‘عرب بہار‘ کی پہلی لہر، 2010ء کے اواخر میں تیونیسیا سے اٹھی تھی۔ اکیسویں صدی کی سب سے بالغ نظر مسلم سیاسی شخصیت راشد غنوشی کا تعلق بھی اسی ملک سے ہے۔ تیونیسیا میں ان دنوں ایک بار پھر سیاسی اضطراب ہے۔ منتخب پارلیمنٹ معطل ہے اور آمریت کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ غنوشی کے ایثار کے باوجود، جمہوریت کا شجر ثمربار نہیں ہو رہا۔
صرف تیونیسیا ہی نہیں، عرب بہار ہر جگہ خزاں میں بدل گئی۔ شام میں کیا ہوا؟ بشارالاسد چند ماہ پہلے پچانوے فیصد ووٹ لے کر ایک بار پھر صدر بن گئے۔ مصر میں پھانسی گھاٹ مستقل آباد ہے۔ منتخب صدر مرسی کا جنازہ جیل سے اٹھا اور ان کے بیٹے کا بھی۔ اسی طرح کا منظر بنگلہ دیش میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ ایران میں بھی انتخابات ہو رہے ہیں مگرکیسے؟ وہاں شورائے نگہبان کے منتخب کردہ افراد ہی کو حصہ لینے کی اجاز ت ہوتی ہے۔ ترک جمہوریت کی کہانی فتح اللہ گولن سے سنی جا سکتی ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا میں، ملائیشیا ہے۔ بظاہر جمہوری ملک ہے مگر مہاتیر محمد کے ہاتھوں انور ابراہیم کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ پاکستان کی جمہوریت کا ماضی اور حال ہمارے سامنے ہے۔
افغانستان میں دنیا نے حامد کرزئی صاحب کی جمہوریت دیکھی اور اشرف غنی صاحب کی بھی۔ طالبان تو خیر جمہوریت پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ جہاں کا ذکر نہیں، وہاں بادشاہتیں قائم ہیں۔
بیسویں صدی میں، جب انسانی تاریخ نے ایک کروٹ لی اور قومی ریاستوں کے دور میں داخل ہوئی تو اس کی سیاسی بنت بھی تبدیل ہوئی۔ بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی۔ غیرمسلم دنیا میں جمہوریت کے ساتھ دوسرا تجربہ اشتراکی ریاست کا تھا۔ مشرقی یورپ کا ایک بڑا حصہ اس کی گرفت میں رہا۔ یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب دیوارِ برلن گرا دی گئی۔ اب صرف جمہوریت ہے۔ اشراکیت زدہ ملکوں میں ابھی آمریت ہے۔ کہیں شخصی، کہیں یک جماعتی۔ غیر اشتراکی دنیا میں جمہوریت سیاسی ایمانیات کا حصہ بن چکی۔مسلم دنیا میں کہیں جمہوریت پنپ نہیں سکی۔
ووٹ کی طاقت سے آنے والوں نے بھی بالآخر یہی چاہا کہ اقتدار کی تمام قوت ان کی ذات میں سمٹ آئے۔ اس سے سماجی علوم کے بعض ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مسلم سماج کی نفسیاتی ساخت کچھ اس طرح بنی ہے کہ جمہورت کے لیے سازگار نہیں۔ کیا یہ مقدمہ درست ہے؟ کیا اس کی وجہ مسلم تاریخ ہے جو بادشاہت سے عبارت ہے؟ کیا اس کا سبب ہمارا فہمِ اسلام ہے جو اقتدار کے کسی غیر الٰہی مرکز کو قبول نہیں کرتا؟
یہاں جمہوریت سے میری مراد وہ سیاسی نظام ہے‘ جس میں عوام کی اجتماعی دانش کو حقِ اقتدار حاصل ہوتا ہے۔ عوام کی اکثریت کسی فرد یا گروہ کو یہ حق تفویض کر سکتی ہے کہ وہ عوام کے مفادات کی نگہبانی کرے۔ اگر وہ اس میں ناکام رہتا ہے تو یہ حق عوام ہی کے پاس ہے کہ وہ اس گروہ کو کسی دوسرے گروہ سے بدل ڈالے۔ یہ گروہ طے کرے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی؟ معیشت کا نظام کیسا ہو گا؟ قومی مفاد کیا ہے؟
جمہوریت میں اکثریت کو حقِ اقتدار ملتا ہے لیکن اکثریت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیت کی رائے کا احترام کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں آزادیٔ رائے کو یقینی بنایا جائے۔ اقلیت کو یہ حق حاصل رہے کہ وہ اپنا موقف جس طرح چاہے عوام کے سامنے رکھے۔ یہ ممکن ہے کہ آج کی اقلیتی رائے، کل اکثریت کی رائے بن جائے۔ یہ سماج کے فطری ارتقا کے لیے ضروری ہے۔ اگر کوئی معاشرہ آزادیٔ رائے کی ضمانت نہیں دیتا تووہ بہتے دریا کے بجائے، ایک جوہڑ بن جاتا ہے جہاں فکری تعفن پیدا ہوتا اور اس کا تسلسل سماج کی حسِ شامہ کو ختم کر دیتا ہے۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ مسلم معاشروں میں جمہوریت نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ سازی کا اختیار، عوام کے بجائے کسی خاص طبقے کو حاصل ہے۔ یہ مذہبی اشرافیہ ہو سکتی ہے۔ یہ بادشاہ ہو سکتا ہے۔ یہ مقتدرہ ہو سکتی ہے۔ یہ ایک خاندان ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی ایک جماعت ہو سکتی ہے۔ تمام مسلم ممالک میں آج یہی صورت حال ہے۔ کہیں عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے مقدر کا فیصلہ خود کریں۔ جس کو کسی وجہ سے اقتدار حاصل ہو گیا، وہ اسے چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں۔
مسلم عوام غیرجمہوری حکومتوں کے خلاف احتجاج کے لیے تیار نہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کو قبول کیے ہوئے ہیں؟ کہیں ریاست کسی حد تک معاشی آسودگی فراہم کرکے عوام کو احتجاج سے روکنے میں کامیاب ہے۔کہیں خوف کی چادر ہے جو معاشرے پر تنی ہوئی ہے۔ جان کا خوف، عزت کا خوف، مال کا خوف۔ کہیں اس کا سبب اہلِ سیاست سے مایوسی ہے۔
دنیا میں آج جہاں جمہوریت ہے، کیا وہاں جان و مال کا خوف نہیں تھا؟ کیا وہاں مذہبی جذبات کا استحصال نہیں ہوتا تھا؟ یقیناً تھا۔ یورپ میں کلیسا کی قوت کا کسے علم نہیں۔ بادشاہ کا خوف بھی کم نہیں تھا۔ اس کے باوجود، آخر کیا ہوا کہ بادشاہ کا خوف باقی رہا‘ نہ اہلِ کلیسا کا ڈر؟ ایک جمہوری معاشرے نے جنم لیا اور عوام طاقت کا سرچشمہ بن گئے۔ ایسی تبدیلی آئی کہ آج جمہوریت کے علاوہ کسی دوسرے سیاسی نظام کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
اس کی وجہ کم وبیش تین سو سال کی فکری جدوجہد ہے۔ وہ جدوجہد جس نے عوام کا زاویہ نظر بدل ڈالا۔ جس نے ان کے سیاسی، سماجی اور مذہبی خیالات کوجڑ سے اکھاڑ پھینکا اور افکار کی ایک نئی فصل بو دی۔ اس کے نتیجے میں مضبوط سیاسی اور سماجی ادارے وجود میں آئے۔ ان اداروں نے ایک بنیادی نظامِ اقدار پر اتفاق کیا‘ جس میں جمہوریت سرِفہرست تھی۔ آج عوام کی مرضی کے بغیر کوئی ان پر مسلط نہیں ہو سکتا۔
مسلم معاشروں کی تاریخ اس فکری جدوجہد سے خالی ہے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی کوشش ہوئی بھی تو وہ قدیم دور کے احیا کی ہوئی جسے نشاۃ ثانیہ کہا گیا۔ ہمارے اہلِ دانش نے مستقبل کا اگر کوئی خواب دیکھا تووہ بھی ماضی کے آئینے میں۔ اس سوچ کے ساتھ کوئی نیا جہاں آباد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہم نے مذہب کے ساتھ وابستگی کا مطلب یہ سمجھا کہ قدیم اداروں کو زندہ کیا جائے۔ یہ مذہب کی درست تفہیم تھی نہ سماج کی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ووٹ کے ذریعے برسرِ اقتدار آنے والے بھی ‘امیرالمومنین‘ بننا چاہتے ہیں۔ مسلم سیاسی رہنما قبائلی لباس میں ملبوس ہوں، جبہ و دستار میں ہوں یا انہوں نے جدید سوٹ زیب تن کر رکھا ہو، ان کا تصورِ حکمرانی ایک ہو گا: ارتکازِ اقتدار۔
جمہوریت کے لیے مسلم معاشروں کو پہلے فکری جدوجہد کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ انہیں ایک نیا فکری بیانیہ تشکیل دینا ہے۔ وہ سیاسی ادارے بنانے ہیں جو جمہوریت کا دفاع کر سکیں۔ اسی طرح جمہوری اصولوں پر قائم سیاسی جماعتوں کے بغیر جمہوریت کادفاع نہیں ہو سکتا۔ مضبوط سول سوسائٹی نہ ہو تو جمہوری قدروں کی آبیاری ممکن نہیں جو لوگوں کے حقِ اختلاف کے لیے موثر آواز اٹھا سکے۔
جب تک یہ مرحلہ طے نہیں ہو گا، مسلم ممالک میں جمہوریت نہیں آ سکتی۔ اس فکری سفر میں لازم نہیں کہ ہمارے نتائجِ فکر سو فیصد وہی ہوں جو مغرب کے تھے۔ یہ مختلف ہو سکتے ہیں مگر راستہ یہی ہے: معاشرے کی فکری و سیاسی تشکیلِ نو۔ بصورتِ دیگر صرف شراکتِ اقتدار کے فارمولے زیرِ بحث آئیں گے، جیسے آج کل کچھ ممالک میں ہو رہا ہے‘ بظاہر ووٹ ڈالے جارہے ہوں گے مگر پہلے سے طے ہو گا کہ کس جماعت کوکتنی نشستیں دی جائیں گی۔ یہ معلوم ہو گا کہ بشارالاسد کو پچانوے فیصد اور حسنی مبارک کو نوے فی صد ووٹ ملیں گے۔ یہ نتائج اتنے بدیہی ہوتے ہیں کہ کسی گیلپ سروے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
بشکریہ دنیا