بھارتی لوک سبھا کے رکن اسد الدین اویسی بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور عدم برداشت پر ایوان میں برس پڑے ۔اسد الدین اویسی بولے کہ آزادی کے 68 سال بعد بھی مسلمانوں کو پاکستانی کیوں کہا جا تا ہے ؟؟مسلمان اور دلتوں کو شہروں میں گھر خریدنے یا کرائے پر لینے کی آزادی کیوں نہیں ہے؟ ؟بتایا جائے کہ 100 گریجویٹ دلتوں اور مسلمانوں میں صرف 3 کو ملازمت کیوں ملتی ہے ؟؟
انہوں نے کہا کہ مجھے اس ایوان سے سیاسی عدم برداشت کا ایک سوال پوچھنے کی اجازت دیں ، ایسا کیوں ہے کہ اگر میں بی جے پی کی مخالفت کروں تو مجھے قوم پرست مخالف کہا جاتاہے ، اگر میں کانگریس کی مخالفت میں بولوں تو سیکولرزم کا مخالف سمجھا جاتا ہے ، اگر میں سیکولر جماعت کی مخالف کروں تو مجھے فرقہ پرست کہا جاتاہے ۔ اس ملک میں ایسا کیوں ہے کہ کانگریس کی حمایت کروں تو میں سیکولر ہوں اور بی جے پی کی مخالفت کروں تو قومی پرستی کا مخالف۔ ایسا کیسے ہوگیا کہ دو سیاسی جماعتوں نے سیکولر اور قوم پرست ہونے کا حق حاصل کرلیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ میں اس حق کی مذمت کرتا ہوں میں عدم برداشت کا مظاہرہ کرتا رہوں گا ، کیوں کہ یہ جمہوری طور پر درست ہے ، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ سیاسی عدم برداشت کس طرح سے کہلائے گا ۔
ہریانہ میں گائے کے ذبیحہ پر دس سال قید کی سزا ہوئی ، کانگریس نے اس کی حمایت کی ، جبکہ مجھ پر عدم برداشت اور فرقہ پرستی کا الزام مجھ لگتاہے ، ایسا کیوں ہے کہ تریپورہ کے گورنر نے 19 اکتوبر کو کہا کہ اگر مسلمان حرام جانور کا گوشت کھائیں توان کے آزادی اظہار کا خیر مقدم کیا جائے گا، کیا یہی ہماری عدم برداشت ہے۔
میں اس حکومت اور یہاں موجود نمایندہ جماعتوں سے ایک سوال کرکے اپنی بات کو ختم کرنا چاہوں گا کہ ایسا کیوں ہورہاہے ،مجھ پر پابندیاں کیوں ہیں ، میں کرناٹکا میں جاکر بات کیوں نہیں کرسکتا، میں اتر پردیش میں جاکر بات کیوں نہیں کرسکتا، اور ایسا کیوں کہ بیس فی صد مسلم آبادی کو مقدمات کا سامنا ہے ۔ مغربی بنگال میں 49 فی صد، مہاراشٹر میں 29 فی صد ، اتر پردیش میں 29 فیصد، کیا یہی برادشت ہے ۔
میڈم ، میں بات اختتام کو لاتا ہوں ، محترم وزیر داخلہ نے تجاویز مانگی تھیں تو میں تجویز دیتا ہوں آپ پرغلط الزا م لگا تو آپ کا موقف سنا گیا ۔ میں آپ کے فخرکی تعریف کرتا ہوں ، لیکن آپ یہ بھی دیکھیں کہ مجھے انہتر سال سے پاکستانی کہا جاتا ہے ، آپ میرے بارے میں کیا کہیں گے ، کیا آپ کھڑے ہوکر میرا دفاع کریں گے ، کیا آپ میری ساکھ کا دفاع کریں گے ۔
محترم وزیر داخلہ صاحب کےلیے میری تجویز ہے کہ نیشنل ہومین رائٹس کمیشن کے قانون میں ترمیم کریں ، کمیشن کو فسادات کی تحقیقات کا حق دیں تاکہ ذمہ داریاں کا تعین کیا جاسکے ، میں یہ بھی تجویز دوں گا کہ آپ اپنی وزارت میں ایک ایسا سیکشن بنائیں جہاں ہندو شدت پسندوں کی نگرانی کی جاسکے ، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو دیکھیں کہ میانمار میں کیا ہورہاہے ، سری لنکا ، پاکستان اور بنگلادیش میں کیا ہورہاہے ، تیسرا یہ کہ یکساں مواقع کےلیے ایک کمیشن بنائیں ، اقلیتی کمیشن میں بھی اصلاح کریں ۔
آپ وہابی ازم اور داعش کی بات کرتے ہیں ، یاد رکھیں داعش ایک شیطانی نظریہ کی حامل ہے۔آپ ہمیں وہابی ازم اور صوفی ازم میں تقسیم نہیں کرسکتے ، ساری مسلمان کمیونٹی اور مسلم دنیا نے داعش کی مذمت کی ہے ۔ اور ایک بات یاد رکھیں کہ داعش کو بم سے شکست نہیں دی جاسکتی ، اس کےلیے معاشرے میں بحث و مباحثہ ضروری ہے ۔ ، اس کا یہی طریقہ ہے