برادرم سبوخ سید کا کالم "”عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، شیزان کی بوتل، فرانس کا بائیکاٹ اور سراج الحق کی ٹویٹ”” پڑھ کر مجھے وہ لطیفہ یاد آگیا جب ایک آدمی نے ھل چلاتے ھوئے کسان سے کہا کہ ھل سیدھا نہیں چل رھا لائینیں سیدھی نہیں بن رھیں ، اس پر ھل چلانے والے کسان نے جواب دیا ‘تیری تے آپنی پین پچھلے سال مراثیاں نال نس گئی سی’ ( تمھاری تو اپنی بہن پچھلے سال مراثیوں کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی تھی) ۔ برادرم سبوخ سید کا مذکورہ کالم اس کسان کے لایعنی اور غیر متعلق جواب کی ایڈوانس اور ماڈرن شکل ھے۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ﷺ، شیزان کی بوتل ، فرانس کا بائیکاٹ اور سراج الحق کی ٹویٹ
سبوخ سید میر ابہت بے تکلف دوست ھے۔ اور جتنا میں اسے جانتا ھوں اس کے مطابق اس سے اس قسم کا کالم یقینا غیر متوقع ھے۔ لیکن بہت لحاظ خوری اور پر مروت طبیعت کا مالک بھی ھے۔ کسی کا کہا اس سے ٹالا نہیں جاتا۔ اکثر کسی نہ کسی کا دل رکھنے کے لیئے بھی بہت کچھ کر جاتا ھے۔ میں سبوخ سیدکے اس کالم سے ھرگز اتفاق نہیں کرتا اور اس سے اپنی بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ھوئے اس اس کالم میں اس کی بعض چیزوں کی تصحیح کرنا ضروری سمجھتا ھوں۔
سب سے پہلے میں اس کی تصحیح کر دوں کہ مجلس تحفظ ختم نبوت کی غرض و غایت عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ھے ۔ اور چونکہ قادیانیت اس عقیدے کی نفی کرتی ھے اس لیے مجلس قادیانیت کے عزائم کا سد باب کرتی ھے۔ سبوخ سید نے اپنے الفاظ سے تاثر یہ دینے کی کوشش کی کہ مجلس تحفظ ختم نبوت صرف قادیانیوں کے خلاف برسر پیکار ھے۔ حقیقت یہ ھے کہ عقیدہ ختم نبوت کی جو بھی نفی کرے گا مجلس اس کی نفی کرتی رھے گی اب چاھے وہ قادیانی ھوں یا کوئی اور۔
پھر سبوخ نے قادیانیوں کو احمدی لکھا۔ مسلمان جو عقیدہ ختم نبوت پر کامل ایمان رکھتے ہیں وہ کسی بھی طور قادیانیوں کو احمدی نہیں پکارتے نہ لکھتے ہیں۔ احمد ھمارے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک ھے۔ جس سے کسی غیر مسلم کی کوئی نسبت نہیں ھو سکتی۔ امید ھے آئندہ برادرم سبوخ سید اس کا اھتمام کریں گے۔اپنی تحریر کے آغاز میں میں نے سبوخ سید کے مذکورہ کالم کو مراثیوں والے لطیفے کی ایڈوانس شکل اس لیئے کہا کہ سبوخ نے بھی اس کسان کی طرح بات تو ٹھیک کہی لیکن غلط موقع پر کہی ۔ اس وقت زیر بحث موضوع فرانس کی بہیمانہ حرکت اور اس کی مذمت اور اس کا بائیکاٹ ھے۔ موصوف نے بجائے اس پر گل افشانی کے ایک الگ موضوع پر بحث شروع کرنے کی کوشش کی جو میرے خیال میں ایک بودی حرکت فرمائی انہوں نے۔
مسلمانوں کے اپنے اندر کوئی خامی یا خرابی ھونے کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ھے کہ وہ ھر کس و ناکس کو اپنے دینی تقدس پر بھونکنے کی اجازت دیں اور خاموش رھیں۔
دودھ میں پانی ملاتے ہیں اس لیئے فرانس کو رسول پاک کی عزت و ناموس کی بے حرمتی پر کچھ نہ کہیں؟ یہ کیا بات ھوئی؟
ہمیں اپنی خامیاں ضرور دیکھنی اور درست کرنی چاہئیں، لیکن واضح رھے کہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود کسی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تقدس مجروح کرنے کی ھرگز ھرگز اجازت نہیں دے سکتے اور نہ ایسی کوئی بھی حرکت برداشت کرسکتے ہیں نہ کبھی کریں گے۔
مجھے سبوخ سید کی علمی و ادبی شخصیت اوراس کی دینی معلومات اور ویژن سے ایسی مجذوبانہ بات پر حیرت بھی ھوئی اور دکھ بھی ھوا۔