غل غپاڑہ جسے سناٹا سونگھ گیا

یہ کامیابی نواز شریف کے سر ہی جائے گی کہ ان کی مصالحانہ سیاست کی وجہ سے ایک بار پھر بی جے پی کی حکومت نے ”چل کر” پاکستان آنے کی زحمت کی اور ایک عرصے بعد پھر سے دونوں ملک جامع مذاکرات بحال کرنے پر تیار ہو گئے۔ بہت سال پہلے بی جے پی کے وزیر اعظم واجپائی بھی اسی طرح چل کر پاکستان آئے تھے لیکن کرسی سے عشق کرنے والے تین چار جرنیلوں نے اپنے عشق کی خاطر پاکستان کا وجود خطرے میں ڈال کر کارگل کی سازش کردی۔ وہ کہانی سب کو معلوم ہے۔ ایک نئی بات بھارتی صحافی برکھا دت نے اپنی کتاب میں لکھی ہے کہ تباہی سر پر منڈلا رہی تھی کہ لیکن نواز شریف اور کلنٹن (تب کےامریکی صدر) کی دانشمندی نے اسے ٹال دیا۔ یوں کہیے کہ مشرف اور محمود عزیز کی تگڑم نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ٹھان لی تھی لیکن مملکت خداداد دینے والے خداوند نے پاکستان کو بچا لیا۔
اب بات چلی ہے تو سب ٹھیک ہو جانے کی توقع تو کوئی نہیں کرتا لیکن یہ توقع سب کو ہے کہ ٹھیک ہونے کی طرف بات جائے گی ضرور۔ بھارت میں سیاست اور صحافت کے کرتا دھرتا اس بات کو مانیں کہ خرابی کی بنیاد پاکستان میں کم ، بھارت میں زیادہ ہے۔اس لیے کہ پاکستان کی طرف سے بھارت پر کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ پاکستان نے باقی ہندوستان سے اپنا حصہ الگ کر لیا تھا تو اس کا دعویٰ ختم ہو گیا تھا۔ دعویٰ بھارت کے ایک طاقتور طبقے یعنی برہمنوں اور ان کے ہم خیالوں کی طرف سے ہے جو خرابی کی بڑی وجہ ہے اور وہ ”اکھنڈتا” کا دعویٰ ہے۔
یہ لوگ پاکستان کے قیام کو غلطی سمجھتے اور اس ”غلطی”کو ٹھیک کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔جب تک یہ دعویٰ واپس نہیں لیا جاتا۔پاکستان اور بھارت میں امن کے عمل کو خطرہ رہے گا۔ پاکستان کا دعویٰ بھارت پر نہیں ،کشمیر پر ہے بلکہ یوں کہیے کہ تھا۔جنرل مشرف نے بطور صدر، بھارت جا کر یہ دعویٰ واپس لے لیا تھا جس کی گواہی مشرف کے وزیر خارجہ خورشید قصوری کی کتاب میں ہے اور بھارتی صحافی بھی یہی لکھ چکے ہیں کہ مشرف نے کہا تھا کہ کنٹرول لائن کو سرحد مان کر مسئلہ ختم کرو۔ صدر پاکستان کے اس موقف کی تردید نہ تو اس کے بعد آنے والی زرداری حکومت نےکی اور نہ نواز حکومت نے۔ تردید کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ختم ہو چکا۔ اگر ختم نہیں ہوا تو حکومت کو مشرف کی اس پیشکش کو غیر قانونی قرار دینا چاہیے۔لیکن کیا کسی کو لگتا ہے کہ حکومت ایسا کرے گی؟
بھارت اور پاکستان کے عوام کا فائدہ امن میں ہے کابل سے کلکتہ تک کے امن میں۔بد امنی خود ہی لوگوں کی جان نہیں لیتی بلکہ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی غربت زیادہ جانیں لیتی ہے۔غربت سے بڑھ کر جان لیوا بیماری اور کوئی نہیں اور اس کا علاج امن کے سوا کچھ نہیں۔اب بات چل نکلی ہے تو اسے آگے ہی بڑھنا چاہیے ۔خدا پاکستان سمیت اس سارے خطے کو کسی اور کارگل سے بچائے ۔یہ سب لوگوں کی آخری دعا ہے کیونکہ کوئی اور کارگل ہو گیا تو پھر کوئی دعا کرنے والا رہے گا اور نہ دعا کی ضرورت۔
پاکستان اور بھارت میں امن مذاکرات کی غیر متوقع پیش رفت کے عین مو قع پر عمران خان کے انٹرویو نے سب کو حیران کردیا۔ امریکی نشریاتی ادارے”بلوم برگ” کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت حماقتیں بند کریں اور امن قائم کر کے تجارت کریں تاکہ غربت کم ہو۔انہوں نے کہا کہ اگر میں حکمران ہوتا تو فوج کو قائل کرتا کہ امن فائدہ مند شے ہے۔ یاعمران خان دو ہیں؟۔
