کتاب

”کتاب‘‘ مصدر ہے، اس کے معنی ہیں: ”خط، صحیفہ، حکم، اندازہ‘‘۔ لفظِ ”کتاب‘‘ جب مطلق بولا جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب مراد ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم میں کئی احکام کی فرضیت اور وجوب کے لیے ”کُتِبَ‘‘ بمعنیٰ ” لکھا گیا ہے‘‘ آیا ہے۔ سابق انبیائے کرام علیہم السلام پر الہامی کتابیں لکھی ہوئی صورت میں نازل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور ہم نے موسیٰ کے لیے (تورات کی) تختیوں میں ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی (اورحکم دیا:) اے موسیٰ! ان تختیوں کو مضبوطی سے تھام لو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ ان کی بہترین باتوں کو اپنائیں، میں عنقریب تمہیں نافرمانوں کا ٹھکانا دکھاؤں گا‘‘ (الاعراف:145)۔ نیز فرمایا: ”اور جب موسیٰ غصہ اور افسوس سے بھرے ہوئے اپنی قوم کی طرف لوٹے تو کہنے لگے: تم نے تو میرے جانے کے بعد میری بری جانشینی کی ہے، کیا تم نے اپنے رب کے حکم سے جلدی کی ہے اور تورات کی تختیاں زمین پر ڈال دیں‘‘ (الاعراف:150)۔ مزید فرمایا: ”اور جب موسیٰ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے (تورات کی) تختیاں اٹھا لیں‘‘ (الاعراف: 154)۔ نیز فرمایا: ”بے شک یہی (پیغامِ ہدایت) پہلے صحیفوں میں تھا، ابراہیم اور موسیٰ (علیہما السلام) کے صحیفوں میں‘‘ (الاعلیٰ: 18 تا 19)۔

ان آیاتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر تورات تختیوں پر لکھی ہوئی نازل کی گئی اور یہی سنتِ الٰہیہ دیگر صحیفوں کے بارے میں بھی جاری رہی، مگر قرآنِ مجید کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے مکتوب صورت میں نازل نہیں فرمایا، بلکہ ارشاد ہوا: ”اور بے شک یہ قرآن رب العالمین کی نازل کی ہوئی کتاب ہے، اسے روح الامین نے فصیح عربی زبان میں آپ کے قلب پر اتارا تاکہ آپ ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں‘‘ (الشعراء: 192 تا 195)۔ نیز فرمایا: ”اور انہوں نے کہا: ہم آپ پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے حتیٰ کہ آپ ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کر دیں یا آپ کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو اور آپ ان کے درمیان بہتی ہوئی نہریں جاری کر دیں یا جس طرح آپ کا دعویٰ ہے، آپ ہم پر آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دیں یا آپ اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے (بے حجاب) لے آئیں یا آپ کے لیے سونے کا کوئی گھر ہو یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے پر بھی ہرگز ایمان نہیں لائیں گے حتیٰ کہ آپ ہم پر کتاب نازل کریں جسے ہم پڑھیں، آپ کہہ دیجیے: میں تو صرف ایک بشر (اور اللہ کا) رسول ہوں‘‘ (بنی اسرائیل: 90 تا 93)۔

کفار کی یہ فرمائش بتاتی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں لکھی ہوئی کتاب کا تصور تھا، ان آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کفارِ مکہ رسول اللہﷺ کو العیاذ باللہ! ایک شعبدہ باز سمجھتے تھے اور طرح طرح کی فرمائشیں کرتے تھے۔ یہ محض اُن کی ہٹ دھرمی اور حجت بازی تھی، ان کا یہ نظریہ ہرگز نہیں تھا کہ اگر ان کی فرمائش پوری کر دی جائے اور حجت پوری ہو جائے تو وہ رسول اللہﷺ پر دل و جان سے ایمان لے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مکرمﷺ کواُن کے خُبثِ باطن کے بارے میں پیشگی بتا دیا تھا: ”اور اگر ہم آپ پر کاغذ پر لکھی ہوئی کوئی کتاب نازل کر دیتے، پھر یہ لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے، تب بھی کافر یہی کہتے: یہ تو کھلا ہوا جادو ہے‘‘ (الانعام: 7)۔

