مقامِ فاروقِ اعظمؓ بزبانِ اہلِ بیتِ نبوت رضی اللہ عنہم

”محمد بن حنفیہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے اپنے والد ماجد حضرت علیؓ سے عرض کی: رسول اللہﷺ کے بعد تمام لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ فرمایا: ابوبکر،ؓ میں نے عرض کی: پھر کون ہے؟ فرمایا: عمرؓ۔ (بخاری: 3671)۔ مشہور محقق و عالم ابوعمرو محمد بن عبدالعزیز الکشی بیان کرتے ہیں: ابوعبداللہ (علیہ السلام) نے کہا: مجھے سفیان ثوری نے محمد بن المنکدرکے حوالے سے یہ روایت بیان کی: حضرت علی (علیہ السلام) نے کوفہ میں منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا: اگر میرے پاس ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابوبکرؓ اور عمرؓ پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور وہ سزا دوں گا جو افترا پرداز کو دی جاتی ہے، ابو عبداللہ نے کہا: ہمیں مزید حدیث بیان کریں، تو سفیان نے جعفر کے حوالے سے بیان کیا: ابوبکرؓ اور عمرؓ سے محبت رکھنا ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے، (رجال الکشی، ص: 338، مُؤسَّسَۃُ الْاَعْلَمِی لِلْمَطْبُوْعَات، کربلا)‘‘۔

ساتویں صدی ہجری کے معروف بزرگ شیخ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:”حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں: حضرت عمرؓ کو لوگوں پر جن وجوہات کی بنا پر فضیلت حاصل ہے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم نے بدرکے قیدیوں کے بارے میں حضرت عمرؓ کی رائے کی توثیق ان کلمات میں فرمائی: ”کسی نبی کے لیے یہ لائق نہیں کہ اس کے لیے قیدی ہوں حتیٰ کہ وہ زمین میں (کافروں کا) اچھی طرح خون بہا دے‘‘ (الانفال: 67)، نبی کریمﷺ کی ازواج کے حجاب کے متعلق ان کی رائے کے موافق یہ آیت نازل ہوئی: ”اور جب تم نبی کی ازواج سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو‘‘ (الاحزاب: 53)، اُن کی فضیلت کی ایک وجہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے اُن کے اسلام لانے کی دعا کی: ”اے اللہ! عمرو بن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما‘‘ (شرح نہج البلاغہ، ج: 12، ص: 57 تا 58)، پس رسول اللہﷺ کی اسی دعائے مستجاب کی برکت سے حضرت عمرؓ ایمان لائے، اسی لیے آپ کو ”مرادِ رسولﷺ‘‘ کہا جاتا ہے۔

ایک موقع پرحضرت عمرؓ نے بذاتِ خود فارس کی جنگ میں شریک ہونے کے متعلق حضرت علیؓ سے مشورہ کیا، اُنہوں نے فرمایا: آپ مسلمانوں کے معاملات کے نگہبان ہیں اور ملک کے لیے حاکم کا مقام ایسا ہے جیسے لڑی میں پروئے گئے موتی، لڑی ہی کی وجہ سے موتی ایک جگہ اکٹھے رہتے ہیں، اگر لڑی ٹوٹ جائے تو تمام موتی بکھر جاتے ہیں۔ آج اگرچہ عرب تعداد میں تھوڑے ہیں لیکن اسلام کی وجہ سے زیادہ ہیں، اپنے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے غالب آنے والے ہیں لہٰذا آپ مرکز ہی میں رہیں اور جنگ میں شریک ہونے کی زحمت نہ کریں کیونکہ ان عجمیوں نے اگر آپ کو میدانِ جنگ میں دیکھ لیا تو کہیں گے کہ اہلِ عرب کی جان یہی شخص ہے، اگر اس جڑ کو کاٹ دیا جائے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راحت مل جائے گی، اس طرح اُن کے حملے شدید تر ہو جائیں گے اور وہ آپ ہی کو قتل کرنے کے زیادہ آرزو مند ہوں گے‘‘ (نہج البلاغہ، ص:146)۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کو خلیفہ رسول حضرت عمرؓ کی زندگی نہایت عزیز تھی، اس لیے ایسے نازک موقع پر آپؓ نے صائب مشورہ دیا، کیونکہ کوئی بھی نامناسب مشورہ مسلمانوں کے لیے بڑی مصیبت کا باعث ہو سکتا تھا، مگرحضرت علیؓ نے امانت سمجھ کر مکمل دیانتداری کے ساتھ مسلمانوں کے مفادِ عامہ کے مطابق مشورہ دیا۔

ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے اپنے ایک خطبہ میں حضرت عمرؓ کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فلاں شخص کے شہروں کو برکت دے، اُنہوں نے کجی کو سیدھا کیا، بیماری کا علاج کیا، سنت کو قائم کیا، فتنہ کو ختم کر دیا، دنیا سے پاک و صاف لباس اور کم عیب میں رخصت ہوئے، خلافت کی نیکی کو حاصل کیا اور اس کے شر سے اجتناب کیا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو بجا لائے اور اللہ تعالیٰ سے اس طرح ڈرے جس طرح ڈرنے کا حق تھا‘‘ (نہج البلاغہ، ص:887، خطبہ: 226)۔ شیخ ابن ابی الحدید کہتے ہیں: ”فلاں شخص سے حضرت عمرؓ بن خطاب کی ذات مراد ہے‘‘ (شرح نہج البلاغہ، ج:12، ص:3)۔ جناب رئیس احمد جعفری نے نہج البلاغہ کے اُردو ترجمہ میں ذکر کیا ہے: ”یہ خطبہ حضرت عمرؓ کے متعلق ہے‘‘ (نہج البلاغہ، مترجم اردو، ص: 541)۔

حضرت علیؓ کو معلوم ہوا: بعض لوگ حضراتِ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے متعلق بغضانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں، آپؓ نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا: ان دونوں سے وہی محبت کرے گا جو صاحبِ فضیلت ہو گا اور ان دونوں سے وہی بغض و عداوت رکھے گا جو بدبخت اور دین سے نکلنے والا ہو گا،کیونکہ ان دونوں کی محبت تقرب الٰہی کا سبب ہے، ان سے بغض رکھنا دین سے خارج ہونے کی علامت ہے، ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو رسول اللہﷺ کے دو بھائیوں، دو وزیروں، دو ساتھیوں، قریش کے دو سرداروں اور مسلمانوں کے دو باپوں کو نازیبا الفاظ سے یاد کرتے ہیں، میں ان لوگوں سے لا تعلق ہوں جو ان دونوں کوبرے الفاظ سے یاد کرتے ہیں، میں اس پر انہیں سزا دوں گا‘‘ (کنز العمال، ج:13، ص:8)۔ ”اَبُوالسَّفَر بیان کرتے ہیں: میں حضرت علیؓ کے جسم پر اکثر ایک چادر دیکھا کرتا تھا، میں نے عرض کی: کیا وجہ ہے کہ آپ اس چادر کو بہت زیادہ پہنا کرتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: یہ چادر مجھے میرے خلیل اور میرے دوست عمرؓ نے پہنائی ہے، اُنہوں نے اللہ سے خلوص کا معاملہ کیا تو اللہ نے ان سے خیر خواہی کی‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: 31997)۔ حضرت عمرؓ جب اَبُوْلُولُؤَۃ لعین کے قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہو گئے تو حضرت علیؓ آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے، حضرت عمرؓ رونے لگے، حضرت علیؓ نے رونے کی وجہ پوچھی، فرمایا: موت کا پروانہ آ چکا ہے اور میں نہیں جانتا کہ میرا ٹھکانہ جنت میں ہو گا یا جہنم میں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: آپ کو جنت کی بشارت ہے، میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: ابوبکر و عمر اہلِ جنت کے سردار ہیں اور میں نے یہ بات نبی کریمﷺ سے بے شمار مرتبہ سنی ہے۔ (مختصر تاریخِ دمشق، ج: 18، ص: 298)۔

مِسوَر بن مَخْرَمَہ بیان کرتے ہیں: جب حضرت عمرؓ قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے تو وہ بہت بے قرار تھے، حضرت عبداللہؓ بن عباس نے کہا: امیر المومنین پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، آپ رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہے، آپؓ نے حضورﷺ کی صحبت اچھی طرح نبھائی، پھر رسول اللہﷺ رضامندی کی حالت میں آپ سے رخصت ہوئے، پھر آپ حضرت ابوبکرؓ کی صحبت میں رہے اور آپؓ نے ان کی صحبت اچھی طرح نبھائی، وہ بھی آپ سے راضی ہوکر رخصت ہوئے، پھر آپؓ مسلمانوں کے ساتھ رہے، آپ نے ان کا اچھا ساتھ نبھایا اور اب آپ اُن سے اس حال میں رخصت ہو رہے ہیں کہ وہ آپ سے راضی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: آپ نے رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کی صحبت کا ذکر کیا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے، اب جو آپ میری بے قراری دیکھ رہے ہیں تو بخدا! اگر میرے پاس تمام روئے زمین کے برابر سونا ہوتا تو میں اس کو اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے دے دیتا‘‘۔ ایک روایت میں ہے: ”حضرت عبداللہؓ بن عباس نے فرمایا: امیر المومنین! آپ کیوں گھبراتے ہیں، بخدا! آپ کا اسلام لانا مسلمانوں کا غلبہ تھا، آپ کی حکمت مسلمانوں کی فتح تھی، آپ نے روئے زمین کو عدل سے بھر دیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا: ابن عباس!کیا تم اس کی گواہی دیتے ہو؟ حضرت ابن عباس نے توقف کیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا: کہو ہاں! میں بھی تمہارے ساتھ گواہی دیتا ہوں، پھر اُنہوں نے فرمایا: ہاں میں گواہی دیتا ہوں۔ (شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید، ج: 12، ص: 191 تا 192)۔

ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے فرمایا: عمرؓ اہلِ جنت کے چراغ ہیں، جب حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ نے ان کے بارے میں یہ کلمات ارشاد فرمائے ہیں، وہ فوراً آپ کے مکان پر تشریف لائے اور فرمایا: علیؓ! کیا تم نے سنا ہے کہ نبی کریمﷺنے مجھے اہلِ جنت کا چراغ کہا ہے؟ فرمایا: ہاں! میں نے رسول اللہﷺ سے یہ بات سنی ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: علیؓ! یہ حدیث آپ مجھے اپنے ہاتھوں سے لکھ کر دے دیں، حضرت علیؓ نے اپنے دستِ مبارک سے بسم اللہ کے بعد لکھا: یہ وہ بات ہے جس کی ضمانت علیؓ عمرؓ کے لیے دیتا ہے، میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ نے جبریل امینؑ سے سنا، اُنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے سنا کہ عمرؓ اہلِ جنت کے چراغ ہیں۔ حضرت علیؓ کی یہ تحریر حضرت عمرؓ نے لے لی اور اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ جب میری وفات ہو جائے تو غسل و تکفین کے بعد یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا۔ جب آپؓ شہید ہوئے تو حسبِ وصیت وہ تحریر آپ کے کفن میں رکھ دی گئی۔ (اَلرِّیَاضُ النَّضْرَۃ فِیْ مَنَاقِبِ الْعَشَرَۃ، ج:2، ص:311 تا 312)۔

امام محمد باقرؓ بیان کرتے ہیں: حضرت جابرؓ بن عبداللہ نے بیان کیا: جب وصال کے بعد حضرت عمرؓ کو غسل دے کر کفن پہنایا گیا تو حضرت علیؓ تشریف لائے اور فرمانے لگے: ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، میرے نزدیک تم میں سے کوئی شخص مجھے ان سے زیادہ محبوب نہیں کہ میں ان جیسا نامہ اعمال لے کر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوں، (تَلْخِیْصُ الشَّافِی، ص: 219، مطبوعہ ایران)۔
امام محمد باقرؓ فرماتے ہیں: ”حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی اولادِ بزرگوار کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ ابوبکرؓ و عمرؓ کے حق میں وہ بات کہیں جو سب سے بہتر ہو‘‘ (اَلصَّوَاعِقُ الْمُحْرِقَہ، ج:1، ص: 155)۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے