اس وقت فرانس میں 50لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں،جو یورپ کے کسی بھی ملک میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے،جن میں اکثریت 20سے 25سال کے نوجوانوں کی ہے،فرانس میں تیزی سے بڑھتی آبادی سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2030ء تک فرانس کا ہرپانچواں شخص مسلمان ہوگا،اس طرح آئندہ 40سالوں میں فرانس اسلامی مملکت بن سکتا ہے،امریکی ادارے کی حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب60کروڑتک پہنچ چکی ہے،جس تیزی سے لوگ اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں ایسے میں آئندہ 15سالوں میں یہ آبادی بڑھ کر دوارب 20کروڑتک پہنچ جائے گی،یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو دیکھ کر ہی لیبیاکے معمرقذافی نے مسلمانوں کے نام پیغام میں کہاتھا کہ مسلمانوں کو یورپ کے خلاف کسی قسم کے ہتھیاراٹھانے کی ضرورت نہیں،آئندہ کچھ دہائیوں میں یورپ کے 50ملین مسلمان یورپ کو اسلامی خطہ میں تبدیل کرسکتے ہیں،شاید یہی وہ پیغام تھا جو گستاخی تصورکیا گیا اور ان کو راستہ سے ہٹادیاگیا۔ فرانس میں ہونے والا حملہ دراصل اسلام اور مسلمانوں پر حملہ کیا گیا ہے،یورپین ممالک میں فرانس وہ ملک ہے جہاں تیزی سے لوگ اسلام کی طرف آرہے تھے۔
امت مسلمہ اس وقت جس دور سے گزررہی ہے یہ دور اسلام کی تاریخ کا انتہائی مشکل ترین دور ہے،امت مسلمہ کو جو مشکلات آج درپیش ہیں وہ مشکلات شاید ماضی میں درپیش نہ تھی،ہرآنے والا دن خطرے اورپریشانیوں کی ایک نئی جہت لے کرطلوع ہورہاہے،آج اسلامی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جو خطرات سے دوچارنہ ہو،دہشت گردی اس حد تک اپنے قدم جماچکی ہے کہ اس سے مسلم و غیرمسلم کوئی محفوظ نہیں،دنیا بھر میں انسانیت کی تذلیل ہورہی ہے،امریکہ میں ہونے والانائن الیون ایک بارہواتھا لیکن اس کے بعد مسلمانوں پر آج تک نائن الیون ہورہے ہیں،وسطیٰ ایشیا میں آگ و خون کا کھیل جاری ہے،دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہاہے،شام میں اب تک لاکھوں افراد اسی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں،پوری دنیا اس پر خاموش تماشائی کا کردارنبھارہی ہے،پاکستان اسی جنگ میں ہزاروں جانیں دہشت گردی میں گنواچکاہے۔
اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے،اسلام نے صرف مسلمانوں کو عزت نہیں بخشی بلکہ ولقد کرمنا بنی آدم کہہ کر پوری انسانیت کو عزت و تکریم میں ڈھالا ہے،موجودہ حالات میں اسلامی دعوت کو عام کرنے کے لیے ماحول کو پرامن بنانا مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے،لیکن اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ تمام مسلم رہنماء خواب غفلت میں ہیں،اپنے اوپرعائد ذمہ داریاں اداکرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہمارامعاشرہ خطرناک تقسیم کی طرف بڑھ رہاہے،دینی اوردنیاوی، پھر اس میں بھی کئی کئی گروہ بن چکے ہیں،دین اوردنیا کو الگ الگ کردیا گیا ہے،حالانکہ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ایک عالمگیر مذہب ہے تو اس ضابطہ حیات میں دین و دنیا دونوں شامل ہوتے ہیں،جس وقت مسلمانوں سے حکومت چھین لی گئی تھی تو مسلم قیادت نے اسلامی تعلیمات کو اس کی اصل شکل میں برقراررکھنے کے لیے جو نصاب تشکیل دیا تھا آج تک ہم اسی نصاب پر چل رہے ہیں،اس وقت وہ نصاب ایک دفاعی نصاب تھا یہی وجہ ہے کہ ہم اس دفاعی نصاب کولے کر اپنے اوراسلام کی دفاع تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں،ورنہ انگریز کے قبضہ سے پہلے دینی و عصری نظام تعلیم ایک ہی نصاب کے تحت حاصل کیا جاتا تھا۔
مدارس کے تعلیم یافتہ علماء ہی اپنی اہلیت کے مطابق بیورکریسی،تعلیم،تجارت اوردیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دیا کرتے تھے،انگریز نے جس طرح عیسائیت کو معاشی و دیگر معاملات سے جدا کرکے صرف مذہب تک محدودکردیا ہے اسی طرح وہ اسلام اوراہل اسلام کو بھی معاشرہ سے الگ تھلگ کرنا چاہتے ہیں،جس کے لیے منظم انداز سے کوششیں جاری ہیں،اس وقت دینی مدارس جزیروں کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں،اس کے اردگردبسنے والی سوسائٹی ایک سمندرکی حیثیت رکھتی ہے یہ سوسائٹی اس سے بالکل مختلف ہے جس کو سمندرمیں بھیجاجاتاہے اس کو اس کی گہرائی اور اس میں پائی جانے والے جانوروں،درندوں سے کیسا نمٹنا ہے یا ان کا کیسے مقابلہ کرنا ہے یہ چیزیں سیکھانا بہت ضروری ہے۔
جب عالم دین معاشرہ کی زبان کو نہیں سمجھے گا تو وہ اس کی ضروریات کیسے پوری کرسکتا ہے،یہی وجہ ہے اس عالم دین کو وہ مقام حاصل نہیں ہوپاتا جواسے ملنا چاہیے،مساجد انتظامیہ مساجد کی تعمیرات پر تو کروڑوں روپے خرچ کردیتی ہیں لیکن امام صاحب کے لیے مقررکردہ وظیفہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے،حضورﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: کہ تم ایسے وقت میں زندگی گزار رہے ہو،جس میں فقہاء زیادہ ہیں اور خطباء کم،ایسے وقت میں علم سے زیادہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے،بعد میں ایسا دور آئے گا کہ سوچنے والے بہت کم ہوں گے اور بولنے والے بہت زیادہ،یہ دورخطرناک ہوگا۔اس وقت ہماری یہی صورت حال ہے کہ ہم میں بولنے والے تو بہت زیادہ ہیں لیکن ایسے افراد کی بہت کمی ہے جو اس پر سوچ کر اس کا حل تلاش کریں،دنیا میں جس قدر دینی قیادت کا نیٹ ورک ہے ایسانیٹ ورک کسی اور این جی اوز کو میسر نہیں ہے،محلے کی مسجد سے لے کر پارلیمنٹ کی مسجد تک علماء کرام ہی موجود ہیں،دینی اعتبار سے ایسے جلسے جلوس کیے جاتے ہیں کہ اتنی افرادی قوت کسی اور طبقہ کے افراد کو میسر نہیں آتی لیکن جب علماء اقتدار کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو ضمانتیں ضبط ہوتی دکھائی دیتی ہیں،اس کی وجہ یہی ہے کہ جو کچھ ہم سے معاشرہ طلب کرتا ہے ہم معاشرہ کو وہ چیزیں دینے سے قاصر ہیں۔
آج ہم نے سمجھ لیا ہے کہ اسلامی نظام ایک متعین اورطے شدہ نظام ہی ہے،حالانکہ اسلام کوئی مستقل نظام فراہم نہیں کرتا بلکہ اسلام ایسے افراد فراہم کرتاہے جو موجودہ حالات کے مطابق نظام کو اسلامی طریقہ کار میں ڈھالیں،قرآن کریم اصول بتاتاہے،اس کو طے ہم کریں گے،ہزار سال بعد بھی اصول وہی ہوں گے لیکن نظام کو بنانے کا طریقہ بدل جائے گا،دینی مدارس سے اس وقت سالانہ جو افراد فارغ ہورہے ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے،لیکن ان کا مستقبل کے حالات ناگفتہ بہ ہیں،دینی مدارس کی بلڈنگوں پر کروڑوں روپے خرچ کردیئے جاتے ہیں لیکن اس میں پڑھانے والے مدرس کی تنخواہ چندہزار روپے تک محدود ہوتی ہے،شرعا اور اخلاقا جب ایک فرد 24گھنٹے ایک ادارہ کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کرتا ہے تو اس ادارہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کی تمام ضروریات زندگی کا خیال رکھے،یہ چیزیں حقوق العباد میں شامل ہیں اور حقوق العباد کے بارے میں علماء کرام ہی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو معاف کردیتے ہیں لیکن حقوق العباد معاف نہیں کرتے۔
اس ایجادات کے دور میں اسلام کی تبلیغ کے لیے جس قدرآسانیاں اب ہیں اس سے پہلے ایسی آسانی میسرنہ تھی،اب تو دنیا سکڑ کر ایک کمرہ میں بند ہوگئی ہے،آپ ایک کمرہ میں بیٹھ کر دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت کا کام سرانجام دے سکتے ہیں،ہمیں نئی ایجادات سے مرعوب ہونے اور اس سے نفرت کرنے کے بجائے اس کا درست انداز سے استعمال کاطریقہ پیش کرنا چاہیے،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب بھی کوئی نئی ایجاد سامنے آتی ہے توعلماء اس کا حل پیش کرنے میں اتنی تاخیر کردیتے ہیں کہ وہ چیز سوسائٹی کاحصہ بن جاتی ہے،بعدازاں مجبورا علماء کو اس پر خاموشی اختیارکرنی پڑتی ہے،نئی ایجادات دنیا کا حصہ ہیں اور ان چیزوں کو اسلام کے مطابق ڈھالنا علماء کرام کی ذمہ داری ہے،جیساکہ علامہ اقبال نے کہاتھا کہ ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کے ہرعلم کو مسلمان کرے۔جب منطق کو دینی نصاب کا حصہ بنایا جارہاتھا اس وقت اس پر بھی اختلاف تھا اور اختلاف اس نوعیت کا تھا کہ اس کے پڑھنے والوں کو کافر قراردیا جارہاتھا۔
دارالافتاء میں اس چیز پر بحث ہورہی تھی کہ آیا منطق کی کتاب سے استنجاء کرنا جائز ہے یا نہیں؟اس وقت بھی بعینہ یہی صورت حال انگریزی کے ساتھ ہے،میں خود ایک دینی ادارہ سے فارغ التحصیل ہوں،ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا چند سال پہلے تک مدارس کے طلبہ پر انگریز ی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی تھی،حتی کہ غیرنصابی اور دینی و قومی جرائد و اخبارات کے پڑھنے پر بھی پابندی تھی۔
ایک مرتبہ مفتی نظام الدین شامزئی ؒ نے اسلام آباد ہوٹل میں بڑی تقریب کا اہتمام کیا جس میں وکلاء،ڈاکٹرز،تاجر اورصحافی برادری سمیت دیگر شعبہ ہائے جات کے افراد کو جمع کیا،مفتی نظام الدین شامزئی نے ان میں بین الاقوامی معاملات پر ایسی تقریر کی کہ تمام افراد نے دانتوں میں انگلیاں دبالی اور ورطہ حیرت میں پڑ گئے کہ ایک مولوی کے پاس دنیا کے حوالے سے اس قدر معلومات بھی ہیں۔بالآخر انہوں نے سوال کردیا کہ حضرت!آپ کو اتنی معلومات کہاں سے حاصل ہوئی ہیں؟تو جوابا فرمایا کہ میں اخبارات کا مطالعہ بڑی پابندی سے کرتا ہوں۔حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ عہد بصیرت ہو۔
علامہ مناظر احسن گیلانی نے ایک مرتبہ طلبہ کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:”ہرزمانے کا ایک ماحول ہوتا ہے زبان ہوتی ہے،تعبیر کا طریقہ ہوتاہے،جب تک ماحول کی ساری خصوصیتوں کو پیش رکھتے ہوئے انہی اصلاحات اور تعبیرات میں آپ اپنی معلومات پیش نہیں کریں گے جو اس عہد کا قالب خاص ہوتا ہے تو آپ کی طرف نہ کوئی توجہ کرے گااورنہ آپ کی باتو ں میں وزن ہوگا“۔اسلام اپنے ماننے والوں کو گوشہ نشینی کا حکم نہیں دیتا بلکہ ترقی کا حکم دیتا ہے،اسلام کی تعلیمات تمام انسانوں کے لیے ہیں،اسلام نے دنیا بھر میں پھیلنا ہے،دین اور دنیا کو الگ کرناگویا اسلام کو کمزور کرنے کی سازش ہے،پہلے عیسائیت میں تجارت و دیگر دنیاداری عیسائی پوپ کے تابع ہواکرتی تھی لیکن ان لوگوں نے مذہب کو دین سے جدا کرکے پوپ کو صرف مذہبی رسومات کی ادائیگی تک محدود کردیا ہے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے،اسلام میں رنگ و نسل اور زبان کی تفریق کی کوئی حیثیت نہیں ہے،تو آج ہم انگریزی زبان سیکھنے اور پڑھنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں،دنیا کے تمام علوم تمام ایجادات مسلمانوں کا ورثہ ہیں،آج اسلام کی تبلیغ کے لیے تمام آلات میسر ہیں،آج ایک کمرہ میں بیٹھ کر دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ کرسکتے ہیں،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں جس طرح معاشرہ سے الگ تھلگ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ان کو ناکام بنائیں،آج مغربی ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہاہے،وہ لوگ مادر پدر آزادی سے تنگ آچکے ہیں،یورپین لوگ ذہنی طور پر غیرمطمئن ہیں،وہ لوگ اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ اسلام کی صحیح تصویرپیش کی جائے۔
ایک نو مسلم سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے اسلام قبول کیوں کیا؟تو اس نے کہاکہ میرے سامنے اسلام کی تین تصویریں تھی،ایک وہ جو ہمارے آباؤاجداد نے ہمیں بتلائی تھی،اس میں اسلام ایک خونخوار مذہب تھا،دوسری تصویروہ تھی جو ہم نے مسلمانوں کے معاملات کو دیکھا،اورتیسری تصویر وہ تھی جو ہم نے خود اسلام کا مطالعہ کیا،ہمارے مطالعہ سے جو تصویر بنی وہ پہلی دونوں تصویروں سے بالکل مختلف تھی،ہمیں مطالعہ سے پتہ چلا کہ اسلام ایک پرامن اورسلامتی کا دین ہے،آج مسلم ممالک سمیت دنیابھرمیں جو کچھ ہورہاہے یہ صرف اسلام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا ہے،اوراس پر علماء اور مسلمان رہنماؤں کی خاموشی مایوس کن ہے،آج ہمارا کردار ہمارا وجود ہی اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن رہاہے،آج ضرورت ہے کہ دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ میں شاہ ولی اللہ جیسی فکر ہو،صلاحیت ہو،امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں شاہ ولی اللہ پر پی ایچ ڈی کرائی جارہی ہے،لیکن ہمارے مدارس میں شاہ ولی اللہ پر مضامین نہ ہونے کے برابر ہیں۔
دوڑوکہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا