سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمات

امیر المومنین‘ خلیفۃ المسلمین شہیدِ محراب و منبر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اُمت کے بڑے فقیہ، مجتہد اور عالم تھے۔ رسول اللہﷺ نے بارہا آپؓ کے علم و فضل کی شہادت دی۔ احادیث مبارکہ میں ہے: (1) ”نبی کریمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حق بات کو عمرؓ کی زبان اور دل میں رکھ دیا ہے‘‘ (مسند احمد: 9213)، (2) ”رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں ایک مرتبہ سو رہا تھا کہ میرے سامنے دودھ کا پیالہ لایا گیا، میں نے اسے پی لیا یہاں تک کہ سیرابی میرے ناخنوں سے ظاہر ہونے لگی، پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر بن خطاب کو دے دیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اس کی تعبیر کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اس کی تعبیر علم ہے‘‘ (بخاری: 82)، (3) ”نبی کریمﷺ نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے‘‘۔ (ترمذی: 3686)

حضرت عمرؓ کو متعدد اُمور میں اوَّلیت (پہل) کا شرف حاصل ہے: (1) عَلانیہ ہجرت فرمائی۔ (2) امیر المومنین کے لقب سے مشہور ہوئے۔ (3) ہجری تاریخ کا آغاز کیا۔ (4) نمازِ تراویح باجماعت رائج کی۔ (5) قرآنِ مجید کو جمع کرنے کا مشورہ دیا۔ (6) بوڑھے اور نادار ذمیوں سے جزیہ (ٹیکس) ساقط کیا۔ (7) ہر شخص کے لیے اسلامی فوج میں بھرتی کو لازمی قرار دیا۔ (8) راتوں کو لوگوں کے احوال معلوم کرنے کے لیے گشت کا سلسلہ شروع کیا۔ (9) مجاہدین کے ناموں اور وظائف کے لیے رجسٹر مرتّب کیا۔ (10) راستوں میں مسافرخانے اور شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔ (11) جیل خانہ، پولیس کا محکمہ اور فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ (12) نئے شہر بسائے تاکہ بڑے شہروں کی طرف آبادی کا بہائو کم ہو۔ (13) مردم شماری کی تاکہ آبادی کے تناسب سے منصوبہ بندی کی جا سکے اور وسائل کی تقسیم ہو۔

آپؓ اپنے مقرر کردہ عُمّال کو تھوڑے عرصے بعد تنبیہ ونصیحت فرمایاکرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؓ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں نے اپنے عُمّال کو تم پر اس لیے مقرر نہیں کیا کہ وہ تم پر ظلم کریں، تمہارے مال چھین لیں۔ میں نے اُنہیں اس غرض سے تم پر مقرر کیا ہے کہ وہ تمہیں تمہارے دین کی تعلیم دیں اور تمہیں نبی کریمﷺ کی سنتیں سکھائیں لہٰذا جس شخص کے ساتھ اس کے برعکس سلوک کیا جائے تو وہ فوراً مجھے اطلاع دے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں عمر کی جان ہے! میں ضرور انصاف کروں گا اور ظالموں سے قصاص لوں گا۔ یہ سن کر حضرت عمروؓ بن عاص نے عرض کی: امیر المومنین! آپ اپنی اس بات پر غور فرمائیں، جسے آپ عامل بنائیں گے وہ مسلمانوں میں سے ہی ہو گا، اگر اس نے رعایا میں سے کسی کی تادیب کی تو کیا آپ اس سے قصاص لیں گے؟ فرمایا: ہاں! قسم بخدا میں اس سے ضرور قصاص لوں گا، آگاہ ہو جاؤ! کسی مسلمان کو نہ مارنا، کسی مسلمان کی تذلیل نہ کرنا، اُنہیں فتنے میں مبتلا نہ کرنا، اُنہیں سرحدوں پر جمع کرکے نہ رکھنا کہ تم اُنہیں اُن کے بیوی بچوں کے پاس واپس لوٹنے سے روکو، اُنہیں اُن کے حقوق پیہم ادا کرتے رہنا۔ (مسنداحمد:286)

آپؓ اپنے عُمّال کی کڑی نگرانی فرماتے اور ان کا احتساب کرتے رہتے تھے۔ جب کسی شخص کو عامل مقررکرتے تو اس سے چار باتوں پر حلف لیتے تھے: (1) گھوڑے پر سوار نہ ہونا، (2) لباسِ فاخرہ نہ پہننا، (3) عمدہ اور اعلیٰ کھانے نہ کھانا، (4) اپنے دروازوں کو بند نہ رکھنا اوردربان مقرر نہ کرنا کہ لوگ اپنی حاجتوں کے لیے نہ آ سکیں۔ ”ایک دفعہ حضرت عمرؓ بازار میں جا رہے تھے، ایک طرف سے آواز آئی: عمر! کیا عُمّال کے لیے کچھ اصول و ضوابط مقرر کرکے تم اپنے آپ کو عذابِ الٰہی سے بچا سکتے ہو؟ تمہیں خبر ہے کہ مصر کا عامل عیاض بن غنم باریک کپڑے پہنتا ہے، اس کے دروازے پر دربان مقرر ہے، حضرت عمرؓ نے محمد بن مسلمہ کو بلایا اور کہا: عیاض کو جہاں پائو، ساتھ لے آؤ۔ محمد بن مسلمہ نے وہاں پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازے پر دربان تھا اور عیاض باریک کپڑے کی قمیص پہنے بیٹھے تھے، اسی حالت میں انہیں ساتھ لے کر مدینہ طیبہ آئے، حضرت عمرؓ نے وہ قمیص اُتروا کر اون کی قمیص پہنائی اور بکریوں کا ایک ریوڑ منگوا کر حکم دیا: ”انہیں لے جا کر جنگل میں چراؤ‘‘، عیاض کو انکار کی مجال نہ تھی لیکن بار بار یہ کہتے: اس سے مر جانا ہی بہتر ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: تجھے اس سے عار کیوں ہے؟ تیرے باپ کا نام غنم اِسی وجہ سے پڑا تھا کہ وہ بکریاں چراتا تھا‘‘۔ (ازالۃ الخفاء، ج: 2، ص: 252)

”حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو لکھا: اپنے اوپر پانچ باتوں کو لازم کر لو، تمہارا دین سلامت رہے گا: (1) جب تمہارے سامنے مقدمے کے فریقین حاضر ہوں تو معتبر لوگوں کی گواہیوں اور پختہ قسموں پرخاص توجہ دو، (2) کمزوروں کو اپنے قریب بٹھاؤ، یہاں تک کہ انہیں بولنے کا حوصلہ ملے اور ان کے دل میں جرأت پیدا ہو، (3) غریبوںکا خیال رکھو، انہیں دیر تک انتظار نہ کراؤ کہ وہ مایوس ہوکر لوٹ جائیں، (4) حبِ جاہ، حبِ مال اور نفسانی خواہشات سے اپنے نفس کو محفوظ رکھو، (5) حتی الامکان فریقینِ مقدمہ کے درمیان مصالحت کی کوشش کرو‘‘۔ (کِتَابُ الْخَرَاج لِلْاِمَام اَبیْ یُوسُف، ص:130)

ایک مرتبہ آپؓ کے عہدِ خلافت میں ایک شخص آپ کی خدمت میں اپنی فریاد لے کر حاضر ہوا اور کہا: امیر المومنین! مصرکے گورنر عمروؓ بن العاص کے بیٹے محمد بن عمرو نے میری پشت پر آٹھ کوڑے مارے ہیں، وہ کہتا ہے: میں گورنر کا بیٹا ہوں۔ آپؓ نے حکم دیا: محمد بن عمرو کو گرفتار کرکے لائو اور عمروؓ بن العاص کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔ محمد بن عمرو گرفتار کرکے لائے گئے، آپؓ نے اُس سے کہا: گورنر کے بیٹے محمد بن عمروکی پشت پر آٹھ کوڑے مارو۔ اُس شخص نے گورنرکے بیٹے کی پشت پرکوڑے مارے، حضرت عمرؓ بن خطاب نے اُس آدمی سے کہا: اب عمروؓ بن العاص کی پشت پر بھی ایک کوڑا مارو تاکہ اسے پتا چلے کہ اس کا بیٹا کیا کرتا ہے، اس پر اُس شخص نے کہا: امیرالمومنین !عمروؓ بن العاص نے مجھے کوئی کوڑا نہیں مارا، میں انہیں معاف کرتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ جم غفیر کے سامنے گورنر مصر حضرت عمروؓ بن العاص سے مخاطب ہوئے اور ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: عمروؓ بن العاص! تم نے لوگوں کوکب سے اپنا غلام سمجھناشروع کر دیا ہے، ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا۔ حضرت عمروؓ بن عاص نے کہا: امیر المومنین! نہ مجھے اس واقعے کاعلم ہے اور نہ یہ شخص میرے پاس اپنی شکایت لے کر آیا۔ (کنز العمال، ج: 12، ص: 660)

آپ ؓنے اپنے عہدِ خلافت میں حربی تاجروں کو دارالاسلام میں آنے اور مسلمانوں کے ساتھ خرید و فروخت کی اجازت دی۔ عمرو بن شعیب بیان کرتے ہیں: سمندر پار ایک حربی قوم اہلِ مَنْبِجْ نے حضرت عمرؓ کو خط بھیجا: ہمیں اجازت دیں کہ ہم آپ کی سرزمین میں تجارت کریں، اس کے عوض آپ ہم سے عشر لے لیں۔ حضرت عمرؓ نے صحابۂ کرامؓ سے اس بارے میں مشورہ کیا اور اس کی منظوری دے دی۔ آپؓ ذمیوں کے ساتھ نیک برتاؤ کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپؓ نے گشت کے دوران ایک دروازے پر ایک ضعیف العمر نابینا دیکھا، آپؓ نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پوچھا: تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا: میں یہودی ہوں۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: گداگری کی نوبت کیسے آئی؟ یہودی نے کہا: اس کا سبب جزیہ، بڑھاپا اور روزی کی مجبوری ہے۔ یہ سن کر آپؓ اس کا ہاتھ پکڑ کر گھر لائے، اس کی ضرورت پوری کی، پھر بیت المال کے خازن کو لکھا: اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو، خدا کی قسم! یہ انصاف نہیں ہے کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ وصول کریں اور بڑھاپے میں انہیں بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیں۔ اس کے بعد آپؓ نے ایسے تمام لوگوں کا جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر کر دیا۔ (کِتَابُ الْخَرَاج، ص: 139)۔

آپؓ نبی کریمﷺ کے قرابت داروں کا بے حد احترام کرتے اور وظائف میں انہیں ترجیح دیتے تھے۔ حضرت عبداللہؓ بن عباس بیان کرتے ہیں: جب مدائن فتح ہوا توحضرت عمرؓ نے سارا مالِ غنیمت مسجد نبوی میں فرش پر ڈال دیا، سب سے پہلے حضرت امام حسنؓ تشریف لائے اور فرمایا: امیر المومنین! مالِ غنیمت میں سے ہمارا حق دیں، آپؓ نے انہیں ایک ہزار درہم دیے، پھر حضرت حسینؓ تشریف لائے، اُنہیں بھی ایک ہزار درہم دیے، پھر آپؓ کے بیٹے عبداللہؓ بن عمر تشریف لائے تو آپ نے اُنہیں پانچ سو درہم دیے، اُنھوں نے کہا: امیر المومنین! میں نبی کریمﷺ کے عہدِ مبارک میں جوان تھا، میں آپﷺ کے ہمراہ جہاد میں شریک ہوتا تھا جبکہ حضرات حسنؓ و حسینؓ اس وقت چھوٹے بچے تھے، مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے، آپ نے انہیں ہزار درہم دیے اور مجھے صرف پانچ سو‘ میرا حق اُن سے زیادہ ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: بیٹے! پہلے وہ فضیلت تو حاصل کرو جو حسنین کریمینؓ کو حاصل ہے، پھر مجھ سے ہزار درہم کا مطالبہ کرنا، ان کے والد علی المرتضیٰؓ، والدہ فاطمۃ الزہراءؓ، نانارسولِ خداﷺ، نانی خدیجۃ الکبریؓ، چچا جعفرِ طیارؓ، پھوپھی اُم ہانیؓ، ماموں ابراہیمؓ بن رسول اللہ اورخالہ رقیہؓ و اُم کلثومؓ ہیں۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ خاموش ہو گئے‘‘۔ (اَلرِّیَاضُ النَّضْرَۃ، ج:2، ص:340 )۔

آپؓ کے عہدِ خلافت میں ایک دن حضرت حسنؓ آپ کے پاس تشریف لائے اور دیکھا: آپ کے بیٹے عبداللہؓ حاضری کی اجازت طلب کرنے کے لیے کھڑے ہیں اور اُنہیں اجازت نہ ملی، حضرت حسنؓ یہ خیال کرکے واپس تشریف لے گئے کہ جب اُنہوں نے اپنے بیٹے کو اجازت نہیں دی تو مجھے کب دیں گے، حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو آپ نے فوراً انہیں بلایا اور فرمایا: مجھے آپ کے آنے کی اطلاع نہیں تھی۔ حضرت حسنؓ نے فرمایا: میں اس خیال سے واپس چلا گیا کہ جب آپ نے اپنے بیٹے کو اجازت نہیں دی تو مجھے کب دیں گے، حضرت عمرؓ نے فرمایا: خدا کی قسم! آپ اجازت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں، عمر کے سر پر یہ جو بال اُگے ہیں، یہ اللہ کے بعد آپ کے سوا کس نے اُگائے ہیں؟ (یعنی رسول اللہﷺ کی برکت ہے) فرمایا: آپ جب چاہیں، بغیر اجازت آ جایا کریں۔ (اَلصَّوَاعِقُ الْمُحْرِقَۃ، ج: 2، ص: 521)۔

”ایک بار حضرت عمرؓ سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو نبی کریمﷺ کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپؓ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز نہیں‘‘۔ (اَلْمُسْتَدْرَکْ لِلْحَاکِم: 4736)

سیدنا عمر فاروقؓ کی فتوحات پر ایک نظر ڈالی جائے تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ آپؓ کے دس سال چار ماہ کے عرصۂ خلافت میں 2251030 مربع میل علاقہ فتح ہوا۔ بڑے بڑے علاقے مثلاً: شام، مصر، عراق، جزیرہ کرمان، خراسان، خوزستان، آرمینیا، آذربائیجان اور فارس آپ کے دورِ خلافت میں فتح ہوئے۔ آپؓ کے عہدِ خلافت میں ایک ہزار چھتیس شہر اپنے ملحقات سمیت فتح ہوئے، چار ہزار مساجد تعمیر ہوئیں، جامع مساجد کے محراب میں نو سو منبر بنائے گئے، کوفہ، بصرہ، جیزہ، فسطاط اور موصل کے نام سے نئے شہر آباد ہوئے۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے