خواجہ سرا افراد اور SEEK کا کردار

دنیا میں جدید ریاستیں اپنے شہریوں کے ٹیکس کی آمدن سے جہاں ریاست کا انتظام چلاتی ہیں تو وہاں ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کی ضروریات کی مکمل زمہ داری اٹھائی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ خوشحالی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے شہریوں یا محروم طبقات کی بحالی اور فلاح و بہبود کی زمہ داری بھی ریاستیں ہی اٹھاتی ہیں مگر پسماندہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا, یہاں ٹیکس دہندہ کو بھی علم نہیں کہ اس کا ریاست کو ادا کیا گیا ٹیکس کہاں اور کیسے خرچ ہوا اور محروم طبقات کی تو بات ہی الگ ہے , جہاں ریاست نہیں پہنچ پاتی وہاں رفاحی ادارے اور مخیر حضرات پہنچتے ہیں اور ریاست کے حصے کا کام کرتے ہیں تاکہ ریاست پر لوگوں کا اعتماد قائم رہے, پوری دنیا میں رفاحی یا بھلائی کے کام دو طرح سے کئیے جاتے ہیں، ایک انفرادی سطح پہ اور دوسرا رفاحی تنظیموں کی صورت میں، جہاں پس منظر اور صلاحیتیں رکھنے والے ایک سے زیادہ لوگ مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تشکیل دیتے ہیں اور باہمی مشاورت سے اپنے کام کے مقاصد طے کر کے پھر اپنے مشن کو آگے لیکر چلتے ہیں۔

مانسہرہ میں رفاحی خدمات سر انجام دینے والی مقامی سماجی تنظیم سوشل ایمپاورمنٹ تھرو ایجوکیشن اینڈ نالج ( SEEK) کی بنیاد بھی ان ہی اصولوں کی بنیاد پر رکھی گئی ،اس ٹیم میں مختلف سماجی اور علمی پس منظر رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ سوشل ایمپاورمنٹ تھرو ایجوکیشن اینڈ نالج ( SEEK)کے نام سے ایک ادارہ مانسہرہ میں محروم طبقات کے لئیے کام کر رہا ہے۔یہ ادارہ پچھلے سال جنوری میں متعارف ہوا، اس ادارے نے اپنے کام کا آغاز خواتین اور خواجہ سراوں کے مسائل سے کیا,سب سے پہلے مانسہرہ میں خواجہ سرا افراد کی یونین قائم کرنے میں ان کی مدد کی اور پھر انٹرنیشنل ویمن ڈے کے موقع پر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے ہال میں مختلف شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کے لئیے ڈسٹرکٹ سوشل ویلفئیر آفس کے ساتھ مل کر ایک ایوارڈ کی تقریب کا اہتمام کیا گیا ،جس میں مختلف کاروبار اور ملازمتیں کرکے معاشرے میں اپنا نام پیدا کرنے والی خواتین کی صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں ایوارڈ اور سرٹیفیکیٹس سے نوازا گیا ۔پھرکرونا وبا کی وجہ سے لاک ڈاون لاگو ہو گیا تو کرونا وبا کے دنوں میں جہاں سب لوگ گھروں میں بیٹھے تھے ،وہاں اس ادارے نے اپنی مدد آپ کے تحت بیواؤں ,یتیموں ,نادار افراد اور خواجہ سراوں کے گھروں تک راشن پہنچایا،انسان کو فقط روٹی کی ہی ضرورت نہیں ہوتی کہ پیٹ بھرا اور یہ جا اور وہ جا……..

[pullquote] اس ادارے نے تین کام کیے [/pullquote]

1- پہلا کام قلم کا استعمال کیا، اس ادارے سے جڑے لوگ سوسائٹی کے بہترین دماغ ہیں، شعور کی بلند ترین سطح پر ہیں، کیا بات کرنی ہے؟ کب کرنی ہے اور کتنی کرنی ہے ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا، ان تمام لوگوں نے اس سوسائٹی کو اپنے تئیں جگانے کی کوشش کی، خواجہ سراوں کے مسائل لکھ کر بتائے، پڑھنے والی آنکھوں اور سوچنے والے دماغوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، ایک وقت تھا جب خواجہ سرا اجنبی تھے، آج مانسہرہ میں اداروں اور سوسائٹی کی حد تک خواجہ سراوں کے مسائل سے آگئی پیدا ہوئی ہے اور مسائل کم ہوئے ہیں اور اس کمی کی وجہ SEEK سے جڑے لوگ اور ان کے لیڈرز ہیں۔

2- اس ادارے نے دوسرا بہترین کام یہ کیا کہ لوگوں کو بول کر خواجہ سراوں کے مسائل بتائے کیونکہ تمام لوگ پڑھنے والے نہیں ہوتے کچھ ویڈیوز کے شوقین ہوتے ہیں، SEEK نے ڈاکو مینٹریز بنائیں، خواجہ سراوں کے مسائل ان کی زبانی لوگوں تک پہنچائے، انکی ویڈیوز سے کئی آنکھیں نم ہوئیں اور کئی لوگوں کی سوچ بدلی ۔

3- اس ادارے کا تیسرا کام راشن کا انتظام تھا

کرونا وبا کے دنوں میں جہاں ہر طبقہ متاثر ہوا، وہاں خواجہ سراء اس وبا سے زیادہ متاثر ہوئے، SEEK نے ضلع مانسہرہ کے تمام خواجہ سراوں کے لیے راشن کا انتظام کیا اور انکے ڈیروں تک راشن پہنچایا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار خواجہ سرا افراد کے لئیے قربانی کے گوشت کا بندوبست کیا گیا ۔ابھی SEEK نے ایچ آر سی پی کیساتھ مل کر انکے لیے جس کام کا آغاز کیا وہ بہت ہی بہترین ہے،عمومی طور پر پورے معاشرے میں اور خاص طور پر زیادہ تر سرکاری اور پرائیویٹ محکموں میں خواجہ سرا افراد کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا جاتا,اپنے ضروی کاموں کے سلسلے میں مختلف اداروں میں جانے والے خواجہ سرا افراد کے ساتھ اہلکار ,جنسی شناخت کی بنا پر عام شہریوں کے بجائے اچھوتوں جیسا سلوک کرتے ہیں،ہسپتالوں میں وارڈ کا مسئلہ ہو یا تھانے میں کوئی شکایت درج کرانی ہو خواجہ سرا افرادکو بیماری سے زیادہ ڈاکٹروں اور طبی عملہ سے تکلیف پہنچتی ہے اور تھانہ میں جس کے خلاف شکایت درج کروانی ہو اس سے زیادہ پولیس کے رویہ سے ڈرتے ہیں،ان وجوہات اور مسائل کا تجزیہ کرنے کے بعد SEEK اس نتیجے پر پنچا کہ سماجی رویوں میں بہتری اور مثبت تبدیلی لائے بغیر محروم طبقات کے مسائل اور مشکلات کم نہیں ہو سکتی۔

اسی سلسلے میں بڑے پیمانے پر سماجی آگاہی پھیلانے کے لئیے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (HRCP)کے اشتراک سے (SEEK )نے مختلف سرکاری محکموں جن میں سوشل ویلفئیر اینڈ وویمن ایمپاورمنٹ,پولیس،نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی( NADRA) ,پاسپورٹ آفس,ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشنر,ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس,ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اور اسسٹنٹ کمشنر آفس کے ساتھ خواجہ سرا افراد کی کوارڈینیشن میٹنگز کا بندوبست کرکے محکموں سربرہان سے ملاقات کا اہتمام کیا اور محکموں کی ایس او پیز سے آگاہی کے ساتھ ساتھ ان کے بنیادی مسائل سے بھی آگاہ کیا ,SEEK نے HRCP کے اشتراک سے میڈیا,طلبہ اور سول سوسائٹی اور خواجہ سرا افراد کے مابین ڈائیلاگز کا اہتمام کیا اور آگائی سیمنارز کا انعقاد بھی کیا ۔

اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے SEEK نے ہزارہ ایکسپریس نیوز کے سٹوڈیو میں قانونی ماہرین,سوشل سائنٹسٹ ,مورخین ,کالج و یونیورسٹی کے اساتذہ,علمائے کرام اور خواجہ سرا افراد کو مدعو کر کے یہ سوالات اٹھائے کہ خواجہ سرا ،افراد کی شناخت کیوں کیسے اور کب قائم ہوئی اور معاشرے میں ان کا ہر طرح کا استحصال ان کی جنسی شناخت کے ساتھ کیسے جڑ گیا؟

اب ان کو کس قسم کی مشکلات اور تکالیف کا سامنا ہے اور ریاست اور سماج کی زمہ داریاں کیا ہیں ،ریاست نے کون کون سے اقدامات اٹھانے ہیں اور سماج نے اپنے رویوں میں کیا تبدیلی اور بہتری لانی ہے؟ ان مسائل پر مختلف ٹاک شوز میں مباحث کے زریعے ایک زبردست اکیڈیمک ڈسکشن کا آغاز کیا اور امید ہے ٹاک شوز میں یہ اکیڈیمک ڈسکشن اور مباحث ہماری ریاست اور سماج کو خواجہ سرا افراد کے ساتھ سلوک, رویوں اور اپنی زمہ داریوں کے سلسلے میں ضرور سوچنے پر مجبور ہوں کرے گی۔

شیرافضل گجر، ردا خان، امتیاز احمد، سارہ ایڈوکیٹ، ارشد صاحب اور ان کے دیگر رفقاء نے جو کام اپنے طور پر کیا تھا اب وہ ایک چھتری تلے جمع ہو کر رہے ہیں۔

اس ادارے سے جڑے تمام لوگوں کے لیے میری نیک تمنائیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے