جب میں نے نانا سے شیعوں اور سنیوں کے بارے میں پوچھا

بچپن سے جہاں کہیں بھی لفظ "شدت پسند” لکھا نظر آیا فورا پتہ چل گیا کہ مسلمانوں کی بات ہو رہی ہے۔ دماغ نے کبھی بھی مسلمانوں کے لئے اس اصطلاح کو پسند نہ کیا اور ہمیشہ "یہودیوں کی سازش” قرار دے کر رد کر دیا۔ مسلمانوں کے بارے میں جب بھی سوچا ذہن کے پردے پر میرے نانا کی مسکراتی ہوئی تصویر بن گئی جو میرے بچپن میں میرے لیئے آئے دن کچھ کھانے کے لئے لاتے تھے اور جن کی آمد کا پتہ دور سے ہی ان کے عطر کی مہک دے دیا کرتی تھی جو جیسے ہی میری ناک تک پہنچتی میں فورا پاوں دھونے اور جوتا ڈھونڈنے کی مہم پہ روانہ ہو جاتا ۔ایسا نہ تھا کہ وہ میرے ننگے اور گندے پاؤں دیکھ کر غصہ ہوتے تھے بلکہ ان کی یہ بات ذہن نشین تھی کہ نبی کریم نے فرمایا "صفائی نصف ایمان ہے”۔

کھانا اکثر ان کے ساتھ کھاتا۔ وہ پہلے میری پلیٹ میں ڈالتے اور کہتے ” جب کوئی نعمت خدواندی دسترخوان پر سجے تو سب سے پہلے سب سے چھوٹے کو ڈال کر دینا چاہیئے۔ یہ میرے نبی پاک کی سنت ہے”۔۔ اکثر جب میں کھانا شروع کرتا تو اچانک یاد آتا کہ بسم اللہ تو پڑھی نہیں۔ وہ سن کر مسکراتے اور فضول کی بحث میں پڑنے کی بجائے مسکراتے ہوئے اونچی آواز میں کھانا کھانے کی دعا پڑھتے اور میرے سامنے پھر سے میرے واسطے بسم اللہ پڑھ کر دوبارہ سے کھانا شروع کرتے۔ میں ان کے پیچھے بسم اللہ پڑھ کر کھانے لگتا۔

پرائمری سکول تک وہی اکثر سخت سردی و سخت گرمی میں مجھے میرے گھر سے لیتے اور سائیکل پر بٹھا کر سکول چھوڑنے جاتے۔ گرمی کی تپتی دوپہروں میں چھٹی سے کچھ وقت پہلے ہی میرے سکول کے دروازے پہ میرے انتظار میں کھڑے ہوتے۔ سخت گرمی ہو یا سردی اکثر سکول سے واپس آتے اچانک سائیکل روکتے اور راہ میں پڑے کسی پتھر، کسی رکاوٹ، کسی لکڑی کی شاخ کو ہٹاتے۔ اسے دور پھینکتے اور پھر سائیکل پر بیٹھ کر سائیکل چلانے لگتے۔ ساتھ ساتھ کہتے ” راہ سے پتھر ہٹانا نبی پاک کا وطیرہ تھا۔ آپ کا فرمان تھا کہ جس نے رہگزار سے رکاوٹ ہٹائی گویا اس نے خدا کو راضی کر لیا”۔

میں نے ان کو کبھی غصے سے چیختے چنگھاڑتے نہیں دیکھا ، بلاوجہ کی بحث کرتے نہیں سنا، لوگوں سے الجھتے نہیں دیکھا، سو میرے لئے یہ شدت پسند جیسی اصطلاح مسلمانوں کے لئے استعمال ہوتے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ تھا۔ یہ ماننا بھی مشکل تھا کہ مسلمان شدت پسند بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ میرے لئے میرے نانا مسلمان تھے اور تمام مسلمان میرے نانا جیسے تھے۔ اس کے علاوہ کسی قسم کے مسلمانوں کو جانتا ہی نہ تھا۔ مذہب سے آگاہی بھی اتنی ہی تھی جتنی میرے نانا کے اعمال، ان کی باتیں، ان کی سنائی کہانیوں اور ان کے کمرے ہی میں موجود ان کے چھوٹے سے کتب خانے میں موجود کتابوں میں سے چند کا مطالعہ کرنے سے حاصل ہوئیں۔

چونکہ میرے نانا شدت پسندی کی تعریف پر پورا نہیں اترتے تھے سو ان کے کسی عمل، ان کے پاس موجود کتب اور ان کی سنائی کہانیوں میں سے مسالک کے بارے میں بھی نہ جان پایا۔ بس اتنا معلوم تھا کہ میرا گھرانہ فقہ جعفریہ پر عمل پیرا ہے۔ جسے مسلک کی زبان میں شیعہ اثناء عشری کہا جاتا ہے۔ یا پھر یہ کانوں سن رکھا تھا کہ مسلمانوں میں دو طبقہ فکر ہیں۔ سنی اور شیعہ۔ بس اتنا سا ہی علم تھا۔کبھی میں ان سے پوچھتا

نانا شیعہ کسے کہتے ہیں؟

وہ مسکراتے اور کہتے ” جو نبی پاک اور ان کی اہلبیت یعنی گھرانے کا چاہنے والا ہو۔ شیعہ کا لفظی مطلب "شدید محبت کرنے والا” ہے اور یہ لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے قرآن مجید میں آیا ہے جس میں خدا کہتا ہے کہ ابراہیم ہمارا شیعہ تھا۔ بیٹا ، یعنی ابراہیم ہمیں شدت سے چاہنے والا تھا۔
اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ تو نانا سنی کسے کہتے ہیں ؟

اس سوال پر وہ حسب معمول دھیما سا مسکراتے بولتے ” بیٹا !! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو سنت کہتے ہیں۔ اور جو ان سنت پر عمل کرے اسے سنی کہتے ہیں۔

اچھا۔۔۔ تو نانا دونوں میں پھر کیا فرق ہوا۔ دونوں ہی تو نبی پاک کو چاہتے اور ان سے محبت کرتے ہیں ؟

” ہاں بیٹا۔ تم کو کس نے کہا کہ دونوں کی چاہت میں یا ایمان میں فرق ہے ؟ بس یوں سمجھ لو کہ نبی کریم تک پہنچنے کے ، ان سے محبت کرنے کے دو راستے ہیں۔ بس ذرا سا فکری و فقہی یا بعد از رحلت نبی پاک تاریخی واقعات کا اختلاف ہے جو کہ اتنا معنی نہیں رکھتا۔ بس کچھ لوگوں نے اس اختلاف کو گہرا بنا رکھا ہے ورنہ تو دین ایک، کتاب ایک، رسول ایک، عبادات پر ایک سا ایمان۔ سب کچھ تو ایک ہے۔ ہمارا بس یہ وطیرہ ہونا چاہیئے کہ ہم وہ سب کام کریں جو نبی پاک نے کئے تھے”

اچھا نانا۔۔۔ مطلب ہم نے سارے وہ کام کرنے ہیں جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے تھے؟

"ہاں بالکل سارے وہ کام کرنے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔ چل اب سو جا رات ہو گئی۔ صبح سکول بھی جانا ہے”

پھر تھوڑا بڑا ہوا تو دوسرے کئی مسالک کا نام سنا۔ گھر آ کر نانا سے ان کے بارے میں جاننا چاہا تو انہوں نے نمازوں کی پابندی کی تلقین کر کے موضوع ہی بدل دیا۔ میٹرک کے امتحانات کے بعد فارغ تھا تو کمپیوٹر کورس کے لئے ووکیشنل کالج میں ایڈمیشن لیا۔ وہاں سنیوں اور شیعوں کی بحث سننے کا اتفاق ہوا۔ بحث نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کی تعداد سے متعلق تھی۔ اس بحث نے اتنی شدت اختیار کی کہ پہلے آوازیں بلند ہوئیں اور پھر ان نام نہاد مسلمانوں نے اخلاقیات کی ساری حدیں پھلانگتے ہوئے دلائل میں گالیوں کو بھی شامل کر لیا۔ یہ میرے لئے مسلمانوں کا ایک نیا رخ تھا یا مسلمانوں کی ایک نئی قسم تھی جن کی قوت برداشت کا یہ عالم تھا کہ ذرا سے اختلافی جملے سے وہ خود پر سے اختیار کھو بیٹھتے تھے اور آہستہ آہستہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتے ہوئے یہ بھول جاتے تھے کہ غصہ حرام ہے۔ نانا نے بتایا تھا کہ نبی پاک نے کہا ہے کہ غصہ حرام ہے ۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے شراب حرام ہے یا جیسے خنزیر حرام ہے۔

تب میں نے سوچا میرے نانا تو تپتی دھوپ میں اتنی دیر کھڑے رہ کر بھی غصہ نہیں ہوتے اور یہ مسلمان ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر تپ رہے ہیں؟ تب اس بات کا بھی شدت سے احساس ہوا کہ ان کے بڑوں میں بھی کوئی "نانا” ہوتا تو یہ یوں آپس میں گتھم گتھا نہ ہو رہے ہوتے۔ تب میں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ میں کبھی بھی سنی شیعہ وغیرہ نہیں بنوں گا۔ میں صرف مسلمان بنوں گا۔ میرے نانا جیسا مسلمان جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے دوسرے لوگ ہمیشہ محفوظ رہیں اور جسے قیامت والے دن کم از کم پہلے سوال میں سے تو پورے نمبر ملیں اور کوئی ایک نمبر بھی نہ کٹے۔

گو کہ وقت کے ساتھ میں نے مسلمانوں کے کئی رخ دیکھے اور یہ سبھی رخ بھی کچھ کم بھیانک نہ تھے لیکن شدت پسندی کا لیبل لگانے کے لئے یہ بھی کچھ کم معلوم ہوئے سو اپنے اعمال بد پر "یہودیوں کی سازش” کا لیبل لگانا جاری رہا۔ اختلافی مسائل کی گتھی نے مجھے تاریخ کی کتابوں میں الجھا دیا۔ جوانی طبری، ابن اسحاق، ہشام، موطا، المستدرک، نہج البلاغہ، اصول کافی، صحاح ستہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ پڑھنے میں گزرنے لگی۔ جوں جوں پڑھتا جاتا دماغ میں موجود سب کچھ کلیئر ہوتا جاتا۔

جب میں نے سوشل میڈیا کا استعمال شروع کیا۔ یوں لگا جیسے مینڈک کنویں سے باہر آ گیا ہے۔ نئی دنیا۔۔۔۔۔۔ بہت بڑی دنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیالات تک سے زیادہ وسیع دنیا اور اس دنیا میں بسنے والے مختلف لوگ جن کے نہ صرف رنگ اور قومیت مختلف تھی بلکہ عقائد، نظریات، خیالات، سوچ حتی کہ سوچنے کا طریقہ تک مختلف تھا۔ یہاں مسلمانوں کی ایک نئی قسم سے واسطہ پڑا۔ یہ مسلمان اپنے علاوہ سب کو کافر سمجھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ کافر کو دین اسلام کی طرف بلانے کی بجائے قتل کر دینا چاہیئے۔ نہ صرف یہ بلکہ جو شخص ان کے نظریے سے اختلاف رکھتا اس پر بھی کفر کا فتوی لگا دیتے۔
معمولی اختلافات جن کا دین و دنیا سے سرے سے کوئی واسطہ ہی نہ ہوتا اس پر دوسرے مسلمانوں سے بحث کرتے اور بحث تو تکار سے ہوتی گالم گلوچ تک پہنچ جاتی یا کبھی دوران بحث گالی کی نوبت نہ بھی آتی تو اس بحث کے تذکرے میں گالی دینا قابل فخر بات سمجھتے۔ ان سوشل میڈیائی مسلمانوں سے ملنے کے بعد میں اس وجہ کی تلاش میں ہوں جس کے باعث میں اسے بھی "یہودیوں کی سازش” کا نام دے کر سکون سے سو جایا کروں۔ یا پھر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لوں ۔اس بات کو بھی بہت اچھے سے سمجھ چکا ہوں کہ بے خبری کو نعمت کیوں کہا گیا ہے۔ یہ بھی سوچتا رہتا ہوں کہ مسلمان بننا اتنا ہی آسان ہوتا جتنا میرے نانا نے بتایا تو سب مسلمان بننا پسند کرتے۔ یہ بھی چاہتا ہوں کہ نانا کو جا کر بتاؤں کہ ان کا چوزہ ان کے پروں کے نیچے سے نکلتے ہی عجیب سی الجھنوں میں الجھ کر رہ گیا تھا ۔ ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اب میں کیا کروں؟ مگر کس سے پوچھوں ؟ اب تو چاروں اوڑ قبر سی خاموشی طاری ہے۔ قبر سے جواب نہیں آتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے