کووڈ 19 ، خواجہ سراوں کے مسائل اور Seek کا کردار

بنیادی انسانی حقوق کے لحاظ سے تمام انسان برابر ہیں،کسی کو کسی پر برتری اور فوقیت حاصل نہیں۔انسانی حقوق اور وقار کے تحفظ کے وعدوں کے باوجود اس وقت بھی دنیا میں کہیں نہ کہیں انسانوں کے خلاف نسل،جنس،ثقافت،عقیدہ و مذہب ،علاقہ، بیماری یا کمزور سماجی و مالی حالت کے باعث امتیازی برتاؤ روا رکھا جا رہا ہے ،جن میں مختلف طبقات مثلا خواتین،معذور افراد ،مذہبی اقلیتیں اور خواجہ سرا افراد ،خانہ بدوش اور مہاجرین کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے،ان کو زندگی کے ہر موڑ پر امتیازی سلوک اور نا انصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتاہے، وہ طبقہ خواجہ سرا افراد کا ہے ،انھیں اپنے گھر کی دہلیز سے لیکر زندگی کے ہر موڑ پر امتیازی سلوک اور سخت سماجی رویوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کسی گھر میں خواجہ سرا بچہ پیدا ہو جائے تو یہ خبر پورے خاندان کے لئے ندامت اور شرمندگی کا باعث سمجھی جاتی ہے، والدین یہ خبر چھپا بھی دیں تو کسی نہ کسی طرح خاندان یا اڑوس پڑوس میں پتہ چل ہی جاتا ہے، ایسی صورتحال میں خواجہ سرا گھر چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچپن سے ہی ان کو امتیازی اور غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اور ان کو تلخ تجربات سے گزرنا پڑتا ہے،جب وہ گھر کی دہلیز سے ٹھکرائے جاتے ہیں تو ظالم سماج کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے ،جس کی وجہ سےانھیں جسمانی اور جنسی تشدد اور استحصال سہنا پڑتا ہے اور کبھی کبھار تو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، جس طبقہ کو انسانی وقار اور زندہ رہنے کے بنیادی حقوق ہی نہ دیئے جائیں، معاشرہ ان کوتسلیم ہی نہ کرے تو وہ تعلیم،صحت اور روزگار جیسے بنیادی انسانی حقوق کیسے حاصل کر سکتا ہے۔؟؟؟

پاکستان میں ٹرانسجینڈر برادری غربت، پسماندگی اور بد حالی کا شکار ہے اور ان کو جنسی، ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی طور پر ہراساں کیا جانا معمولی سی بات سمجھی جاتی ہے، لیکن جن کے اپنے ہی ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھیں گے تو غیروں سے بھلا کیا امید رکھے کوئی ،اگر ان کے والدین اور خاندان ان کو قبول کر لیں اور ان کا سہارا بنیں تو نوبت یہاں تک نہ پہنچے۔

ٹرانسجینڈر افراد کے اکاونٹ کھولنے ،عام شہریوں کے محلوں میں کرائے پر گھر یا کمرے کرائے پر لینے ،والدین یا بہن بھائیوں کے جنازے میں جانے سے لے کر خوراک،صحت،روزگار کے مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ٹرانسجینڈر افراد کے خلاف سنگین نوعیت کے جرائم کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس کے علاؤہ جسمانی تشدد اور قتل کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ، جس کے باعث یہ طبقہ شدید عدم تحفظ اور خوف کا شکار ہے،حکومت نے ٹرانسجینڈر طبقہ کے لئے کسی قسم کی مراعات کا اعلان کیا نہ ہی مراعات میں انہیں حصہ دار بنایا،اس کےعلاؤہ ملک بھر میں معاشرتی اور تفریحی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہونے اور لاک ڈاؤن میں ہونے والے حکومتی روک تھام کے اقدامات سے خاص طور پر ٹرانس جینڈر برادری کو کافی چیلنجز اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کی وجہ سے دوسروں کے مقابلے اس طبقہ کی مشکلات اور پریشانیاں بڑھیں،کرونا وباء کے باعث یہ طبقہ سب سے زیادہ متاثرہوا اور انہیں چیلنجنگ صورتحال کا سامنا رہا،ان کے پاس روزگار کے جو مواقع تھے وہ بھی کھو دئیے اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے زندہ رہنے کے لئے بنیادی ضروریات مثلا کھانا، لباس، رہائش اور صحت کی بنیادی سہولیات پوری کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

خواجہ سرا افراد کی سوشل انکلوژن کے حوالے سے ہزارہ ڈویژن خصوصی طور پر ضلع مانسہرہ میں (SEEK)سماجی تنظیم سوشل ایمپاورمنٹ تھرو ایجویشن اینڈ نالج نے ہزارہ ڈویژن میں مقیم ٹرانسجینڈر اور دیگر محروم طبقات کو امدادی سہولیات فراہم کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے،(SEEK) ٹرانسجنڈر کو با اختیار بنانے کے لئے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق(HRCP) کے اشتراک سے ٹرانسجیندر کی سوشل انکلوژن پر کام کر رہی ہے جو کہ واقعتا ایک انسان دوست اقدام ہے ۔

سیک نے حالیہ دنوں میں جو کام کیا اس پر وہ مبارک باد کی مستحق ہے، یہ اقدامات روشنی کی کرن ہیں ،پاکستان میں ٹرانسجینڈر محرومی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ،ان کوتعلیم،صحت،روزگار اور تمام مسائل اور معاملات پر حکومت کو غور کرنے کی ضرورت ہے اوربی آئی ایس پی، احساس،زکوۃ یا بیت المال یا دیگر سماجی تحفظ کے پروگراموں میں ٹرانس جینڈر کو شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی بقا کو آسان بنایا جا سکے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے