اسلام نے تو غالب ہونا ہے اور وہ چہاردانگِ عالم میں پھیل کر تمام ادیان وافکار کو چیلنج کررہاہے،مقابلے،مناظرے اورمسابقے کے ہر میدان میں اس وقت وہ فاتحِ اعظم ہے،ضد اور عناد کوتھوڑی دیر کے لئے اگر پرے ہٹایا جائے،تواسلام کے تصورِإلٰہ،تصورِرسالت،تصورِوحی،تصورِعبادت،تصورانسانیت کے سامنے قدیم وجدید فلاسفۂ ومذاہب سرِ تسلیم خم ہیں،موجودہ دنیا اسلام اورمسلمانوں سےبوجۂِ جہل،حسد،بغض یا وہم ونفسیات خائف ہے،افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ اسلام کے پھیلاؤ میں اہل اسلام کے اپنے ہی کرتوت ہیں،
کہیں توفقط نام کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمارا فہم اسلام ہے ہی نہیں،کہیں یہ فہم ناقص اور تنگ نظرہے،کہیں فرقہ وارانہ ہے،تو کہیں ہماری تفہیم،تفسیر اور تشریح عالمی معیار کی نہیں،بیشترمسلمانوں کے کردار کو دیکھاجائے تو اسلام کا نام ونشان بہت پہلےختم ہوجانا چاہیئے تھا،اور اگراسلام کی آفاقی تعلیمات کو پرکھا جائے تواب تک پوری دنیا کو حلقہ بگوشِ اسلام ہوجانا چاہیئے تھا،آج معلومات کا طوفان آیا ہوا ہے،افغان روس مسئلے سے لے کر شام کی حالیہ ہولناک تباہی تک موضوعِ سخن اتفاق سے زیادہ تر اسلام اور مسلمان ہیں،
اس عرصے میں لا تعداد لوگ مشرف باسلام بھی ہوئے،کچھ اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں،کچھ مسلمانوں کو سمجھنے کی کوشش میں لگے ہیں،کچھ مسلمانوں ہی کو اسلام سمجھا رہے ہیں،ڈس انفارمیشن بھی بہت ہے،ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو چند نا رسیدہ ونا فہمیدہ مسلمانوں کے انفرادی یا جماعتی مکروہ اعمال کو اسلام کے پلڑے میں ڈال رہے ہیں،دردِ دل رکھنے والے مسلم وغیر مسلم سب ہی اس صورتِ حال سے کبیدہ خاطر اور نہایت پریشان ہیں۔
صومالیہ، نائجیریا،لیبیا،سینٹرل افریقہ،شام،عراق،لبنان،فلسطین،افغانستان اور برما(میانمار)میں اپنوں اورغیروں کے ہاتھوں ایسی ایسی انسانیت سوزاور شرمناک داستانیں رقم کی گئیں ہیں کہ اس کے تصور سے کلیجہ منہ کو آنے لگتاہے اورانسانیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔
موجودہ ترکی جو ایک مستحکم ریاست بن چکی ہے،آج وہ بھی شدید خطرات کے زد میں ہے،پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے،لیکن ہر طرف سے نشانے پر ہے،پیرس اور کیلی فورنیا واقعات کے بعد نہ صرف پورا عالم اسلام بلکہ دنیا کے کونے کونے میں موجود تمام مسلمان مشکلات کے شکار ہیں،ایسے میں تاریخِ اسلام پر نظر ڈال کر ہمارے مذہبی وسیاسی رہنماؤں کو بند گلی سے نکلنے کے حل تلاش کرنے ہوں گے،مجددین اسلام اور تجدیدِ دین کے ان کارناموں پر نگاہ مرکوز کرنی ہوگی،جن کی بدولت چنگیزی یلغار اور اکبری فتنے کا سدّباب کیاگیاتھا،کیونکہآپﷺ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا،آپ اللہ کے آخری نبی، قرآن اللہ کی آخری کتاب اور اسلام آخری دین ہے۔ نبی کریمﷺ کے وصالِ کے بعد تبلیغ و اشاعت کی ذمہ داری صحابہ کرامؓ پر عائد ہوئی، جسے انہوں نے بحسن و خوبی نبھایااور عرب سے لے کر عجم تک دین اسلام کا پرچم لہرایا، اس کے بعد شجرۂ اسلام کی آبیاری کا فریضہ علمائےاسلام (اولیائےکرام) اپنی اپنی بساط کے مطابق ادا کرتے رہے۔
لیکن دوسری طرف شیطان اور دشمنان اسلام کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ دین اسلام کی مقدس تعلیمات کو مسخ کر دیا جائے، لھٰذا یہ مسلمان رفتہ رفتہ اصل تعلیماتِ نبویﷺ سے دور ہو جاتے ہیں۔ایسے پر فتن ادوار میں اللہ عزوجل مجددین کو بھیجتا ہے، جو دینِ اسلام کوپھرسے صاف و شفاف کردیتا ہے، مجدد کوئی فرد واحد ہی نہیں بلکہ ایک جماعت، کوئی حاکم یابادشاہ وغیرہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ حضورِ اکرمﷺ کا ارشاد ہے: إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا (یقینًا اﷲ تعالٰی اس امت کے لیے ہرسو برس پر ایک مجدد بھیجتا رہے گا جو ان کے لئے انکا دین تازہ کرتا رہے گا)(ابودائود۔كتاب الملاحم۔باب مَا يُذْكَرُ فِي قَرْنِ الْمِائَةِ)۔
ہمارے یہاں آج مختلف فرقوں کی کھینچا تانی محلوں اور مساجد پر قبضوں سے نکل کر ملکوں پر دسترس حاصل کرنے تک پہنچ گئی ہےاور اس کے لئے باقاعدہ جنگیں شروع ہوچکی ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ فی الوقت مسلم فرقوں میں مشترکات پرگفتگو کرکے انہیں قریب لایا جائے،کلیاتِ اسلام کو لیاجائے،جزئیات کو نہ چھیڑاجائے،اپنے اپنے فرقوں اورمکتبہائے فکر کی طرف دیگر فرقوں کے لوگوں کونہ بلایاجائے،ایک دوسرے کی تنقیص وتردید سے اجتناب کیاجائے،آپس میں کیچڑ اچھالنے سے پرپیز کیا جائے،اگر کسی کو اپنی جماعت کی تکثیر ہی مقصود ہے توبرق رفتارانفارمیشن کی اس دنیا میں پُرامن دعوت وتبلیغ کے رُخ کوغیر مسلموں کی طرف حکمتِ عملی اور بالغ نظری کے ساتھ موڑاجائے،پُر کی ہوئی جگہوں کو پُر کرنا تو عبث اور بے کار کام ہے،خالی جگہوں کو پُر کیاجائے،مثلاً لوگوں کو دیوبندی بنانا ہے توچین میں اسلام کا کام کریں، بریلوی بنانا ہے تو روس میں محبتِ رسولﷺ پھیلائیں،اہل حدیث بناناہے تو مغرب میں خدمات انجام دیں،شیعہ بنانا ہے توامریکہ میں حسینیت کا فلسفہ عام کریں،کچھ اوربنانا ہے تو براعظم افریقہ بہت ہے۔یہ کیا بات ہوئی کہ بچوں کی طرح کوئی لفظ اللہ پر قابض ہے،توکوئی اسم محمدﷺ کا دعویدار ہے،تو کوئی حسینؓ کا،کوئی قرآن کا، کوئی حدیث کا ،توکوئی فقہ کا،ارے بھائی یہ سب ہم سب کے ہیں۔تو پھر ہم نے اپنے اعمال وافعال اور اقوال ودعووں سے دینِ اسلام اور امتِ مسلمہ کو مضحکہ کیوں بنارہے ہیں۔
ایسی صورت حال میں ہم کیا ستم رسیدہ مسلمانوں یا عام انسانوں کی مدد کر سکیں گے،حالانکہ اس وقت شدید ضرورت ہے کہ مسلمانوں پر یلغار کرنے والی قوتوں سے مکالمہ وڈائیلاگ کیا جائے،روس اور ترکی کے درمیان بگڑتے تعلقات میں پُل کا کردار ادا کیا جائے،پیرس واقعے کے بعد فرانس میں مسلم کمیونٹی کو سہارا دینے کے لئے وہاں کے حکمرانوں ،میڈیا اور عوام کو اعتماد میں لیاجائے،کیلی فورنیا واقعے کے بعد وہاں ورک کیاجائے،تاکہ کوئی ان واقعات کواسلام، مسلم ممالک اور عام مسلمانوں سے نتھی نہ کرسکے،بحیثیت انسان اور پھرمسلمان شاید آج ہماری ذمہ داریاں ہر سطح پر کئی گنا زیادہ ہوچکی ہیں،مگر جنگ زدہ عوام اور ملکوں میں ہماری یہ ذمہ داریاں فرضِ عین کے درجے تک پہنچ گئی ہیں،ہمیں ان حالات کے تدارک کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،ورنہ کل قیامت کے دن سے پہلے ہی اس دنیاہی میں ہر کسی کو اس کے دائرۂ اختیارت کے بقدر اس کاخمیازہ بھگتناپڑےگا، کیا کوئی مجدد ہے جو اس پُر فتن دور میں امت کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگادے؟۔