عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ﷺ نام کی ایک تنظیم ہے جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں احمدیوں کے خلاف برسر پیکار ہے ۔ یہ تنظیم پورے ملک میں وال چاکنگ کرواتی ہے ۔ اسٹیکرز شائع کیے جاتے ہیں ۔ ان کا ایک ہفت روزہ بھی کراچی سے شائع ہوتا ہے جس کا نام ختم نبوت ہے ۔ اسی طرح لولاک کے نام سے بھی ایک رسالہ شائع ہوتا تھا ۔ ہمارے گھر میں ختم نبوت ﷺ ، لولاک ، خلافت راشدہ ، اشراق ، میثاق ، بینات ، ہمدرد ، حکمت ، الفاروق ، الجمیعہ، ضیائے حرم ، مہناج القرآن، معارف فیچر ، ترجمان القرآن سمیت کئی رسالے آتے تھے ۔ میں والد صاحب کی لائبریری میں یہ رسالے بڑے شوق سے پڑھتا تھا ۔
ختم نبوت اور لولاک میں اکثر یہ شائع ہوتا تھا کہ تین چیزوں سے بچیں ، شیطان ، شیزان ، قادیان ۔ ہمارے محلے جھنگی سیداں سمیت ایبٹ آباد شہر کے درو دیوار پر یہی وال چاکنگ ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود شیزان ہر جگہ ملتی تھی ۔
ہمارے ہاں ایبٹ آباد میں ایک عبدالرزاق صاحب ہیں ۔ ان کا سوئی گیس کے دفتر کے سامنے اور الپائن ہوٹل کے قریب ان ایک سٹور تھا جس کا نام برائٹ سپر سٹور تھا ۔ سٹور اب بھی ہے ۔ اب ان کے صاحبزادے ولید ملک نے بھی سٹور شروع کر دیا ہے ۔ عبدالرزاق صاحب والد صاحب کے معتقد ہیں . میں انہی سے شیزان خرید کر پیتا تھا ۔ اس دور میں پانچ روپے کی ملتی تھی ۔ ایک دن میں نے کچھ سوچا اور ان سے کہا عبدالرزاق بھائی ، آپ یہ آٹا کہاں سے خریدتے ہیں ؟
انہوں نے کسی کا نام لیکر کہا کہ وہ ہمارے سٹور پر دینے آتے ہیں ۔ ان کی دکان سے آگے عبدالرحمان صاحب مرحوم کی دکان تھی اور ان سے آگے محمد حنیف صاحب کی ، میں نے پوچھا کہ انہیں کون دیتا ہے تو انہوں نے کہا کہ انہیں بھی وہی صاحب دیتے ہیں ۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ کو کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ قادیانی نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہم ان سے آٹا لیتے ہیں ، عقیدے تھوڑا پوچھتے ہیں ۔ میں خاموش ہو گیا لیکن کئی سوالات ذہن میں پیدا ہونا شروع ہو گئے کہ اگر یہ آٹا بھی احمدیوں کی مل سے آتا ہو تو کیا شیزان کی طرح اس کا بھی بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے ۔
میں اس عمر میں یہ سوال کرتا تو ہمارے ہاں آنے والے علما ہنس کر ٹال دیتے تھے ۔ ایک بار مولانا پروفیسر افسر علی شاہ صاحب جو شہزادہ بخارا مسجد ایبٹ آباد کے خطیب تھے اور گورنمینٹ ڈگری کالج ایبٹ آباد میں اسلامیات کے پروفیسر تھے ، انہوں نے مجھے جواب دیا کہ گندم تو اللہ پیدا کرتا ہے بھلے آٹا کوئی قادیانی مشین لگا کر بناتا ہو ۔ میں نے کہا اس طرح تو پانی بھی اللہ پیدا کرتا ہے ۔ احمدی تو اس میں صرف اللہ کا پیدا کیا ہوا رنگ ڈالتے ہیں ۔ وہ بھی مسکرا کر چل پڑے ۔
خیر مجھے شیزان بہت پسند تھی ۔ ایک دو بار میں نے بھی شیزان کا بائیکاٹ کیا ۔ تیسری کلاس میں ایک بار شیزان خرید کر توڑ بھی دی ۔ تاہم شیزان جیسا ذائقہ اور کسی میں نہیں تھا ۔ ہماری مسجد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ﷺ کی سرگرمیوں کا مرکز تھی ۔ میرے والد محترم اس وقت اس تنظیم کے کوئی ڈویژنل عہدے دار بھی تھے ۔ ہماری مسجد میں جلسے بھی ہوتے رہتے تھے ۔ بہر حال ہمیں کسی نے بتایا کہ شیزان اب احمدیوں کی ملکیت نہیں رہی اور اب یہ الحمدللہ مسلمانوں کی ملکیت میں آ چکی ہے ۔ ہم نے بھی تحقیق مناسب نہیں سمجھی کہ کہیں پھر انہی کی نہ نکل آئے ، پینی شروع کر دی ۔ مطلب شیزان
فرانس نے گستاخانہ خاکے بنانے شروع کر دیے ہیں ۔ میں نے دو روز قبل پاکستان کی ایک معروف مذہبی شخصیت کے فیس بک پیج پر دیکھا کہ انہوں نے لکھا ہوا تھا کہ صرف فرانس کا ہی نہیں بلکہ امریکا ، برطانیہ ، مغربی ممالک اور اسرائیل کا بھی بائیکاٹ کر دینا چاہیے ۔ میں نے انہیں میسج کیا کہ آپ چاہتے ہیں پاکستانی دو نمبر چیزیں کھا کر مر جائیں ۔ جس ملک میں مٹن کے نام پر کتے اور گدھے کا گوشت مسلمان فروخت اور خرید کر رہے ہیں ، وہاں یہ باتیں زیب نہیں دیتیں ۔
جس ملک میں گوالا فجر کی نماز تکبیرتحریمہ کےساتھ پڑھنےکےبعد باڑے میں بھینسوں کادودھ دوہنےکےبعدپانی ملاتا ہےاورپھررزق”حلال”کےحصول کیلیے پانی ملا دودھ لوگوں کے گھروں میں پہنچاتا ہے۔
جہاں خریداراس بنیاد پرگوالےکاانتخاب کرتے ہیں کہ یہ گوالاپانی کم اور دوسرا زیادہ ڈالتاہے۔ جس ملک میں سرکاری نرخ پر دودھ کا مطالبہ کرو تو آگے سے گوالا کہتا ہے کہ جناب اس قیمت میں یہی والا دودھ ملے گا ۔ خالص لینا ہے تو پھر قیمت ہماری مرضی کی ہوگی لیکن جب ان سے ان کی مرضی کی قیمت کے مطابق دودھ لیا جاتا ہے تو اس میں بھی پانی ملا ہوتا ہے ۔
جو عاشقان رسول ﷺ مل ملا کر ایک ایسا گوالا نہیں پیدا کر سکے جو خالص دودھ دے ، متعین شدہ قیمت پر دے وہ ہمیں کہتے ہیں کہ فرانس کی مصنوعات کابائیکاٹ کرو۔
محترم سراج الحق صاحب جماعت اسلامی کے امیر ہیں ۔ انہوں نے آج ٹویٹ کی ہوئی تھی کہ ناموسِ رسالت ﷺ پر ہمارا سب کچھ قربان ہے ۔
میں نے انہیں لکھا کہ سراج صاحب ، یوں نہیں ، سیدھی بات لکھیں کہ ناموس رسالت ص پر ہمارا فراڈ ، ملاوٹ، مہنگائی ، بدمعاشی ، فرقہ واریت ، دوسرے کے کاموں اور زندگیوں میں مداخلت، چور بازاری ، لوٹ مار ، مہنگائی ، سستی جذباتی تقریریں، غلط رویے، الزام تراشی ، بہتان طرازی ، تہمت بازی،عیاشی سب قربان ہے اور آئندہ ہم یہ نہیں کریں گے ۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ 13 برس کی ایک مسیحی بچی کو اغوا کر کے اس سے جبری شادی رچائی گئی ۔ اس کی ماں اور باپ بیٹی سے ملنا چاہتے تھے . محبت کی ماری مامتا چیخیں لگاتی رہی . پہلے اغوا کیا گیا ، پھر ولی کی مرضی کے بغیر شادی کی گئی ، پاکستان کے قانون کے خلاف 13 برس کی بچی کی جبری شادی کر دی گئی . کم عمری کی شادی کی وجہ سے نکاح خواں کی گرفتاری بنتی تھی . میں صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ محترم سراج الحق صاحب،محترم انصار عباسی صاحب،محترم خلیل الرحمان قمر صاحب،محترم مولانا فضل الرحمان صاحب،محترم نواز شریف صاحب،محترم عمران خان صاحب ، محترمہ مریم نواز صاحبہ سمیت کوئی بڑااینکراورصحافی اس مسئلے پر بولا کہ کیسے ہندو اور مسیحی برادری کی کم عمر لڑکیاں اغواکرکےان سےشادیاں رچائی جاتی ہیں۔محترم اوریا مقبول جان صاحب اور محترم زید زمان حامد صاحب سے تو یہ سوال بنتا ہی نہیں ہے۔وہ تو بلند ترین مقام پر فائز ہیں . ایک کافر اور دوسرا غدار سے نیچے تو بات ہی نہیں کرتا .
فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی ہم مذمت کرتے ہیں لیکن اس مذمت سے پہلے ان مسلمانوں کی مذمت اور مرمت بھی ضروری ہے جو اس وقت پوری دنیا میں دہشت گردی ، فرقہ واریت ، ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی ، فساد ، قتل و قتال ، جبری شادیوں ، تکفیر ، مذہب کے نام پر لوگوں کے راستے بند کرنے اور دن رات لاوڈ اسپیکر پر شور مچانے میں ملوث ہیں ۔ انہیں کوئی اگر اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا کہے تو ان کے پاس الزام تراشیوں اور بہتان طرازیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ جعلی وردی میں فوجی پکڑا جاتا ہے لیکن زبردستی چندہ چھیننے والا ، جلوس کے نام پر لوگوں کے راستے بند کر کے انہیں اذیت پہنچانے والا ، کنڈے ڈال کر میلاد کی محافل اور شادیاں کی تقریبات کرنے والا جعلی مسلمان ” عشق ” رسول ﷺ کی بکل مار کر فراڈ اور فساد کے سارے دھندے جاری رکھے ہوئے ہے ۔
سالا حرام کی کمائی سے کوٹھی بناتا ہے اور اوپر لکھتا ہے ھذا من فضل ربی