دوسرا اگر کوئی ہے تو شناخت واضح ہونی چاہیے ورنہ یہی جائے گا کہ یہ عمران خان وہی ہیں جو تحریک انصاف کے قائد ہیں اور جن کی سیاست پر پھوڑی نشینوں کی روزی روٹی کا انحصار ہے۔ خیر، بات تو عمران خان نے سچ ہی کہی ہے لیکن ذرا سوچیے، یہی بات نواز شریف۔ یا چلیے انہیں چھوڑیے، نیچے آجائیے۔ اگر، یہی بات نجم سیٹھی یا عاصمہ جہانگیر نے کہی ہوتی تو سیاپا گروپ کے پھوڑی نشینوں کا غل غپاڑہ سننے اور رقص بسمل دیکھنے کے قابل ہوتا۔ لیکن یہ بات عمران خان نے کہی ہے اس لیے سیاپا گروپ کو لگتا ہے سناٹا سونگھ گیا ہے۔
البتہ ریکارڈ درست رکھنے کے لیے اتنا کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ پاک فوج کو امن کے فائدوں کا اچھی طرح پتہ ہے اور اسے قائل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور بھارت میں امن کے عمل کو شروع ہونے دیا جائے اور اس کام میں حکومت سے تعاون کیا جائے۔دھاندلی کا راگ پھر کسی وقت کے لیے اٹھائیں تو فائدہ ہے،کوئی چاہے تو عمران خان کو اس پرقائل کرے۔
جنرل پرویز مشرف حیران کرنے کی صلاحیت میں اپنی مثال آپ ہیں۔سب سے پہلے آپ نے اپنا جہاز اس میں بیٹھے بیٹے ہائی جیک کروا کے حیران کیا۔ پھر امریکا جیسی سپر پاور کو اس وقت حیران کردیا جب اس نے نائن الیون کے بعدمشرف کے سامنے سات مطالبات رکھے اور مشرف نے چودہ مان لیے۔ امریکا نےسات مطالبات اس لیے رکھے تھے کہ تین چار منوا لیں گے۔ مشرف نے وہ مطالبات بھی مان لیے جو امریکا نے کہے ہی نہیں تھے اور یوں سپر پاورکو حیران کر کے تاریخ لکھ ڈالی۔ پھر واجپائی کی گھٹنا بوسی کے لیے اچانک آگرہ جا کر سارے بھارت کو حراان کر دیا اور پھر اسی ملاقات میں کشمیردینے کی پیشکش کر کے واجپائی کو بھی حیران کر دیا ۔
اب تازہ انٹرویو میں انہوں نے لوگوں کو پھر حیران کرنے کی کوشش کی ہے۔کہا ہے نیشنل سیکیورٹی کونسل کا قیام ضروری ہے۔اس سے مارشل لاء نہیں لگے گا۔ گویا امریکا سے لے کر جاپان تک ،فرانس سے لے کر ویت نام تک، اور برطانیہ سے لے کر آسٹریلیا تک دنیا کے ایک سو ننانوے ملکوں میں جو مارشل لاء نہیں لگ رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں سکیورٹی کونسلیں قائم ہیں۔ واقعی؟۔
ایسے وقت میں ایسی تجویز دینا بھی حیرانی کی بات ہے جب سب پر آشکار ہو چکا ہے کہ سیکیورٹی کونسلوں سے ملک تباہ ہوتے ہیں،بنتے نہیں۔ریکارڈ اب لائبریریوں میں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، سب کچھ ویب پر سرچ کرنے سے مل جاتا ہے، دیکھ لیجیے کہ انڈونیشیا میں سکیورٹی کونسل بنی ، ملک روانڈا سے بھی پیچھے چلا گیا، ترکی میں بنی تو ایشیا کے مرد بیمار سے مرد بیمار ترین بن گیا جونہی سیکیورٹی کونسلیں ختم ہوئیں یوں لگا جیسے کسی نے ترقی کے عمل کا سوئچ آن کردیا ۔
”مرد حیرت” کو ویب پر ”روشن خیال مواد” دیکھنے سے فرصت ملے تو کبھی نظر ڈال لیں، تصیح معلومات ہو جاے گی اور ہاں، یہ بتانا ضروری ہے کہ صرف دو مثالیں ہی یعنی انڈونیشیا اور ترکی کی کیوں دیں گئی ہیں۔ اس لیے کہ ابھی تک ان دو ہی ملکوں میں سکیورٹی کونسل کا تجربہ ہوا ہے، کسی تیسرے ملک میں نہیں۔ پھوڑی نشینوں کی کوشش ہے کہ پاکستان تیسری عبرت ناک مثال بنے۔

بشکریہ جہان پاکستان

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے