جدید دور نے تقسیم در تقسیم کا ایسا سلسلہ شروع کیا ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا حصہ بنتے جارہے ہیں، کوئی کتنا بھی روشن خیال ہوجائے جنس، رنگ ،نسل ،ذات پات، مذہب ،فرقے ،زبان اور شہر کی تفریق کی لپیٹ میں کسی نہ کسی طرح آ ہی جاتا ہے۔
اب ایک نئی قسم کی تقسیم سامنے آئی ہے ‘گھروں میں بیٹھی’ اور ‘سڑکوں پر ماری ماری پھرنے والی’ خواتین ! ، گھروں میں بیٹھی ہوئی خواتین گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں اور تاسف سے سر ہلاتی ہیں کہ چہ چہ چہ یہ سڑکوں پر ماری ماری پھرنے والی عورتیں ان کی بھی کیا زندگی ہے، ہم گھروں بیٹھی ہیں، اپنی مرضی سے سونا، جاگنا ،اپنی مرضی کا کھانا پینا، نہ بلوں کی فکر نہ کسی دفتری کام کے جھمیلے، نہ ٹیکس کا حساب کتاب ، نہ کسی باس یا کولیگ کی پریشانی ۔
جب کہ گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی عورتوں کی نظر میں گھروں میں بیٹھی ہوئی عورتوں کا مقام بھی کم و بیش کچھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ انہوں نے روٹی کپڑا مکان کے عوض اپنی زندگیاں گروی رکھی ہوئی ہیں ۔ دن بھر سسرال کی چاکری بھی کرتی ہیں، باتیں بھی سنتی ہیں اور آخر میں ان کے کئے کرائے پر پانی پھیرنے کے لئے یہ ایک جملہ ہی کافی ہوتا ہے ‘ تم کرتی کیا ہو سارا دن؟’
یوں سارا دن گھر میں رہنے والی عورت کی وقعت بھی کم سمجھی جاتی ہے اور کما کر لانے والا مرد سربراہ کی حیثیت سے ہر اچھی سہولت اور بہترین چیز کا حقدار ٹھہرتا ہے ۔ ایسے میں وہ عورت جو صبح اٹھ کر ناشتہ کروانے سے لے کر رات گئے تک سو قسم کے کام نمٹانے کے بعد بھی آن ڈیوٹی ہوتی ہے کہ رات میں اگر کسی کی طبیعت خراب ہو یا کسی کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہی اسے پورا کرنے کی ذمہ دار ہے ۔ لہذا ایک مرد تو آٹھ گھنٹے کی چھٹی کے بعد بہترین سروس اور ایک چھٹی کے دن مکمل آرام کا حق دار ٹھہرتا ہے مگر چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی عورت کو یہ سب مراعات حاصل نہیں ہو پاتیں۔
سڑکوں پر ماری ماری پھرنے والی عورتوں پر غور کیا جائے تو گھروں میں بیٹھی ہوئی عورتوں کو ان کے لئے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اتنا سوچنا چاہئیے کہ وہ کون عورتیں ہیں، جو گھروں سے نکل کر کام کر رہی ہیں یہ ان کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے ،ضرورت بھی اور شوق بھی ! اگر ہر عورت صرف اتنی سی تعلیم حاصل کرے کہ وہ تھوڑا بہت حساب کتاب لکھ سکے یا اپنے بچوں کو سکول کا کام کروا سکے تو ظاہر ہے، ایسی عورت کسی غیر مرد سے اپنا علاج کروانا بھی پسند نہیں کرے گی ، اپنی بچیوں کو کسی مرد استاد سے پڑھوانا پسند نہیں کرے گی ۔اور زندگی کے ہر شعبے میں جہاں جہاں عورت کو اپنے جسم یا ذہن کے اندرونی و بیرونی مسئلے کے حوالے سے باہر کی دنیا کے کسی شخص سے رابطے کی ضرورت پیش آتی ہے ،وہاں وہاں (پیروں فقیروں کو چھوڑ کر ) انہیں خاتون ورکر ہی درکار ہوگی ۔ تو یہ خواتین وہی ہیں جو گھروں سے نکل کر سڑکوں پر ماری ماری پھرتی ہیں ،سردی گرمی برداشت کرتی ہیں اپنے گھر کا آرام تج دیتی ہیں کہ ان کو کسی حکیم نے مشورہ دیا تھا تم اپنا آپ منواؤ اپنے بل بوتے پر کچھ کر کے دکھاؤ تم اس دنیا میں صرف کھانے پینے ، بچے پیدا کرنے گپیں مارنے، ڈیزائنر سوٹ پہننے اور شوہر کی کمائی پر عیش کرنے کے لئے نہیں آئی ہو۔
مگر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ سڑکوں پر ماری ماری پھرنے والی عورتوں سے نفرت کا اظہار کیا تو جاتا ہے مگر صرف ان عورتوں سے جو پڑھی لکھی ہیں آزاد و خودمختار ہیں اپنی پسند کے کیرئیر کا انتخاب کر کے اپنی مرضی کی زندگی جی رہی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسی عورتوں کی تعداد کتنی ہے؟
مگر ان عورتوں کے متعلق کوئی زبان نہیں کھولتا نہ محبت سے نہ نفرت سے جو سڑکوں پر ماری ماری پھرتی ہیں، کمر پر پیچھے بچے باندھے اینٹیں ڈھوتی ، فصلوں کی کٹائی کرتی ، جانوروں کو چارہ ڈالتی نظر آتی ہیں ۔ جو لوگوں کے گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہیں اور ان کی لعن طعن بھی سہتی ہیں۔
تو کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ یہ نفرت صرف پڑھی لکھی خودمختار عورت سے ہے؟ کیا گھر میں بیٹھی ہوئی باہر والی کو دیکھ کر تاسف سے سر مارتی عورت کو خطرہ پڑھی لکھی عورت سے ہے ؟ یا یہ کسی قسم کا احساس کمتری احساس محرومی ہے ؟
اسے اس عورت سے کیوں ہمدردی نہیں جو اس کے گھر میں کام کرنے آتی ہے ؟ یا اسے دیکھ کر تاسف سے سر کیوں نہیں ہلاتی کہ چہ چہ چہ سڑکوں پر ماری ماری پھرنے والی عورت؟ کیونکہ اس کے ساتھ اس کی اپنی ضرورت بندھی ہے ۔ گھر میں بیٹھی ہوئی عورت اپنی سہولت کو دیکھتے ہوئے ایسی عورت کو لعنت ملامت نہیں کر سکتی۔
آدھی رات کو درد زہ میں مبتلا ایسی لعن طعن کرنے والی عورت کیا ، اپنی لیڈی ڈاکٹر کے لئے بھی یہی حقارت کا رویہ اختیار کرے گی؟ یا اس وقت اس کی شکر گزار ہوگی کہ اس نے راتوں کو اپنی نیندیں قربان کرکے جو پڑھائی کی اور اب اپنی فیس لے کر ہی سہی مگر رات کے اس پہر اس کی اور اس کے بچے کی جان بچائی !
کہاں سے آئی وہ لیڈی ڈاکٹر اور وہ آن ڈیوٹی نرس ؟ یہی سڑکوں پر ماری ماری پھرنے والیوں میں سے ایک ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں ان سڑکوں پر ماری ماری پھرنے والیوں کی زندگی کچھ ایسی آسان بھی نہیں ہوتی کہ گھر سے باہر کے کام کو ان کا شوق یا مشغلہ گردانا جاتا ہے ، انہیں گھر میں وہ مراعات بھی حاصل نہیں ہوتیں، جو ایک کمانے والی مرد کو ہوتی ہیں اور گھر کے اندر کام ان کی ذمہ داری اور فرض سمجھا جاتا ہے۔
اس سارے سلسلے میں مرد کا کردار دیکھیں تو گھر میں بیٹھی ہوئی عورتیں خود کو ملکائیں اور مہارانیاں کہلوانا پسند کرتی ہیں ۔ان کے لئے ان کے مردوں کی حیثیت اے ٹی ایم کارڈ جتنی ہی ہوتی ہے، انہوں نے اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ضرورت کے لئے شوہر کی جیب کی طرف ہی دیکھنا ہے ۔اگر شوہر اچھا کما رہا ہے تو سب ٹھیک ہے عورت کے مزے ہیں لیکن اگر اس غریب کی آمدنی کم ہے تو اسے کیسی کیسی باتیں سننے کو ملتی ہیں یہ وہی جانتا ہے یا اس کی لکھی گئی تحریریں اور عورتوں اور بیویوں پر بنائے گئے لطائف اور شکوے اس بات کی گواہی دیتے ہیں ۔ دو ہاتھ کمانے والے اور کئی ہاتھ خرچ کرنے والے یعنی ایک اکیلے انسان پر کئی نفوس کی ذمہ داری جسے وہ کبھی خوشی سے اور کبھی مجبورا” نبھا رہا ہوتا ہے۔
تو ایسا ہے کہ نہ تو گھروں میں بیٹھی ہوئی خواتین ایسی اعلی و ارفع ہیں کہ وہ گھر سے کام کرنے باہر والیوں کو حقیر جانیں اور نہ ہی بالکل ہی بے کار اور بے وقعت ہیں کہ اگر وہ گھر سے باہر نکل کر کچھ نہیں کر رہیں تو وہ کچھ بھی نہیں کر رہی ہیں۔
دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے اپنی اپنی پہچان ہے ۔
[pullquote]ہاں آج کی عورت کو اتنی تعلیم اور اتنا شعور ضرور حاصل ہونا چاہیے کہ[/pullquote]
1۔ اگر کبھی زندگی میں اس پر کوئی ایسی افتاد آ پڑتی ہے کہ اسے گھر سے نکل کر کام کرنا پڑ جائے تو وہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر روزگار حاصل کر سکے ۔اور اپنی نظروں میں سڑکوں پر ماری ماری پھرنے والیوں کے لئے حقارت آمیز الفاظ استعمال کرنے کی بجائے، ان کے لئے سازگار ماحول استوار کریں کہ کبھی اس راہ پر ہمیں بھی چلنا پڑ سکتا ہے اس کے کانٹے ہٹاتے جائیں ۔
2۔ اپنے گھرکے مردوں کی تربیت ان خطوط پر کر سکیں کہ گھر سے باہر نکلی عورت کی بھی ویسی ہی عزت کرو جیسی اپنے گھر کی عورت کی ۔ وہ باہر نکلی ہے تو ضروری نہیں اسے آوارہ بدچلن کہہ کرتر نوالہ سمجھا جائے ۔
3۔ وہ اپنی زندگی کے لئے خود فیصلہ کر سکے کہ اسے کیا کرنا ہے ۔ تاکہ اپنی فرسٹریشن گھر پر ہے تو سڑکوں پر ماری ماری پھرنے والیوں پر نہ نکالے باہر ہے ، تو گھر میں بیٹھی ہوئی عورتوں کو طنز کا نشانہ نہ بنائے ۔
اپنے اس فیصلے پر خوش اور مطمئن ہو کیونکہ اپنی زندگی کے راستے کا تعین اس نے خود کیا ہے ۔