خیبرپختونخوا:پولیس کے اختیارات کم کرنے کےلئے ترامیم کافیصلہ

خیبرپختونخوا : حکومت نے پولیس کے مالی وانتظامی اختیارات کوکم کرنے کےلئے قانونی ترامیم لانے کافیصلہ کیاہے، حکومت کا موقف ہے کہ مالی وانتظامی اختیارات میں خودمختاری رکھنے والی پولیس جب غلط کام کرتی ہے تو وہ صوبائی حکومت کے گلے پڑتی ہے لیکن جب اچھا کام کرتی ہے تو اس کا سہرا اپنے سرباندھ لیتی ہے، حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ پولیس کے اختیارات کو کم کرنے کےلئے وزیراعظم عمران خان کو رام کیاجائے گا۔صوبائی کابینہ کے اہم ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے کابینہ کے اہم وزراءنے اسلام آبادمیں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی ،اس موقع پر وزیراعلیٰ سمیت متعددوزراءنے پولیس کے خلاف شکایات کے انبارلگادئیے ، عمران خان کوبتایاگیاکہ کرک میں سمادھی جلانے کاواقعہ مکمل طو رپر پولیس کی نااہلی ہے ، مقامی ہندوﺅں نے پولیس کو آگاہ بھی کیاتھا، لیکن وہ ٹھس سے مس نہیں ہوئی ،اراکین اسمبلی حتیٰ کہ وزراءکی بھی پولیس سٹیشن میں توہین کی جاتی ہے، خیبرپختونخوااسمبلی میں سب سے زیادہ تحاریک استحقاق پولیس کے خلاف پیش ہوئی ہیں ۔

ایک اہم صوبائی وزیر نے بتایاکہ وزیراعظم عمران خان کو بتایاگیاکہ جب کسی ایس پی یا ایس ایس پی کے بجائے ڈی ایس پی یا ایس اچ اوکوکال کریں تو وہ یا تو ٹھینگادکھادیتے ہیں یا ٹرخانے کی کوشش کرتے ہیں، اس موقع پر ملاکنڈسے تعلق رکھنے والے کابینہ کے رکن نے بتایاکہ مقامی ڈی ایس پی کوایک واقعے کی رپورٹ کے اندراج سے متعلق کہاگیا جومکمل طو رپر قانونی تھا، لیکن پولیس ایف آئی آرکے اندراج کی بجائے ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی کیونکہ مخالف ایک اہم سیاسی جماعت کا مقامی رہنماتھا ۔

کابینہ کے ایک دوسرے وزیر نے بتایاکہ وزیراعظم عمران خان کوبتایاگیاکہ پولیس کے اختیارات کوکم کرنے کی اشدضرورت ہے، اگر انتظامی ومالی خودمختاری دینی ہے تو پھریہ اختیارات محکمہ تعلیم کوبھی دینی چاہئے ، یہ اختیارات صحت، داخلہ ،بہبودآبادی اور تمام محکموں کوبھی حاصل ہونی چاہئے، پولیس ایکٹ2017ءمیں پولیس کوخودمختاری دیکر صوبائی حکومت نے اپنے پاﺅں پرکلہاڑی ماری ہے، وزیراعظم عمران خان نے تمام تجاویزسنی اورکابینہ اراکین کو یقین دلایاکہ وہ مشاورت کے بعد اس متعلق فیصلہ کریں گے۔

[pullquote]پولیس کو کونسے اضافی اختیارات حاصل ہیں۔۔؟[/pullquote]

تحریک انصاف کی سابق صوبائی حکومت نے 2017ءمیں پولیس ایکٹ کو پاس کیا، جس کے تحت انسپکٹرجنرل پولیس کو پولیس سے متعلق تمام ترانتظامی ومالی اختیارات حاصل ہوگئے، پولیس اب محکمہ خزانہ کے بجائے اپنابجٹ خودبناتی ہے ، اسی طرح کسی بھی پولیس کے پوسٹنگ ٹرانسفرزکااختیاربھی وزیراعلیٰ کوحاصل نہیں ہے، محکمہ پولیس کومحکمہ داخلہ کے ذریعے محکمہ خزانہ سے ون لائنرفنڈدیاجاتاہے اور پھرپولیس کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ جس طریقے سے چاہے وہ اس فنڈکااستعمال کرتی ہے ، اسی طرح آئی جی پولیس کو محکمہ پولیس میں تنزلی اور ترقی کے اختیارات بھی حاصل ہے ۔

محکمہ قانون کے ایک اعلیٰ افسرکے مطابق ہم کہہ سکتے ہیں کہ آئی جی پولیس کو اتنے اختیارات حاصل ہیں کہ وہ وزیراعلیٰ کی بھی نہیں سن سکتے لیکن مروت کی وجہ سے سن لیتے ہیں، ایک وزیراعلیٰ اب کسی بھی محکمے کے افسران کو آﺅٹ آف ٹرن پروموشن نہیں دے سکتا لیکن کورسز کا نام لے کر آئی جی محکمہ پولیس میں یہ اختیارات استعمال کرسکتاہے، 2017ءکے ایکٹ سے قبل پولیس کی بھرتی کااختیارات اراکین اسمبلی سے لیکر محکمہ پولیس کے حوالے کیاگیاتھا اور وہ این ٹی ایس کے ذریعے پولیس بھرتی ہوتی ہے ۔

[pullquote]پولیس کہاں صوبائی حکومت کی بدنامی کاسبب بنی۔۔؟[/pullquote]

گزشتہ سال پشاورمیں عامرتہکالی نامی جوان کو پولیس نے پولیس سٹیشن میں برہنہ کیا ،جس کی ویڈیووائرل ہوئی اس واقعے کے بعد صوبائی حکومت کو شدیدتنقید کانشانہ بنایاگیا ، مجبوری کے طو رپر صوبائی حکومت نے عدالتی کمیشن بنادیا، جس میں 8 پولیس اہلکاروں کو نوکریوں سے برخاست کرنے کی سفارش کی گئی، لیکن اس پورے واقعے کے باعث صوبائی حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تنقید برداشت کرنی پڑی ، گزشتہ سال کے آخرمیں کرک کے سمادھی جلانے کا واقعہ ایک مرتبہ پھر ملک وبین الاقوامی سطح پر صوبائی حکومت کی بدنامی کا سبب بنا۔

نوشہرہ ،پشاوراوردیگرمقامات پربچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات جب رپورٹ ہوئے تو پولیس کی بجائے عوام سے بات چیت کےلئے اراکین اسمبلی ہی میدان میں تھے بعدازاں پولیس نے ملوث افرادکوگرفتارکرلیا لیکن وقتی طور پر پولیس کے پاس کوئی حل موجود نہیں تھا، محکمہ قانون کے ایک اعلیٰ افسرکے مطابق صوبائی حکومت نے محکمہ قانون کو ہدایات جاری کی ہیں کہ پولیس کے اختیارات کو کم کرنے کےلئے قانونی مسودے پرکام شروع کیاجائے، بیشک انہیں مالی اختیارات دئیے جائیں لیکن انتظامی اختیارات صوبائی حکومت اپنے پاس رکھے ،محکمہ قانون کو یہ بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ جس طرح اعلیٰ افسران کے تبادلے اورتعیناتیوں سے قبل وزیراعلیٰ کو فہرست ارسال کی جاتی ہے ، پولیس کے متعلق بھی یہی اقدامات اٹھائے جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے