اب کسی کو شرم نہیں آتی!

شہر میں اپنے دو تین ٹھکانے ہیں جہاں کبھی کبھار چکر لگ جاتا ہے۔ ان میں سے ایک بڑا ٹھکانہ کہیں یا ڈیرہ میجر عامر کا گھر ہے‘ کچھ سیاست کی خیر خبر جہاں مل جاتی ہے اور ماضی کے راز نکلوانے میں بھی کبھی کامیابی مل جاتی ہے۔ میجر عامر کے پاس سینکڑوں راز ہیں اور کہانیاں‘ اوپر سے انہیں سنانے کا فن بھی آتا ہے۔ کبھی سوچتا ہوں پشاور کا قصہ خوانی بازار میجر عامر جیسے قصہ گو پختونوں ہی کی وجہ سے مشہور ہوا ہوگا۔وہ ہر ایشو پر رائے رکھتے ہیں اور ان کے پاس خاصے جواز موجود ہوتے ہیں۔ان کے ہاں کچھ دن پہلے ایک اہم وزیر سے ملاقات ہوگئی‘ میں نے کہا: پاکستان بھی عجیب ملک ہے جہاں ایسی ایسی باتیں ہوتی ہیں بندہ جن کا تصور بھی نہیں کرسکتا‘ ہم نے کب سوچا تھا کہ پنجاب میں ڈپٹی کمشنر بھی پیسے دے کر لگیں گے۔ سلیم صافی اور اینکر پرسن عادل شاہ زیب بھی موجود تھے۔سلیم صافی کہنے لگے : خیبر پختونخوا میں تو یہ عام سی بات رہی ہے۔میں نے کہا: ہاں خیبر پختونخوا میں عام بات ہوگی لیکن پنجاب میں کمشنر‘ڈپٹی کمشنر یا باقی اعلیٰ عہدے داروں کے بارے میں کبھی نہ سنا تھا‘ وہ بھی اب پیسے دے کر ڈپٹی کمشنر لگ رہے ہیں۔ ان وزیر صاحب نے ہاں میں ہاں ملائی اور بولے: یہ بات درست ہے کہ پنجاب میں پہلی دفعہ ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر افسران پیسے دے کر لگ رہے ہیں۔

کیا کبھی سوچا تھا کہ کوئی سی ایس ایس افسر یا انگریز دور کی انڈین سول سروس کی وراثت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے والے آج کے سول افسران کسی ضلع میں افسر لگنے کیلئے وزیراعلیٰ کے دفتر میں کسی ”ٹی کے‘‘ نام کے افسر سے ”ٹیکے‘‘ لگوا کر ڈپٹی کمشنر کا عہدہ سنبھالیں گے؟ کیا پاکستانی سول سروس خصوصاً ڈی ایم جی کلاس اس لیول تک گر چکی ہے کہ اب انہوں نے ڈاکٹر فائوسٹس کی طرح لوسیفر شیطان کو اپنی روح بیچنا شروع کر دی ہے؟ کیا دنیاوی فائدوں کیلئے اپنی روح کا سودا کیا جاتا ہے؟مجھے اس وزیر کی کنفرمیشن کے بعد ڈاکٹر ظفر الطاف یاد آئے‘ ان کا چہرہ یاد آیا جب وہ ڈپٹی کمشنر ساہیوال کے دور کے واقعات فخر سے سناتے تھے۔ میں انہیں ہنستے ہوئے کہتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب ڈی ایم جی افسر بے چارہ گریڈ بائیس لے کر وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے بھی ریٹائر ہو جائے وہ ساری عمر رہتا ڈپٹی کمشنر ہی ہے۔ کسی نہ کسی گفتگو میں وہ یہ ذکر ضرور لے آئے گا کہ جب میں ڈپٹی کمشنر تھا تو میں نے یہ کیا ‘وہ کیا۔ کیا وجہ ہے ان صاحبان کے پاس نہ اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر کوئی یادیں ہیں اور نہ ہی وفاقی سیکرٹری کے طور پر‘ ساری تان ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر ٹوٹتی ہے؟کیا ڈی ایم جی کلاس کے پاس یہ واحد عہدہ‘ رتبہ اور تمکنت ہے جس سے وہ عام انسانوں پر رعب ڈالتے رہیں گے؟

ڈاکٹر صاحب ہنس پڑتے اور کہتے کہ انگریز دور کے ڈپٹی کمشنر کی اپنی ‘ٹور‘ تھی‘ وہ سارا ضلع گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر پھرتا تھا‘ اس عہدے میں ہی انگریز سرکار کی جان تھی۔ بڑے بڑے جاگیردار ‘ وڈیرے‘ نواب اور امیر ڈپٹی کمشنر کی ایک نظرِکرم کیلئے بچھے جاتے تھے۔وہ گھنٹوں صاحب بہادر کے دفتر کے باہر بڑی پگ باندھ کر انتظار کرتے کہ وہ باہر نکلے تو اسے سلام کر کے درخواست کریں کہ وہ ان کے ڈیرے پر کھانا کھائے تاکہ وہ علاقے کی رعایا پر رعب اور دبدبہ ڈال سکیں کہ صاحب بہادر ان کا دوست ہے۔ انگریز ڈپٹی کمشنر کی شان ہی نرالی تھی‘ کافی بعد انڈین سول سروس میں مقابلے کے امتحان کے ذریعے ہندوستانیوں کو داخل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بات ہندوستانی رعایا کیلئے کتنی اہم اور عزت کا باعث تھی کہ کوئی مقامی بھی اس کرسی پر بیٹھا ہے جس پر کبھی صرف آکسفورڈ اور کیمبرج سے پڑھا گورا صاحب بیٹھ کر انصاف کرتا تھا‘ اور پھر بابو کی ٹرم اس عہدے سے نکلی۔ ڈپٹی کمشنر ہی پورے ضلع کا مالک ٹھہرا۔ ہر ضلع میں بڑے بڑے دفاتر اور ایکڑوں پر محیط ڈپٹی کمشنروں کی کوٹھیاں بنائی گئیں ۔ ڈی سی صاحب کا دفتر اتنا بڑا ہوتا کہ جب کوئی سائل دفتر میں داخل ہوتا تو یوں لگتا جیسے وہ میلوں چل کر اس کرسی تک پہنچا ہے جس پر صاحب بہادر بیٹھتا تھا۔ جان بوجھ کر صاحب کی کرسی اور دروازے میں طویل فاصلہ رکھا جاتا تھا تاکہ اندر داخل ہونے والا بندہ رعب کے نیچے ہی دب جائے۔

اس کلاس کی ایک عزت تھی‘ مقام تھا‘سمجھا جاتا تھا کہ یہ معاشرے کی کریم کلاس ہے‘ ان کے اندر اَنا اور عزت دوسروں سے بڑھ کر ہے‘ یہ وہ کلاس ہے جو عہدہ چھوڑ دے گی لیکن کسی کے دبائو پر کوئی غلط کام نہیں کرے گی۔ ایک دور تھا چیف سیکرٹری کا عہدہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ سے کم اہم نہ سمجھا جاتا تھا۔ چیف سیکرٹری مرضی سے ٹرانسفر پوسٹنگ کرتا تھا‘ وزیراعلیٰ کو انکار کرنا معمولی بات سمجھی جاتی تھی۔ میں ڈاکٹر ظفر الطاف سے یہ سن کر حیران رہ گیا کہ آغا صاحب‘ جو چیف سیکرٹری پنجاب تھے‘ نے جونیئر افسر ڈپٹی سیکرٹری ڈاکٹر ظفر الطاف کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ اب ٹرانسفر پوسٹنگ کرے گا۔ کہتے تھے کہ انہوں نے صرف یہ کہا کہ مجھے فہرست دکھا دینا۔ ڈاکٹر صاحب نے فہرست چیف سیکرٹری کو دکھائی تو ایک نظر ڈالی اور کہا: ٹھیک ہے جاری کر دو‘ آئندہ خود ہی کرتے رہنا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا :واقعی ایسے ہی تھا؟ بولے جی بھائی جان۔ اور پھر دس پندرہ برس پہلے اس بیوروکریسی کو زوال نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ ایک ایسی کلاس نے ڈی ایم جی کو جوائن کیا جو ہر قیمت پر ڈپٹی کمشنر لگنا چاہتے تھے‘ جو اس سروس کے ذریعے معاشرے پر رعب دبدبہ ڈالنے آئے تھے۔ جو اپنی اور خاندان کی غربت دور کرنے اور سوشل سٹیٹس بہتر کرنے کے خواہشمند تھے۔ پھر اس کلاس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔

ان کیلئے پیسہ اور بڑے صاحب کا حکم پورا کرنا ہی اہم ٹھہرا۔ ٹرانسفر‘ پوسٹنگ اور ترقی کیلئے یہ کلاس کچھ بھی کرنے کو تیار ہوگئی۔ سیاستدان اس موقع کی تلاش میں تھے کہ بابوز کرپٹ ہوں تو وہ انہیں ساتھ ملا کر ‘انی‘ مچا دیں۔ اگر کوئی بھولا بسرا ڈپٹی کمشنر یا ڈی ایم جی افسر ایماندار نکل آیا تو اسے سب نے مل کر عبرت کی مثال بنا دیا۔ اس نے غلط کام سے انکار کیا تو دوسرے نے کہا: میں تیار ہوں‘ یوں انگریز کا صاحب بہادر جس کو دعوت پر بلانے کیلئے وڈیرے ‘نواب یا سردار سارا دن ڈپٹی کمشنر آفس کے باہر انتظار کرتے تھے وہ خود سیاسی وڈیروں کے ڈیرے پر پایا جانے لگا۔ اب اس نے اپنا پیٹ بھرنا تھا‘ اب اسے اس سیاسی وڈیرے کی فون کال درکار تھی‘ اب اسے پرچی چاہئے تھی۔ وہ پرچی جو کبھی ڈپٹی کمشنر سے لینے کیلئے علاقے کے معززین گھنٹوں کھڑے رہتے تھے۔ یوں سیاسی کلاس نے معاشرے کی اس کریم کلاس کا وہ رعب‘ دبدبہ مٹی میں ملا دیا۔

اب وہ بابوز اور صاحب بہادر سیاستدان ڈھونڈتے ہیں‘ ان کی چونچ گیلی کرتے ہیں‘ ساتھ ہی وزیراعلیٰ کے آفس میں بیٹھے ایک صاحب ان بابوز کو ”ٹیکے‘‘ لگاتے ہیں اور اس کا تگڑا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ اب سب نے ضلعے بانٹ لیے ہیں۔ اب ایک اچھا کام ہوا ہے کہ کوئی کسی کو طعنہ دینے کے قابل نہیں رہا۔ اب سب کو علم ہے کہ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ کسی ڈی ایم جی ایسوسی ایشن کو اس نئے کلچر پر شرمندگی نہیں ہوتی‘ کوئی اجلاس بلا کر اپنے بابوز اور نوجوان افسران کے اس طرزِ عمل کی مذمت نہیں کرتا‘ کوئی پریس ریلیز یا ٹوئٹ نہیں کرتا‘ سول سروس اکیڈمی کو شرم محسوس نہیں ہوتی کہ انہوں نے کیسی تربیت کر کے یہ کلاس بازار میں ”برائے فروخت‘‘ بھیج دی ہے۔ وہ جو کبھی بابوز کہلوانے پر ناراض ہوجاتے تھے وہ بھی ہونٹ سی کر بیٹھے ہیں بلکہ پچھلے دنوں سی ایس ایس کے نتائج سے پتہ چلا کہ سب سے زیادہ امیدواروں نے ڈی ایم جی عہدے کو ہی چنا۔ اس قوم کو نئے بابوز مبارک ہوں جنہیں اب پیسے دے کر ڈپٹی کمشنر لگنے میں عار نہیں۔ انگریز دور کے لاٹ صاحب اور صاحب بہادر کی سیٹ بھی آخرکار ٹکے ٹوکری بک ہی گئی۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے