے داس میں نصب ایس کام ( SCOM)ٹاور میں آنے والی فنی خرابی ٹھیک کرنے کے لیے گئے ہوئے ایس سی او کے دو انجینئروں محمد امجد اور عیسٰی بیگ کو 10سے زائد نامعلوم مسلح دہشت گردوں نے اغوا کیا ۔اور داریل کے پہاڑیوں میں رپوش ہوگئے ہیں ۔جبکہ ٹاور پر چوکیداری کے فرائض سر انجام دینے والے عبدالحفیظ کو رسیوں سے باندھ دیاگیا۔اغواکئے گئے دونوں انجینئرزکا تعلق گلگت بلتستان سے ہے ،جن میں ٹیکنیشن عیسٰی بیگ گلگت سے تعلق رکھتے ہیں ،جبکہ محمد امجد کا تعلق بونجی استور سے ہے ۔
گزشتہ کئی دنوں سے اس موضوع پر لکھنا چاہ رہا ہوں مگر لکھنے کی جسارت نہیں کرپارہا۔تین دن قبل گلگت بلتستان کے ہائی پروفائل لوگ تانگیر میں جمع ہوئے۔ ضلع دیامر کے تمام ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو باقاعدہ شرکتِ یقینی کا لیٹر ایشوکیا گیا۔چیف سیکرٹری، آئی جی پی، رینجرز اور جی بی اسکاؤٹ کے کمانڈز اور فورس کمانڈر گلگت بلتستان کے ساتھ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان بنفس نفیس تانگیر پہنچے۔عوام ،عمائدین جرگہ ، دیامر کے سیاستدان اور علماء کرام نے بڑی تعدا د میں شرکت کی۔دیامر کی عوام انتہائی خوش تھی کہ ان کے تمام بڑے ایک جگہ جمع ہیں۔ لیکن دیامر کی مظلوم عوام نے اپنے بڑوں کا خدائی لہجہ دیکھا تو سخت مایوس ہوئے۔فورس کمانڈر اور وزیراعلیٰ کے خیالات سن کر عوام سٹپٹا گئی۔جن سے محبتیں او ر تحفظ جان و مال اور عزت و آبرو کی امیدیں تھی انہوں نے آئی ڈی پیز بنانے کی دھمکی دی۔ سوات اور وزیرستان کے حوالے دیے۔مولوی فضل اللہ اور اس کے متعلقین کی طرح نیست ونابود کرنے گل افشانیاں کی۔یقیناًدیامر بالخصوص داریل تانگیر کے عوام نے اس کرخت لب ولہجے کو پسند نہیں کیا۔ہمیں بھی ان کے بیانات ،اخبارات میں پڑھ کر عجیب احساس ہوا….اور ملک مسکین کے کھرے اور سچے الفاظ پر خوشگوار حیرت بھی ہوئی، کیونکہ سب کو آئینہ دکھایا۔ملک مسکین نے واضح طور پر کہا کہ جہاد کے چمپیئن بننے والے آج دوغلا کردار ادا کررہے ہیں۔ سرکار اور دہشت گردوں کے ساتھ برابر کی ڈیلنگ کررہے ہیں جو کسی صورت دیامر اور بالخصوص داریل تانگیر کے عوامی مفاد میں نہیں۔اور انتظامیہ بھی انہی کے ٹاؤٹ بنی ہوئی ہے۔
اس مخدوش صورت حال کا تفصیلی جائزہ مجھے خود داریل جاکر لینے کا موقع ملا۔ محترم مولانا عبدالحلیم و برادرم عبدالخبیر صاحب کی والدہ ماجدہ کی نماز جنازے میں شرکت کے لیے داریل جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں دو دن عوام وخواص اور علما و عمائدین اور ذمہ دار شخصیات سے مغوی انجینئرز، چند دہشت گردوں کی ظالمانہ کاروائیاں اور فورس کمانڈر و وزیراعلیٰ کی پورے داریل تانگیر کے لاکھوں عوام کو آئی ڈی پیز بنانے ، نیست ونابود کرنے اور نسلوں تک ملیا میٹ کرنے کے حوالے سے تفصیلی گفت وشنید ہوئی۔یقیناہر ایک کی زبان پر یہی ایک جملہ تھا کہ پانچ دہشت گردوں کی وجہ سے دو ویلیز میں اپریشن کرنا قرین انصاف نہیں۔ ہر ایک کا یہی کہنا تھا کہ حکومت خود ان دہشت گردوں کی پشت پناہ ہے ۔یہ دہشت گرد حکومت کے وظیفہ خوار ہیں۔ حکومت اور مقتدر طبقات مخلص ہوتے تو آج وہ چند لوگ پھانسی پر لٹکے ہوتے۔حکومت کے اعلامیہ کے مطابق پورے دیامر میں 14 لوگ مفرور دہشت گرد ہیں۔ ان 14 مفروروں کی وجہ سے پورے دیامر والوں کو بدنام کرنا نہ میڈیا کو زیب دیتا ہے نہ ہی حکومت کو کہ وہ بے گناہ اور بے قصور لوگوں کو تنگ کرے۔ پورے دیامر کی عوام حساس اداروں، مقتدر طبقات اور انتظامیہ سے گزارش کرتی ہے کہ اسلامی تعلیمات، آئین پاکستان اور قانون کے مطابق ان 14 مفروروں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچائے۔ خدارا! خدائی لہجے میں بات نہ کریں۔غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات اٹھاکر 14 کی بجائے ایک لاکھ چودہ افرار کو دہشت گرد نہ بنائیں۔دیامر کے لوگ پاکستانی ہیں۔ محب وطن ہیں۔ ہمیشہ سے ملک وملت کی سربلندی کے لیے قربا نیاں دی ہیں۔ کشمیرکی آزادی کے لئے فوج کے شانہ بشانہ لڑے ہیں۔ہمیشہ فوج کو بڑا بھائی تصور کیا ہے۔اپنی مشکل کی آخری لاٹھی فوج کو ہی سمجھا ہے۔یقیناًوہ افواج پاکستان سے پراُمید ہیں۔
حکومت اور حساس اداروں کو بہرحال اپنی رٹ قائم رکھنا چاہیے۔دیامر کوئی علاقہ غیر نہیں کہ وہاں کے عوام حکومتی راہ میں مزاحمت ہوں۔ عوام نے ہر دور میں حکومت کی راہ میں دل بچھا دیے ہیں۔انتظامیہ کا یہ رویہ کہ غریب عوام کو ہفتوں کی الٹی میٹم دینا کسی صورت جائز نہیں۔ آئین پاکستان ، اسلامی تعلیمات اور خود پاکستانی قانون اور انٹرنیشنل لاز بالخصوص انسانی حقوق کے عالمی چارٹر میں یہ بات طے کہ ہے مجرم کے جرم کی سزا کسی بے قصور انسان کو نہیں دیا جاسکتا۔یہاں تک اس کے باپ اور بیٹے کو بھی نہیں دیا جاسکتا۔حکومت کو چاہیے کہ ان تمام مفروروں کو پکڑے۔ نیشنل ایکشن پلان کے مطابق ان کو سزائیں دیں۔کیا دیامر کی عوام نے انہیں ایسا کرنے سے روکا ہے؟یہ کہاں کا قانون ہے کہ غریب لوگ جو تمام تر حربی و تیکنیکی آلات سے خالی ہیں ان کو یہ کہنا کہ ہفتے کے اندر مجرم ہمارے حوالے کرو۔ میاں! مجرم کو پکڑنا اور قانون کے مطابق کیفرکردار تک پہنچانا حکومت کا کام ہے نہ کہ عوام کا۔ عوام کا تو مشترکہ مؤقف ہے کہ ان کو پکڑ کر پھانسی لگادو۔ اپنی کمزوریاں چھپانے کے لیے عوام کو ہراساں کرنا آئین پاکستان اور انسانی حقوق کے خلاف ورزی ہے۔ اور کم از کم سرکار کو آئین کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے ۔ غیر آئینی اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔یہاں ایک انتہائی اہم گزارش دیامر اور داریل تانگیر کے جرگے سے کرنی ہے۔ ان کو یہ بات سمجھ آنی چاہیے کہ وہ مذاکرات کے نام پر داریل تانگیر میں آپریشن کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ ایسے سینکڑوں مذاکرات اور معاہدوں کا انجام سوات، وزیرستان اور وانا میں دیکھا گیا ہے جس کا لازمی انجام عوام کی بربادی کی شکل میں ظہور پذیر ہوا ہے۔علماء و عمائدین کو دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے انتظامیہ اور حساس اداروں کو بتاناچاہیے کہ اپنی رٹ بحال کرو اور دہشت گردوں کو پکڑ کر نیشنل ایکشن پلان کے مطابق کاروائی کرو۔ یاد رہے بصورت دیگر داریل تانگیر کے لاکھوں آئی ڈی پیز اور بے قصور عوام کی بددعائیں انتظامیہ کے ساتھ علماء و عمائدین کو بھی ملیں گی جو ان کی دونوں جہانوں کو برباد کرنے کے سبب ہونگی۔عجیب بات یہ ہے کہ حساس اداروں کے ٹیکنیکل ماہرین آخری وقت تک اغواکاروں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے تھے اور دیامر پولیس کو کاروائی کرنے کے احکامات صادر کرتے رہے، کیا جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ادارے اغواکاروں کو گرفتار نہیں کرسکتے تھے؟۔بالآخر اغواکاروں نے اپنی موبائل سم نکال لیے اور ٹیکنیکل ماہرین کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے۔ بہر صورت داریل تانگیر کی عوام کا اجتماعی
مؤقف، جو بلاکم وکاست آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
امیرجان حقانی فیڈرل ڈگری کالج گلگت میں لیکچرار ہیں ۔ وہ گلگت بلتستان پروفیسرا ینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اطلاعات اور جامعہ نصر الاسلام گلگت کے میں درس و تدریس کی ذمہ داریاں بھی سر انجام دے رہے ہیں ۔