ہم نے یہ کلمات تمہید کے طور پر لکھے ہیں کہ کتاب، نوشتۂ الٰہی ہے، قرآنِ کریم کا غیر مکتوب شکل میں نازل ہونا اور اس کا ذہنوں میں محفوظ ہونا، اس کا امتیاز اور شانِ اعجاز ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اسے ”کتاب‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ سورۂ بقرہ کی دوسری آیتِ مبارکہ میں ہے: ”(یہ) وہ کتاب ہے کہ اس میں کسی شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘۔ مفسرین کرام نے فرمایا: اس کا اشارہ لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی کتاب کی طرف ہے اور قرآنِ کریم میں اس کا صراحت کے ساتھ ذکربھی ہے: ”بلکہ کافر تکذیب کے درپے ہیں اور اللہ ان کا ہر طرف سے احاطہ کیے ہوئے ہے، بلکہ یہ بہت عظمت والا قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں (مکتوب) ہے‘‘ (البروج: 19 تا 22)، نیز فرمایا: ”بے شک یہ بہت عزت والا قرآن ہے، جو کتاب (لوحِ) محفوظ میں ہے، اس کتاب کو صرف پاک لوگ ہی چھوئیں، یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے‘‘ (الواقعہ: 77 تا 80)۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے اپنی پچھلی کتابوں کو مکتوب صورت میں اور قرآنِ کریم کو ملفوظ صورت میں نازل فرمایا، لیکن اس امر کی صراحت فرما دی کہ یہ ازل سے لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ شانِ اعجاز عطا کی کہ لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہو جاتا ہے؛ تاہم عہدِ رسالت مآبﷺ میں ہی اسے لکھ کر محفوظ کرنے کی سنت جاری رہی۔ جدید دنیا میں اگرچہ سمعی و بصری ٹیکنالوجی موجود ہے، لیکن الحمدللہ علیٰ احسانہٖ! قرآنِ مجید کی کتابی شکل میں طباعت کروڑوں کی تعداد میں ہو رہی ہے۔ عہدِ حاضر میں مغرب ٹیکنالوجی کی معراج پر ہے، لیکن سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں کی سطح تک نصابی کتب اور مضامین بھی رائج ہیں، ہر سطح کے اساتذہ بھی موجود ہیں، اگر تحریر کے لیے کمپیوٹر بکثرت استعمال ہو رہا ہے تو یہ بھی کتابت کی ایک شکل ہے۔

یہ عنوان ہم نے اس لیے منتخب کیا کہ ہمارے ہاں کتابوں کی اشاعت اور ان کے مطالعے کا رجحان خطرناک حد تک کم ہو رہا ہے۔ نئی نسل کتاب سے دور ہے، حالانکہ ہماری کتابوں میں ہمارا بیشتر دینی، علمی، تحقیقی، ادبی، تہذیبی اور تاریخی سرمایہ اب بھی موجود ہے۔ ہماری سیاست چونکہ عصبیت کا شکار ہو چکی ہے، سیاسی کارکن نظریاتی سطح سے گر کر ذہنی اور فکری غلام بن چکے ہیں، اس لیے چیزوں کو حق و باطل، صحیح و غلط اور صواب و خطا کی تمیز کے بغیر پسند و ناپسند کا معیار صرف سیاسی وابستگی ہے، یہ فکری اور علمی زوال کی انتہا ہے۔

اشرافیہ، متوسط اور بالائی متوسط طبقے کے تقریباً تمام سکول انگلش میڈیم ہیں، اگرچہ اُن کے معیارات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس کے باوجود کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تنخواہیں اب ماشاء اللہ بہت بہتر ہیں، بلکہ اعلیٰ درجے کے پرائیویٹ سکولوں سے بھی زیادہ ہیں، لیکن تعلیمی معیار انتہائی حد تک روبہ زوال ہے۔ اردو اگرچہ ہماری قومی زبان ہے، لیکن یہ اپنے ہی ملک میں بے توقیر ہے۔ حال ہی میں وزیر اعظم نے کہا: ”جن پروگراموں میں میری شرکت ہو، اُن کی کارروائی اردو میں کی جائے‘‘۔ اس کی بابت وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے جو سرکاری ہدایت نامہ جاری کیا، وہ بھی انگریزی زبان میں تھا۔ ماضی میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ نے عدالتی حکم نامہ جاری کیا کہ حکومتی نظام اردو میں چلایا جائے، لیکن اس کی تعمیل کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔

اردو پر ایک مزید اُفتاد یہ آئی کہ موبائل اورسوشل میڈیا پر تحریری پیغامات اور تبصرے اردو رسم الخط کے بجائے رومن میں لکھے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی دوسری زبان کے حروفِ تہجی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ اردو یا عربی کے الفاظ کو صحیح تلفظ کے ساتھ لکھا جا سکے۔ ہمیں ایک بار ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے قازقستان کے دارالحکومت آستانا جاتے ہوئے ایک دن کے لیے چینی صوبے سنکیانگ کے شہر اُرمچی میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ہم نے بازار میں چکر لگایا تو دکانوں پر ترکی زبان کے بورڈ عربی رسم الخط میں لکھے ہوئے تھے اور آسانی سے سمجھ آ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مصطفی کمال اتر ترک نے جب سیکولرازم کو ترکی میں نافذ کرنا چاہا تو عربی رسم الخط کو تبدیل کر کے رومن رسم الخط رائج کیا اور اس میں ناموں کے تلفظ تک تبدیل کر دیے گئے، مثلاً: محمد کو مہمت اور احمد کو اہمت لکھا اور بولا جا رہا ہے۔ آج بھی اگر عربی رسم الخط اختیار کیا جائے تو ترکی زبان سیکھنا ہمارے لیے آسان ہو جائے۔ بعض لوگ فرمائش کرتے ہیں: اپنے سوشل میڈیا پیج پر تحریری پوسٹ کے بجائے چھوٹے چھوٹے وڈیو کلپ جاری کریں، کیونکہ اس میں لوگوں کے لیے آسانی ہوتی ہے، حالانکہ ہمارا تجربہ ہے کہ جو تحریر دس منٹ میں پڑھی جا سکتی ہے، اُسے اگرصوتی ریکارڈ کر کے جاری کیا جائے، تو اُس کے سننے میں کافی وقت صرف ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض کالم نگاروں کے کالم بھی سوشل میڈیا پر اب تحریری کے بجائے صوتی صورت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ یہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ لکھے ہوئے کو پڑھنے کی استعداد ختم ہوتی جا رہی ہے اور یہ ایک المیہ ہے۔

ہمارا مشاہدہ ہے کہ سمعی و بصری ریکارڈنگ میں مصنوعی چمک دمک اور ہیرا پھیری کے امکانات موجود ہیں اور عملاً ایسا ہو بھی رہا ہے۔ اس فن کو دوسروں کی تضحیک اور تحقیر و تذلیل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ تحریر میں ایسی دسیسہ کاری ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ کراچی والے اپنے آپ کو ”اردو اسپیکنگ‘‘ کہتے ہیں، لیکن اردو سے سب سے زیادہ بے اعتنائی کراچی میں برتی جا رہی ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ بعض اوقات نئی نسل کے لوگ لکھے ہوئے کو صحیح پڑھ بھی نہیں پاتے۔ ایک طمطراق والا اینکر پرسن لفظِ ”مُہتَمِمْ‘‘ کو ”مُتَھَمِّمْ‘‘ بول رہا تھا۔

اس کا ایک واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ اردو کے شاعر، ادیب، کالم نگاراور تمثیل نگار زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ جس طرح ٹیلی وژن پروگراموں میں باقاعدہ ایک پروڈکشن کا شعبہ ہوتا ہے، ہر پروگرام کا ایک پیش کار اور ہدایت کار ہوتا ہے، اسی طرح صحتِ تلفّظ کے لیے بھی کسی نہ کسی ماہرِ لسان کا تقرر ہونا چاہیے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایک اینکر پرسن آفتاب اقبال کے پروگرام میں ایک چھوٹا سا حصہ صحتِ زبان کا ہوتا ہے، ممکن ہے وہ اپنے والد گرامی ظفر اقبال صاحب سے اکتسابِ فیض کرتے ہوں، لیکن بہرحال یہ ایک اچھی روایت ہے اور اس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ آفتاب اقبال صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے والد ماجد سے کہیں: ”مسترد کو رَدّ کر دیں، شاید اس سے کئی لوگوں کی اصلاح ہو جائے‘‘۔

ماضی میں پی ٹی وی میں بھی ایک مختصر دورانیے کا اس طرح کا پروگرام ہوتا تھا، لیکن اب شاید ایسا نہیں ہے۔ ایک معاصر اخبار میں پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا کالم صحت زبان و بیان کے حوالے سے کبھی کبھی شائع ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک ہفت روزہ میں اطہر ہاشمی مرحوم کا کالم ”خبر لیجے، دہن بگڑا‘‘ اور اب ان کے جانشین احمد حاطب صدیقی ”غلطی ہائے مضامین‘‘ کے عنوان سے مفید کالم لکھ رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں شعبۂ اردو و صحافت کے طلبہ اور اساتذہ کو ان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ نیز ٹیلی وژن چینلوں پر اینکر یا خبر خواں کے طور پر تقرر کے لیے بھی اردو زبان و بیان کا کوئی کم از کم معیار مقرر کیا جانا چاہیے۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے