بیلسٹک میزائل اور ایرانی عزائم

یران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان جولائی میں ہونے والا جامع ایٹمی معاہدہ تہران کے بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کے سلسلے میں خاصا ابہام رکھتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق ایران اس وقت تک بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھائے گا جب تک اس معاہدے کو آٹھ سال پورے نہ ہو جائیں یا بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی اس بارے میں جامع نتائج کی رپورٹ جاری کر دے، ان دونوں
شرائط میں سے جو پہلے واقع ہو جائے وہی قابل عمل ہوگی۔

تاہم ایران نے اس پابندی کی پرواہ کئے بغیر طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل اور لیزر گائڈڈ میزائلوں کے تجربات جاری رکھے ہوے ہیں، جو اس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اس معاہدے کے فوری بعد اکتوبر اور نومبر میں ایران نے ایک نئے بیلسٹک میزائل کے تجربات کئے جو کئی قسم کے ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ایرانی لیڈر اپنے ایٹمی ہتھیاروں اور فوجی تیاری کے منصوبوں کے بارے میں بڑی آزادی سے اظہار خیال کرتے ہیں۔ جب ایران نے فاتح ۳۱۳ نامی میزائل بنانے کا اعلان کیا تو صدر حسن روحانی نے کہا کہ ’ہم مستقبل قریب میں ایک نئے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرنے والے ہیں جو ہمارے دشمنوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھے گا‘۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ‘فارس’ نے اس میزائل کی تصویر بھی جاری کی تھی۔

یہاں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایران کو اتنے مختلف النوع بیلسٹک میزائلوں کی کیا ضرورت ہے؟ اسے سلامتی کونسل کی قراردادوں اور حالیہ ایٹمی معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر کوئی خوف کیوں نہیں ہے؟ اس پر عالمی برادری کا رد عمل کیا ہوگا اور اس کے ایٹمی معاہدے پر کیا اثرات ہوں گے؟
خطے کو درپیش بیلسٹک خطرات

بیلسٹک میزائل صلاحیت ایران کی قومی سلامتی پالیسی کا ایک بنیادی ستون ہےاور پاسداران انقلاب کی اہم ترین ذمہ داریوں میں ایٹمی صلاحیت کے حصول اور خطے میں اپنی پروردہ پراکسی قوتوں کی سرپرستی کے بعد یہ تیسری ترجیح ہے۔ ایران کا بیلسٹک میزائل پروگرام پورے مشرقی وسطیٰ میں سب سے بڑا اور وسیع النوع ہے اور اسرائیل سےبھی بہتر ہے۔ ایران کے سوا کوئی ملک ایٹمی صلاحیت کے حصول سے پہلے طویل فاصلے کے بیلسٹک میزائل نہیں بنا سکا اور یہ صلاحیت پاسداران انقلاب کو خطے کی سب سے خوفناک فوجوں کی صف میں شامل کردیتی ہے۔ بیلسٹک میزائل حملے اور دفاع دونوں مقاصد کے لئے کام آتے ہیں مگر ان کا بنیادی استعمال ایٹمی ہتھیار طویل فاصلے کے ہدف تک لے جانا ہوتا ہے۔
ایران بیلسٹک میزائلوں سے مشرقی وسطی کے کسی بھی ملک کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر ایرانی قیادت اس پر بھی مطمئن نہیں ہے اور اس میں مزید اضافہ کرنا چاہتے ہے۔ ایران کی بیلسٹک میزائل صلاحیت شمالی کوریا کے تعاون سے پروان چڑھی ہے مگر ایران نے بتدریج اس میں خود انحصاری حاصل کر لی اور جدید ٹیکنالوجی میں بہتری پیدا کر کے بیلسٹک صلاحیت کو مزید وسعت دی ہے۔

خطے پر اثرات اور بڑے ممالک کا رد عمل

جید ترین اور مہلک ترین بیلسٹک میزائلوں کے حصول کا ایرانی عزم اور ہٹ دھرمی خطے میں فوجی قوت کے ذریعے بالادستی حاصل کرنے کے عزائم کی عکاسی کرتی ہے۔ دشمنوں سے لڑنے کی ضرورت پر اصرار کے ذریعے پاسداران انقلاب کی قیادت نے ایرانی پارلیمنٹ سے اربوں ڈالر کے بجٹ بیلسٹک میزائل پروگرام کے لئے حاصل کیے ہیں۔ ایرانی فوج کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کی وجہ سے پاسداران انقلاب اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی مقبولیت میں بھی لازماً اضافہ ہوا ہے۔

یہ کہا جاتا ہے کہ ایران، بیلسٹک میزائل دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں کرے گا، لیکن میزائل پروگرام کی مستقل توسیع اور کثرت سے تجربات کا مقصد یقیناً خطے میں خوف پھیلانا ہے، جو لازماً خطے میں مزید عدم استحکام اور فوجی سازوسامان اور ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافہ کرے گا۔ مثلاً اسرائیل نے ایرانی بیلسٹک میزائل پروگرام کے جواب میں اپنے ایرو میزائل ڈیفنس سسٹم میں توسیع شروع کر دی ہے۔

 

اس صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے ایٹمی معاہدے سے تہران کے علاقائی بالادستی کے عزائم اور خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئئ ہے بلکہ الٹا پاسداران انقلاب کی قیادت مزید دیدہ دلیری سے فوجی قوت اور عزائم کا اظہار کر رہی ہے۔ ۱۹۸۰ سے آج تک عالمی برادری کے تمام تر دبأو کے باوجود ایران کامیابی سے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو مستقل ترقی دیتا رہا اور اسے خطے کا سب سے بڑا پروگرام بناچکا ہے، اور اب ایرانی میزائیلوں کی مار کرنے کی صلاحیت ۵۰۰ کلومیٹر سے بڑھ کر ۲۰۰۰ کلومیٹر ہو چکی ہے۔

اسی خطرے کے پیش نظر سلامتی کونسل نے قرارداد ۱۹۲۹ منظور کی تھی جس نے ایران کو پابند کیا تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار لے جانے والے بیلسٹک میزائل اور ان میزائلوں کو فائر کرنے والے نظام تیار کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھائے گا اور دنیا، ایران کو اس ٹیکنالوجی کی منتقلی روکنے کے لئے ضروری قدم اٹھائے گی ۔

تاہم اس کا امکان بہت کم ہے کہ ایران کی تیزی سے بڑھتی بیلسٹک میزائل صلاحیت پر سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی (P5+1)، جنہوں نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کیا ہے، کوئی رد عمل ظاہر کریں گے۔اور نہ ہی ایران کی ان کھلم کھلا خلاف ورزیوں کا ان ممالک کے اس مجوزہ فیصلے پر کوئی اثر پڑے گا جس کے تحت وہ اگلے سال کا اوائل میں ایران پر سے بیلسٹک میزائل پروگرام اور اقوام متحدہ کی دیگر پابندیاں اٹھا لیں گے۔ دراصل پی فائیو پلس ون ممالک ایران کی فوجی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے اس کی مکمل پشت پناہی کر رہے ہیں اور علاقائی بالادستی کے عزائم میں پاسداران انقلاب کی پہلے سے زیادہ حمایت کر رہے ہیں۔

بشکریہ :العربیہ اردو ڈاٹ نیٹ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے