موٹر وے پولیس کو گالیوں سے بچائیں

لفظ پولیس جب کوئی ادا کرتا ہے تو پہلا جملہ زبان سے یہی نکلتا ہے کہ خدا ان سے بچائے، کچھ تو پولیس کا تاثر جان بوجھ کر خراب کیا گیا اور کچھ بقول منیر نیازی کے

کُج انج وی راہواں اوکھیاں سَن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی

کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی

کچھ پولیس کو بھی بدنام ہونے کا شوق تھا اور کچھ کسر عوام اور میڈیا نے مل کر پوری کر دی ، سچ تو یہ ہے تھانہ کلچر ابھی تک نہیں بدلا،پولیس آج بھی سفاک دکھائی دیتی ہے، پولیس کا ایک عام سپاہی بھی خود کو آئی جی سے کم نہیں سمجھتا، وہ سمجھتا ہے عوام بھیڑ بکریاں ہیں، بس انہیں ہانکتے جائیں، آج بھی تھانوں میں جو زبان بولی جاتی ہے وہ شرفاء کے کان نہیں سن سکتے، پولیس قاتل و مقتول دونوں سے پیسے لیتی ہے، چائے پانی کے نام پر لوگوں کی جیبیں خالی کی جاتی ہے،

اور تو اور ٹریفک پولیس بلاوجہ گاڑیاں روک کر چالان کرتی ہے، کمزور دیکھا اسے روک لیا طاقت ور کو جانے دیا، اپنے حصے کے لیے ہزاروں کا چالان معمول کی بات ہے اور کوئی بات کرے تو اس پر ٹوٹ بھی پڑتے ہیں،

ایسی حالت میں موٹروے پولیس کے ادارے کا قیام غنیمت کا سبب بنا، لوگ موٹروے پولیس کو عزت دیتے ہیں ، انکی تعریف کرتے ہیں، اگر وہ چالان بھی کرتے ہیں تو اتنے سلیقے سے کرتے ہیں کہ قربان ہونے کو جی چاہتا ہے، مگر اب اس ادارے کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پتا نہیں کون ہے جو یہ چاہتا ہے کہ اس ادارے کو بھی گالی پڑے؟
گالیاں موٹروے پولیس کے حصے میں بھی آنی چاہیں،

اگر کوئی موٹروے پولیس کی موجودہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے تو اسے چاہیے کہ وہ لکھ کر اعلی عہدیدارن کو بتائے کہ خدا کے لیے اس ادارے کو تباہ ہونے سے بچائیں، اب موٹروے پولیس کا رویہ بھی وہی ہوتا جا رہا ہے جو عام پولیس کا ہے

چند دن قبل ہمارے ایک جاننے والے اسکول ٹیچر کا شناختی کارڈ مانسہرہ موٹروے پولیس نے لے لیا، وہ دوست تین دن تک انکے آفس کا چکر لگاتا رہا کسی نے شناختی کارڈ واپس نہیں کیا، صرف اس استاذ کیساتھ ایسا نہیں کیا بلکہ جس جس سے بھی شناختی کارڈ لیا اسے واپس نہیں کیا ،آفس کے باہر لوگوں کا روز ہجوم ہوتا ہے، معزز لوگ اب موٹروے پولیس سے ذلیل ہو رہے ہیں، ایک استاذ کو بھی بند کر دیا، استاذ مستقبل کے معمار تیار کرتا ہے مگر آفس میں بیٹھے بابو لوگوں کو کون سمجھائے کہ استاذ کا مقام کیا ہے؟

دو نوجوانوں نے تلخ لہجے میں بات کی تو پولیس کےجوان
ان پر ٹوٹ پڑے، ہمارے استاذ نے موبائل نکالا تھا تو اسے بھی اٹھا کر بند کر دیا، ہمیں جب بتایا گیا تو ہم اپنے صحافی دوست شیرافضل بھائی کے ساتھ موٹروے پولیس کے آفس گئے تو وہاں جا کر علم ہوا کہ ایک ہجوم باہر کھڑا ہے اور انہیں اندر نہیں جانے دیا جا رہا، سی پیک پر کام کرنے والے مزدور بھی کھڑے تھے، ہم نے اپنے دوست کی غلطی پوچھی تو بتایا گیا کہ اس نے موبائل سے ویڈیوبنانے کی کوشش کی، اگر یہ لکھ کر دے کہ آئندہ میں ایسا نہیں کرونگا تو ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں،

دوست نے لکھ کر دیا تو اسکی جان چھوٹی ، آفس میں کچھ نوجوان بند تھے اور بہت سے باہر رات کو سردی میں کھڑے تھے مگر کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی تھی کہ سردی میں لوگوں کو تکلیف دینے کی بجائے ان سے بات کر کے انہیں گھر بھیجا جائے،

مسئلہ یہ ہے کہ

اس وقت موٹر وے پولیس میں ان لوگوں کا تبادلہ کیا جا رہا ہے جو تھانوں میں رہے، جنہوں نے لوگوں کو گالیاں دینا سیکھا، اور ٹریفک پولیس کے وہ جوان بھیجے جا رہے ہیں جو اپنے حصہ وصول کرنے کے لیے چالان کرتے رہے

تھانے اور ٹریفک پولیس سے آئے لوگ یہاں فٹ نہیں ہو پا رہے، میری رائے یہ ہے کہ تھانہ کلچر سے متاثر لوگوں کو موٹروے پولیس میں بالکل نہ بھیجا جائے یہ موٹروے پولیس کا تشخص خراب کر دینگے،

اس ملک میں واحد ادارہ موٹروے پولیس کا ہے جس کی ساکھ ہے خدا کے لیے اس ساکھ کو تباہ نہ کیا جائے، لوگوں کیساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے، کوئی غلطی کرتا ہے تو چالان کر کے اسے چھوڑا جا سکتا ہے، لوگوں کے شناختی کارڈ لیکر انہیں تنگ کرنا مناسب نہیں، چالان آپ کا حق ہے تذلیل نہیں،

لوگوں کو ذلیل نہ کریں، لوگوں کو گالی نہ دیں، کسی پر ہاتھ نہ اٹھائیں، گالی واپس پڑتی ہے، پہلے ہی کالی وردی بدنام ہے، موٹروے پولیس کی وردی کو صاف رہنے دیا جائے، اگر کوئی پالیسی ساز اس تحریر کو پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ ان چیزوں کا نوٹس لے آخر بادشاہی عوام کی ہوتی ہے – لوگوں عزت دیں وہ بدلے میں آپ کو عزت دینگے، وردی کی عزت کے حوالے سے موٹروے پولیس کو حساس ہونا پڑے گا ورنہ گالیاں آپ کا مقدر ہونگی، یہ نہ ہو ہم جس طرح کالی وردی کی ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں کل کو موٹروے پولیس کی عزت کی ہاری ہوئی جنگ لڑیں –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے