مسز سرینا عیسیٰ نے رجسٹرار سُپریم کورٹ کے سامنے ایک سول درخواست دائر کردی ہے جِس میں انہوں نے کہا ہے کہ میں نے اپنے دس رُکنی فُل کورٹ کے ایک فیصلہ کے خلاف نظرِ ثانی اپیل دائر کی تھی لیکن اب مُجھے پتہ چلا ہے کہ اُس کی سماعت کرنے والے جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو نکال دیا گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ میری معلومات کے مُطابق سُپریم کورٹ کے قانون 1980 کی شِق آٹھ کے تحت نظرِثانی کی اپیل وہی بینچ سُنتا ہے جِس نے فیصلہ دیا ہوتا ہے۔
مسز سرینا عیسیٰ نے درخواست میں نشاندہی کی کہ جِن درخواستوں پر فیصلہ آیا اُس میں سُپریم جوڈیشل کونسل بھی فریق تھی جِس کے جسٹس گُلزار احمد ممبر تھے جبکہ اب وہ چیف جسٹس بننے کے بعد سُپریم جوڈیشل کونسل کے چیرمین بھی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ میں اور میرے بچے کیس کے فریق نہیں تھے لیکن پھر بھی معزز ججز نے اپنے فیصلے میں ایک سو چورانوے بار ہمارا ذکر کیا جِس میں جسٹس مقبول باقر نے اکیاسی دفعہ، جسٹس مقبول باقر نے اُنتالیس دفعہ، جسٹس فیصل عرب نے سات دفعہ، جسٹس منصور علی شاہ نے چون دفعہ جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے تیرہ بار ہمارا ذکر کیا۔
مسز سرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ معزز ججز کے سامنے مُجھے بطورِ فریق نہیں سُنا گیا تو اب جبکہ میں چاہتی ہوں کہ نظرِ ثانی کی درخواستوں میں مُجھے سُنا جائے گا تو بینچ کے رُکن تمام ججز میرا موقف بھی سُنیں۔ مسزسرینا عیسیٰ کہتی ہیں کہ آئین کا آرٹیکل ایک سو اٹھاسی مُجھے یہ حق دیتا ہے جِس کی تصدیق سُپریم کورٹ کے ذیلی قوانین سے بھی ہوتی ہے۔ مسِز سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اگر تین ججز کو نظرِ ثانی کی اپیل سُننے والے بینچ سے علیحدہ کردیا جایے گا تو میرے حقوق مُتاثر ہوں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اِس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گُلزار احمد کے بارے میں لِکھا کہ وہ سُپریم جوڈیشل کونسل کی وجہ سے اِس کیس میں ایک پارٹی ہیں اور اُنکے حلف اور سُپریم کورٹ کے کوڈ آف کنڈکٹ کا تقاضا ہے کہ مُکمل غیر جانبداری ہو۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ لِکھتی ہیں کہ اُنہیں مُکمل اعتماد ہے کہ جب یہ ناانصافی چیف جسٹس گلزار احمد کے علم میں لائی جایے گی جِن کے لیے اُنکے دِل میں بہت زیادہ عزت و احترام ہے تو وہ آپ (رجسٹرار سُپریم کورٹ) کو ہدایت دیں گے کہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو نظرِثانی کی اپیلوں کی سماعت کرنے والے بینچ سے الگ مت کیا جایے۔ مسز سرینا عیسیٰ نے اپنی درخواست کے اختتام میں رجسٹرار سُپریم کورٹ سے جلد اپنی درخواست کی سماعت کی توقع کا اظہار کیا۔