تحریک انصاف کا میئر سے Nightmareتک کا سفر

اے زندہ لاشو، احمقو،نادانو!… اے اپنا ہی برا چاہنے والو!… اے کالے کلوٹو، بیوقوفو،عقل کے اندھو!اے اَن پڑھ، گنوار، جاہلو!… اے تلیر، مکڑ، بھیا اور مٹروو!… ایک بار پھر تم نے اپنے حق میں بُرا فیصلہ کر ڈالا…پھر تم نے ثابت کردیا کہ ’’تمہارا کچھ ہو ہی نہیں ہوسکتا‘‘…تم پیدا ہی سسک سسک کر مرنے کیلئے ہوئے ہو، تمہیں عزت راس ہی نہیں آتی… کس قدر ناسمجھ ہو کہ اپنا ہی بھلا نہیں چاہتے اور کیسے اندھے ہوکہ حق دکھائی نہیں دیتا… کتنی ’’دُور‘‘ سے کوئی ’’اپنوں‘‘ میں رہنے کیلئے اِس نعرے کیساتھ آیا تھا کہ ’’اپنے تو اپنوں میں رہتے ہیں‘ لیکن تم نے اِس میں سے اپنا ’’الف‘‘ سے الطاف نکال کراُن کی ’’سیتا‘‘ کا ’’سین‘‘ اُن کو دیکر کیا ہی scene بنا ڈالا ہے کہ اب تو خود وہ کہیں چھپے بیٹھے یہی گنگنا رہے ہیں کہ ’’سپنے تو سپنوں میں ہی رہتے ہیں‘۔
ویسے تم لوگوں کا کچھ بھی نہیں ہوسکتا، اپنی قسمت سنوارنے میں تمہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے … پرانے پاکستان سے باہر نکلنے کو تم ہی کیا پورا ملک تیار نہیں ہے … حالانکہ ’’اُنہوں‘‘ نے کیا خوب نقشہ کھینچا تھا کہ جیت اُسی کو کہتے ہیں جہاں وہ جیتیں، کُشتی وہی کُشتی ہے جہاں دوسرا پہلوان ہاتھ پاؤں بندھا ملے اور صرف ’’کھلے پہلوان‘‘ کو مارنے کی اجازت ہو…انتخاب بس وہی انتخاب ہے جس میں اُن کا انتخاب ہو اِسی لئے کرکٹ کے زمانے میں بھی وہ صرف ’’انتخاب عالم‘‘ کو ہی ساتھ رکھتے تھے… حق وہی حق ہے جسکے بارے میں نعیم کا خیال ہو کہ وہ حق ہے… ملک، وہی ملک ہے جہاں وہ وزیراعظم ہوں، صوبہ وہی صوبہ ہے جہاں اُنکا خٹک ’’اٹک‘‘ کر رہے، مٹھاس وہی مٹھاس ہے جہاں ’’انصاف کے مزار‘‘ کا ’’شیریں‘‘ تبرک شامل ہو… ماں صرف شوکت خانم صاحبہ ہیں، مجھ جیسے ’’جعلی ڈگری والے‘‘(حالانکہ ریحام سابق بھابھی سے شادی کرتے ہوئے ڈگری تک چیک نہیں کی، جعلی ڈگری سے بیاہ تک رچالیا) نام نہاد عاشقِ رسول، ابن الوقت، مسخرے، سیاسی یتیم، کریہہ و خبیث، شیطان العظیم اور جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے (یہ سب اِنکی سوشل میڈیا ٹیم کے اقوال زریں کے عین مطابق تحریر کیا جارہا ہے) یعنی عامر لیاقت حسین کی ماں ایک گشتی، کنجری،طوائف ہے (استغفر اللہ…اورامی آپ بھی مجھے معاف کیجیے گا)… دوست کہتے ہیں آپ بار بار یہ نہ کہئے میں کہتا ہوں، میں نہ بھی کہوں تو اُنہوں نے اِس قدر بار بار لکھا اورکہا ہے کہ میرے دہرانے یا نا دہرانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بلا کی ڈھٹائی، بے شرمی اور غلطی نہ ماننے کا اگر کوئی ایوارڈ ہوتا تو صرف اِنکی جماعت کے عظیم ’’لکھے پڑھے‘‘ اور امریکہ و لندن سے تشریف لائے ہوئے اِنکے ’’مہذبوں‘‘کو دیا جاتا جو اب بھی دلیل یا تنقید کے جواب میں مسلسل میری ماں کو گالیاں دینے سے باز نہیں آرہے… سو پھر جب ’’تم اپنی خو نہ چھوڑو گے تو ہم اپنی وضع کو کیوں بدلیں‘‘… آپ کو معافی مانگنا نہیں آتا دوسروں سے معافی منگوانا آتا ہے…عزت صرف ’’شیریں مزاری‘‘ کی ہے اور معذرت صرف الطاف حسین صاحب نے کرنا ہے… ہم تو اعلیٰ ظرف ہیں جناب! معافی مانگ لیتے ہیں لیکن اپنی کم ظرفی ملاحظہ فرمائیے کہ کھل کر غلیظ گالیاں دینے کے باوجود اپنے سوشل میڈیا کے دہشت گردوں کا مسلسل تحفظ اور اُنکی جانب سے کسی کا بھی معافی نہ مانگنا آپ کو ایک ’’بانجھ درخت‘‘ بنا چکا ہے جو صرف ’’اکڑا‘‘ رہتا ہے کیونکہ اُس کی شاخ پر پھلوں کی پیدائش مقدر ہی نہیں جو اُسے جھکنے پر مجبور کریں؟… اور پھر ویسے بھی ’’مخدوم‘‘ و ’’شیخ‘‘ بھی جہاں خاموش رہیں ایسے ایمان کا تو اللہ ہی حافظ…
ایک مشورہ دیتا ہوں، وہ بھی مفت، پسند آئے تو عمل کیجیے گا اور فطرت کے مطابق بَھد اڑانا چاہیں تو آپ کی مرضی… ذرا اپنی سوشل میڈیا ٹیم سے کہیے کہ ’’پرانے پاکستان ‘‘ والوں کو وولٹیئر، نپولین، شیکسپئر، رَسل اور چرچل کے اقوالوں سے بزعم خود دانشور بن کر اُن کے ووٹ پر انگلی اُٹھانے کے بجائے اپنے مذہب و ثقافت کے دائروں کا ادب سے ایک چکر لگائیں اور پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، خلفائے راشدین، صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) اور اہل بیت اطہار (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کے اقوال ڈھونڈیں تو اپنا چہرہ صاف نظر آجائے گا…ہمیں وولٹیئر یا شیکسپئر کی راہوں پر نہیں چلنا سرکارِ مدینہ کی خاک پا کو سرمہ بنا کر آنکھوں سے لگانا ہے تب ہی یقینا منزل تک پہنچ پائینگے… فی الحال تو چند اقوال آپ کی نذر کیے دیتا ہوں اور اگر تشفی نہ ہو تو اقوال پر مشتمل پوری کتاب بھی آپ کیلئے مرتب کرسکتا ہوں تاکہ آپ مستشرقین اور مغربی مفکروں کی فکرو نظر کی پچ پر ’’رَن‘‘ لینے کے بجائے اپنے ’’نیشنل اسٹیڈیم‘‘ کی وکٹوں پر توکل کرنا سیکھیں… ابتدا میں مولائے کائنات علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے چند اقوال پیشِ خدمت ہیں جو کروڑوں وولٹیئرز اور کھربوں شیکسپئرز پر بھاری ہیں… سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ ’’شکر نعمت میں اضافے کا سبب ہے ‘‘… آپ نے 2013ء کے انتخابات کے بعد سے ’’ناشکری‘‘ کا جو واویلا مچا رکھا ہے اُس نے نعمت میں اضافے کے بجائے ’’مسلسل کمی‘‘ کا تمغہ آپ کو عطا فرمایا ہے ، اب تو آپ کے لبوں کو بھی ’’دھاندلی‘‘ کہتے ہوئے شرم آتی ہے، واللہ بااختیار ہوتے تو منہ سے ہی جھڑ جاتے… پھر باب العلم فرماتے ہیں کہ ’’کام تجربے سے انجام پاتے ہیں‘‘… ذرا غور فرمائیے کہ آپ نے آج تلک اپنے تجربوں سے کیا حاصل کیا؟ بلکہ برا نا مانیے گا جن کے پاس ’’تجربہ‘‘ نام کی چیز تھی آپ نے اُنہیں اپنے دربار سے نکال باہر کیا جیسے کہ جسٹس وجیہہ، مخدوم جاوید ہاشمی، معراج محمد وغیرہ… شیر خدا یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’اعمال آگہی سے پورے ہوتے ہیں‘‘… کیا آپ کو اب تک یہ آگہی حاصل نہیں ہوئی کہ کراچی کس کا ہے ؟اور اگر اِسے اپنا بنانا ہے تو کسی کی ماں کو گالی دینے یا چند گھنٹوں کیلئے ٹرک پر کھڑے ہوکر چکر لگا لینے سے ’’اپنا‘‘ نہیں بنا جاتا جناب! اِس شہر کو پیار و محبت سے جیتا جاتا ہے، اخلاق وآداب یہاں کا طرہ امتیاز ہیں، دیکھ لیجیے کہ میری والدہ مرحومہ کو آپ کے لوگوں نے کیا کچھ نہ کہہ ڈالا مگر میں پھر کہتا ہوں کہ ’’سلام ہے اُس عظیم شوکت خانم صاحبہ کو جنہوں نے اِس ملک کو عمران خان دیا اور جس نے کینسر اسپتال بنا کر انسانیت کی خدمت کی‘‘… پھر امیر المومنین فرماتے ہیں کہ ’’فہم شعور سے ملتا ہے ‘‘…لیکن افسوس کہ بنی گالہ میں فہم کا نام ’’نعیم الحق ہے ‘‘جو پتہ نہیں کس کے شعور سے ملا ہے اور سچ کہتا ہوں کہ اگر یہ فہم زیادہ دیر تک آپ کے ساتھ رہا توآپ وہم کے دائمی مریض بن جائیں گے … فی الحال تو شعور نے بصارت کھوئی ہے ڈر ہے کہ موصوف کے سبب کہیں بصیرت ہی سے محروم نہ ہوجائے… سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا یہ نصیحت آمیز قول بھی یاد رکھیے گا کہ ’’خود بینی میں ہلاکت اور خود پسندی حماقت ہے‘‘…لہٰذا میرے بھائی! خود بینی سے باہر نکلیے، تجزیہ کیجیے، اور ہر ایک کو اوئے ،ابے ،تبے اور اپنے سے چھوٹا اور نیچا سمجھنے کے بجائے اتحاد و اتفاق کی راہ اپنائیے یہیں سے آپ کا عاجزی کا سفر شروع ہوگا… اورآج کیلئے آخری قول کہ ’’قناعت باعث عزت ہے ‘‘…سو خیبر پختونخوا پر قناعت کیجیے،اور بّلا اُٹھا کر دوسروں کے شہروں کو فتح کرنے سے پہلے اُنہیں ’’اپنا‘‘ اور شکست کھانے کے بعد ’’احمق‘‘ کہنے سے گریز کیجیے…
پورا ملک بشمول کراچی وہی کررہا ہے جو اُسے کرنا چاہیے، بلاشبہ اگر انتخابات فیس بک یا ٹوئٹر پر ہوتے تو آپ fake identities کی مدد سے اب تک وزیر اعظم بن چکے ہوتے لیکن مجھے افسوس ہے کہ کم از کم اگلی پانچ صدیوں تک اِس قسم کا کوئی امکان نظر نہیں آتا… آپ ہار چکے ہیں خان صاحب اور اچھا اسپورٹس مین ہارسے سبق سیکھتا ہے تاکہ جیت سکے، حقائق کو تسلیم کیجیے، ایم کیوایم کی حقیقت اور الطاف حسین سے لوگوں کی محبت کو ’’دھاندلی‘‘ کے بجائے ’’ہاں مان لی‘‘ کہہ کر بڑے پن کا مظاہرہ کیجیے… ’’پ‘‘ سے ’’پتنگ‘‘ ہے اور ’’پ‘‘ سے ہی پیارا پاکستان… بّلا زمین پر کام آتا ہے سو زمین پر ہی رہئے، پتنگ آسمانوں پر اُڑتی اچھی لگتی ہے، اُسے وہیں پر اُڑنے دیجیے بلکہ آئیے اور ساتھ مل کر اُڑائیے، ماؤں بہنوں کا مذاق نہیں، حق پرستوں کی ’’پتنگ‘‘…فی الحال تو نتیجہ یہ ہے کہ ’’آدھا مہاجر‘‘ ہار گیا اور ’’پورا مہاجر‘‘ جیت گیا…!!
بشکریہ روزنامہ "جنگ”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے