داعش نہیں، صرف دا

ایک صاحب مجلس میں بیٹھے تھے۔ باتوں باتوں میں کہا، نام میں کیا رکھا ہے۔ عرض کیا، آپ نے بجا فرمایا، کنفیوشس نے بھی کہا تھا، نام میں کیا رکھا ہے، گلاب کو کسی بھی نام سے پکارو، وہ گلاب ہی رہے گا۔ کچھ خفگی سے بولے، کیا بات کر رہے ہیں، یہ کنفیوشس نے کب کہا تھا، یہ تو شیکسپیئر نے کہا تھا، عرض کیا چھوڑئیے بھی نام میں کیا رکھا ہے، کنفیوشس نے کہا یا شیکسپیئر نے کہا، بات تو وہی رہی لیکن انہوں نے اصرار کیا جو بات جس نے کی اسی سے منسوب ہونی چاہیے، نام میں کیا رکھا ہے کا یہ مطلب تھوڑی ہے۔ عرض کیا، اس کا مطلب ہے کہ نام میں کچھ رکھا ہے ورنہ آپ ایسے کیوں بگڑتے۔
انہیں مثال بھی دی کہ شیخ رشید کو حنیف عباسی کے نام سے پکارا جائے تو کسی بے نقط کی سنائیں گے اور اگر مشرف کو مولانا عبدالعزیز کہ کر بلائیں تو کیا یہ جوتا اتار کر مارنے کو نہیں دوڑیں گے۔ کچھ کچھ قائل ہو گئے، مزید قائل کرنے کے لیے کہا کہ سیب کو سنگھاڑا کہا جائے تو کیسا لگے گا۔ یا پھر گاجر کے حلوے کو کوزی حلیم کہہ دیں؟۔ خاموش ہو گئے گویا رضا مندی ظاہر کر دی تو برطانیہ کے وزیراعظم کا ایک بیان آیا ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ بھی کنفیوشس، معاف کیجیے گا، شیکسپیئر کے اس معقولے کے بالکل قائل نہیں ہیں۔ وزیراعظم کیمرون نے کہا ہے کہ دولت اسلامیہ کو جو عراق، شام اور لیبیا میں پنجے گاڑھے ہوئے ہے، دولت اسلامیہ نہ کہا جائے، اسے مجاہدین کا اعزاز ملتا ہے، اسے داعش کہ کر پکارا جائے۔ مطلب یہ نکلا کہ ان کے خیال میں نام بدلنے سے مورال متاثر ہوتا ہے۔ گویا نام بدلنے سے جنگ جیت لی جائے گی۔ حالانکہ عام خیال تھا کہ جنگ بمباری سے جیتی جائے گی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ داعش نام ختم ہو چکا ہے۔ شروع میں یہ نام داعش ہی تھا یعنی دولت اسلامیہ عرا ق و شام کا مخفف داعش بنتا تھا۔ پھر جب اس نے اپنی ایک شاخ لیبیا میں، دوسری یمن میں، تیسری مصر اور چوتھی افغانستا ن میں کھول دی تو نام کے آخر سے عراق وشام کے نام غائب کر دئیے یعنی ”عش” اڑ گیا، صرف ”دا”رہ گئی۔ تو کیمرون کو چاہیے کہ داعش بھی نہ کہیں صرف ”دا” کہیں۔ لیکن اس سے سننے والوں کو الجھن ہوئی، وہ سمجھیں گے کہ لفظ ”دا” The بولا ہے۔ اس کے بعد نام بھی لیں گے جیسے دی یو این او، لیکن وہ ”دا” کہہ کر رہ جائیں گے۔
خیر نام بدلنے سے جذبات اور مورال متاثر ہوتے ہوں، حقیقت تو نہیں بدل سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ داعش کو چاہیے آپ آرمی آف دی بیسٹ army of the best یعنی ”جیش الوحوش” کا نام بھی دیں لیں، جب تک آپ شام وعراق میں اور دوسری جگہوں پر ظالم کی مدد کرتے رہیں، ایسی کوئی نہ کوئی ‘آرمی’ تو بنتی رہے گی۔ آپ بشارالاسد کو بچانے کے چکر میں جتنی زیادہ بمباری کریں گے اور جتنے زیادہ عام شہری مارے گے، داعش میں رنگروٹوں کی بھرتی اتنی ہی بڑھ جائے گی۔ ذرا خود ہی سوچ لیجیے، روس، امریکا اور فرانس کی بمباری سے داعش کے گوریلے کتنے مرے اور عام شہری کتنے اور اب تو جرمنی کے بعد برطانیہ بھی بمباری میں شامل ہو گیا ہے۔ فرانس نے پچھلی صدی میں الجزائر کی آبادی ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لاکھوں لوگ قتل کر دیے۔ گھر گھر گھس کر فرانس کے سپاہی سب کے گلے کاٹ دیتے تھے۔ ہر شہر میں لاشوں کے انبار لگ گئے لیکن پھر بھی آخر میں یہ ہوا کہ الجزائر کو آزادی دینا پڑی۔ یہ فرانس ہی تھا جس نے پہلے لاکھوں یہودی مارے، پھر آج کیا ہوا، اسی یہودی کا اتنا احترام ہے کہ ہولوکاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کی تعداد جو کم کرکے بتائے، فرانس کی پولیس اسے پکڑ لیتی ہے۔
پھر یہ فرانس ہی تھا جس نے ”پوپ” کی خاطر لاکھوں پروٹسٹنٹ اور دوسرے ایسے مسیحی قتل کر دیے بلکہ زندہ جلا دیے جو پوپ پر تنقید کرتے تھے۔ آج وہی رومن کیتھولک فرانس جھک کر پروٹسٹنٹ امریکا کی قیادت میں صلیبی جنگ میں شریک ہے۔ کیا پتا کل کلاں کیا ہو۔ دجال آئے اور فرانس کو اینٹی کرائسٹ کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کا ساتھ دینا پڑ جائے کہ پچاس لاکھ مسلمان تو فرانس میں ہو ہی گئے، تب تک اور زیادہ ہو جائیں گے۔ اینٹی کرائسٹ سے ایک پرانی بات یاد آ گئی، 1988ء کی، جب فرانس ہی کے سٹاس برگ میں یورپی پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا تھا، اس میں اس وقت کے پوپ پال کو خطاب کی دعوت دی گئی، جیسے ہی پوپ نے خطاب شروع کیا ، پروٹسٹنٹ مندوب جو آئر لینڈ سے آئے تھے، میکرو فون میں چلائے تم دجال ہو، تم اینٹی کرائسٹ ہو، تم شیطان ہو، تمہاری بات نہیں سنیں گے۔ بڑی مشکل سے اسے چپ کرایا گیا۔ پوپ نروس ہو گئے اور باقی تقریر اتنی دلجمعی سے نہ کر سکے۔ تو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ میں اتنی دشمنی ہے۔ مزید وضاحت کیلیے انگلینڈ کے شاہ ہنری کا زمانہ یاد کیجئے جب برطانوی حکومت پروٹسٹنٹ ہو چکی تھی کہ ناگہاں ہنری چل بسا اور اس کی جگہ ملکہ میری نے لے لی جسے آج انگلینڈ والے ”بلیڈی میری” کا نام دیتے ہیں۔
یہ 1558ء کا زمانہ تھا تو اس بلڈی میری نے جتنے پروٹسٹنٹ ملے زندہ جلا دئیے حتیٰ کہ نوزائیدہ بچے بھی آگ کے آلاو بھڑکا کر ان میں پھینکوا دیے۔ اس کی حکومت ختم ہوئی تو پروٹسٹنٹ کا دور پھر سے آ گیا اور آج کا مسیحی برطانیہ کیتھولک عزم کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتا۔ ہٹلر کے خلاف یہ لوگ اس لیے اکٹھے ہو گئے تھے کہ وہ بظاہر ”ترقی پسند” لیکن اندر سے فاسٹ کیتھولک تھا اور اس نے اپنی کتاب ”مائنڈ کیمف”میں لکھا کہ میں یہودیو ں کو خدا کی خوشنودی کیلیے مارتا ہوں (The work of Lord for) تب جرمنی میں یہ لوگ زیادہ تھے، آج برابر برابر ہیں یعنی 33 فیصد پروٹسٹنٹ تو 33 فیصد ہی رومن کیتھولک اور ان کی دشمنی آرتھوڈکس سے بھی ہے لیکن اب وہ بھی ہم رکاب ہیں، اتنے زیادہ اختلافات ہیں لیکن ”عظیم مقصد” کیلیے متحد یعنی سارے اکٹھے ہو کر صلیبی جنگ لڑ رہے ہیں اور صدیوں سے غلامی کی ذلت سے چور چور مسلمان اسے ”ہماری جنگ” کہنے پر مجبور ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ کھٹمنڈو میں بھارتی وزیراعظم سے خفیہ ملاقات کر کے وزیراعظم نواز شریف نے پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ حکومت ملاقات کی اس خبر کی تردید کر چکی ہے جو بھارتی ذرائع سے آئی ہے لیکن ملاقات ہوئی یا نہیں ہوئی، یہ سوال اپنا جواب مانگتا ہے کہ اگر ملاقات ہوئی بھی تھی تو فوج کی ساکھ کیسے کمزور ہو گئی؟۔ خفیہ ملاقات تو پھر مودی نے بھی، کیا وہاں کسی نے کہا کہ بھارتی فوج کی ساکھ کمزور ہو گئی ہے۔
تاریخ میں بہت سے ملاقاتیں خفیہ ہوئی ہیں۔ دشمن سے بھی اور دوست سے بھی۔ اسی کو ڈپلومیسی کہتے ہیں لیکن صرف عمران ہی نہیں، دھرنا کارپوریشن کے دوسرے ہم نوا بھی ساکھ متاثر ہونے والی قوالی گانے میں جت گئے ہیں۔ کچھ ان سے فراغت تھی، مکھیاں مار مار کر اوب چکے تھے، چلو، کوئی کام تو ملا۔
مودی آج ہے، کل نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان میں ”حالت جنگ” کو ختم ہونا چاہیے۔ دونوں ملکوں کی ترقی اس فضا سے رکی ہوئی ہے۔ بھارت کی کم ، پاکستان کی زیادہ بھارت پھر بھی سیانہ ہے۔ ترقی کیلیے بھی کچھ بچا رکھتا ہے، اس لیے یہ خبر آئی ہے کہ پچھلے ماہ اس کی شرح معیشت چین کو پیچھے چھوڑ گئی وہاں ایسی بے ڈھب قوالیاں گانے کا رواج نہیں، اسی لیے ۔۔۔۔۔
بشکریہ: روزنامہ جہان پاکستان

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے