ٹوٹی پھوٹی گلیاں، سوئی گیس سے محروم، ہر گھنٹے بعد دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ، پانی کی شدید قلت یہ کسی دور افتادہ گاوں کی بات نہیں بلکہ شہر اقتدار میں ایوان صدر کے عقب میں پارلیمنٹ ہاوس سے دس سے بارہ منٹ کی مسافت پر واقع مسلم کالونی کا ذکر ہے.. ادھر زندگی تو ہے مگر زندگی گزارنے کے لیے بنیادی ضروریات کی شدید کمی ہے.
تقریباً چھبیس ہزار افراد پر مشتمل اس آبادی میں نہ تو کوئی سرکاری سکول ہے اور نہ ہی کوئی اہسپتال.. گلی محلے میں گندے حلیوں میں پھرنے والے بچوں کی اکثریت تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہے. مسلم کالونی کے لوگوں کی اکثریت کا ذریعہ معاش مزدوری کرنا ہے. محنت مزدوری کر کے اگر کچھ کما لیا تو ٹھیک ورنہ بری امام سے نیاز لا کر اپنے کنبے کا پیٹ پالا جاتا ہے.
اس علاقے میں بسنے والے لوگ کہتے ہیں اس بستی کو غیرقانونی قرار دے کر ہر دور کی حکومت نے نظرانداز کیا ہے. مگر نسل در نسل یہاں پلنے بڑھنے والے اب کہاں جائیں ان کا مستقبل کیا ہو گا یہ بتانے سے ہر دور کی حکومت قاصر نظر آتی رہی ہے.
اسلام آباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر یاسمین کوثر ناز لیڈی کونسلر منتخب ہوئی ہیں میڑک پاس یاسمین کوثر خود بھی انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں. ان کے شوہر مزدور ہیں جبکہ وہ خود ایک اکیڈمی میں کلاس ون کے بچوں کو پڑھاتی ہیں.
میں نے ان سے ملاقات کے دوران پوچھا کہ آپ بتائیں آپ کو ٹکٹ کیسے دے دیا گیا جبکہ نہ تو کمپین چلانے کے لیے آپ کے پاس پیسہ تھا نہ ہی وسائل تھے وہ کہنی لگیں اب تبدیلی آ رہی ہے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو پتہ چل چکا ہے کہ عوام بے شعور نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ اب ٹکٹ دیتے ہوئے روپے پیسے کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر فیصلے ہونے لگے ہیں اگرچہ یہ کام ابھی چھوٹے لیول سے
شروع ہوا ہے مگر ان کو توقع ہے کہ اگر عوام اسی طرح باشعور ہونے کے ثبوت دیتی رہی تو جنرل الیکشن میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آئے گی. پارٹیز من پسند افراد کو ٹکٹ دینے کے بجائے میرٹ پر فیصلے کرنے پر مجبور ہو جائیں گی.
اس علاقے کے رہائشی کہتے ہیں یاسمین کوثر کے علاوہ دو خواتین اور بھی مقابلے کے لیے میدان میں اتری تھیں مگر چونکہ وہ اس آبادی سے تھوڑا ہٹ کر رہ رہی تھی اور مالی طور پر ان لوگوں سے خاصی مستحکم تھی تو ہم نے ان کو ووٹ نہیں دیا. وجہ صرف یہ ہے کہ جو ہمارے جیسی زندگی گزار رہا ہے وہی اس اذیت کا اندازہ کر سکتا ہے جو ہمیں روز برداشت کرنا پڑتی ہے. جو ہماری طرح ان ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کچے گھروں میں بغیر سوئی گیس کے گزارا کرے گا وہی ہماری نمائندگی بہتر انداز میں کر سکے گا. ہم نے کسی پارٹی کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیا ہم نے ووٹ سوچ سمجھ کر اپنی بہتری کے لیے دیا ہے. ہمیں اس سے سروکار نہیں کہ یاسمین کوثر کو ٹکٹ مسلم لیگ ن دے یا پی ٹی آئی یا کوئی اور جماعت. ہمارا مقصد اپنی فلاح و بہبود کے لیے اپنے میں سے اپنے جیسے نمائندے کا انتخاب کرنا ہے.
بلاشبہ یہ مزدور طبقہ قابل تحسین ہے جنہوں نے باشعور شہری ہونے کا ثبوت دیا ہے اور برادری سسٹم سے ہٹ کر اور مخصوص جماعتوں کی اندھا دھند تقلید کے بجائے اپنے مستقبل کو مدنظر رکھ کر بہترین فیصلہ کیا ہے.. مسلم کالونی کے رہائشی تعلیم کے میدان میں شاید آگے نہیں مگر ان کی فہم و فراست دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شعور صرف تعلیم سے ہی نہیں آتا بلکہ حالات کی ٹھوکریں جو سبق دیتی ہیں وہ زیادہ موثر ہوتا ہے.
اگر ملک کا ہر شہری مسلم کالونی کے باسیوں کی طرح ذاتی مفاد کو نظرانداز کر کے اجتماعی فائدے کو مدنظر رکھ کر اپنا حق رائے دہی استعمال کرے تو بہت جلد تمام سیاسی جماعتیں بھی اپنا قبلہ درست کرنے پر مجبور ہو جائیں گی اور وہی اصل تبدیلی ہو گی.