ہم سب جانتے ہیں کہ کلام مجید ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس کی تشریح و تفسیر حیات طیبہ رسول اللہﷺ ہے۔ غیرمسلم سائنسدانوں نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ کلام مجید میں کوئی غلطی مل جائے مگر وہ ناکام رہے اور تقریباً اسّی فیصد واقعات کو سائنسی طور پر صحیح ثابت پایا ہے جو بیس فیصد رہ گئے ہیں وہ بھی ان شا ﷲ وہ صحیح پائیں گے۔ ایک عزیز دوست نے یہ معلومات بھیجی ہیں آپ سب سے شیئر کررہا ہوں، ان پر عمل کرنے سے 75فیصد ثواب ان کو 25 فیصد مجھے وسیلہ بننے پر مل جائے گا ان شا ﷲ۔
پہلی بات تو یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پیارے رسول ﷲ ﷺ زندگی بھر کبھی بیمار نہیں ہوئے۔ وجہ، آپ مندرجہ ذیل اسباب جان لیں:
(۱) صبح جلدی اُٹھنا:رسول ﷲ ﷺ صبح بہت جلدی اٹھ جایا کرتے تھے بلکہ ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ آپ ﷺ کی تہجد بھی کبھی قضاء ہوئی ہو۔ سورج نکلنے سے کچھ وقت قبل اور ایک گھنٹہ بعد تک کا وقت آکسیجن سے بھرپورہوتا ہے۔ آج سائنسی تحقیق کی بنیاد پر بھی صحت کے اعتبار سے 24گھنٹوں میں یہ بہترین وقت ہوتا ہے کہ جس میں آپ کو زیادہ سے زیادہ آکسیجن لینے کا موقع ملتا ہے جو کہ آپ کی صحتمند زندگی کے لئے ایک بہت مفید عمل ہے۔
(۲) آنکھوں کا مساج:صبح نیند سے اٹھنے کے بعد رسول ﷲ ﷺ آنکھوں کا مساج فرمایا کرتے تھے۔ باڈی کا پورا نظام گیارہ سسٹم پر مشتمل ہوتا ہے۔ نیند سے اٹھنے کے بعد یہ سسٹم بحال ہونے میں 11 سے 12 منٹ لیتا ہے۔ اگر آپ آنکھوں کا مساج کرتے ہیں تو یہ سسٹم 10 سے 15 سیکنڈ میں فوراً بحال ہوجاتا ہے۔
(۳) بستر پر کچھ دیر بیٹھے رہنا:رسول ﷺ بستر سے اٹھ کر کچھ دیر بیٹھے رہتے تھے اور معمول تھا کہ تین دفعہ سورہ اخلاص پڑھتے تھے کہ جس کو پڑھنے میں تقریباً ایک منٹ صرف ہوتا ہے۔ آج میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ ہمارے دماغ میں ایک capillary ہے کہ جس کے ایک حصے سے دوسرے حصے کیلئے بلڈ کیلئے ایک پل بنتا ہے۔ اس طرح اس پل کے ذریعے سے ہی ہمارے پورے دماغ کو بلڈ کی سپلائی بحال ہوتی ہے کہ جہاں سے ہمارے تمام تر اعصاب یعنی پورا جسم کنٹرول ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص صبح بیدار ہونے پر اچانک اُٹھ کر چل دے جبکہ ابھی برین میں بلڈ کی سپلائی بحال نہیں ہوئی تو اس شخص کو برین ہیمرج ہوسکتا ہے یا وہ برین کے کئی دوسرے پیچیدہ مسائل کا شکار ہوسکتا ہے جس میں اچانک جسم کے کئی حصوں کا مفلوج ہونا (فالج) بھی شامل ہے۔ جبکہ اگر وہ ایک منٹ بیٹھا رہے کہ اس کے دماغ میں بلڈ کی سپلائی بحال ہوسکے تو بہت سے پیچیدہ مسائل سے بچ سکتا ہے۔ یہ باقاعدہ ایک سائنس ہے اور اس ایک حدیث مبارکہ کے پیچھے بہت سے پروفیسر ڈاکٹرز کی ریسرچ شامل ہے، جس سے غیرمسلم ریسرچرز نے بھی اتفاق کیا ہے کہ ہمیں محمد ﷺ کی اس سنت کے مطابق صبح اٹھنے کے بعد بیڈ پر کچھ دیر بیٹھے رہنا چاہئے۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ دماغ پوری طرح سے ایکٹو ہوکر ہمارے جسم کی بھرپور رہنمائی کے قابل ہوجاتا ہے۔ یہ سنت مبارکہ ہے‘ جہاں بہت بڑا اَجر و ثواب ہے وہاں صحت کا بہت بڑاراز بھی ہے۔
(۴) قیلولہ کرنا: آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ دوپہر کے کھانے کے بعد ایک گھڑی کے لئے (20 سے 25 منٹ) آ پ ﷺ لیٹ جایا کرتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ تقریباً 68 فیصد افراد میں جب وہ لنچ کرتے ہیں تو ان کا معدہ تھوڑی مقدار میں الکوحل پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں اگر انسان چل پھر رہا ہو تو وہ چکرا کر گر سکتا ہے، یا اس پر خمار کی سی کیفیت طاری ہوسکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ آپ ہمیشہ دوپہر کے کھانے کے بعد اپنے آپ کو تھوڑا بوجھل محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم کچھ دیر لیٹ جائیں تو الکوحل سے پیدا ہونے والے خمار کا ذہن پر زیادہ دبائو نہیں آئے گا اور وہ باڈی فنکشنز کے لئے زیادہ فعال رہے گا اور ہم کسی بھی طرح کے حادثے سے بچ سکیں گے۔ اس کے علاوہ بھی اس سنت مبارکہ پر عمل نہ کرنے کی صورت میں بہت سے صحت کے مسائل کا خدشہ رہتا ہے۔ چونکہ یہ بات آج تحقیق سے ثابت شدہ ہے اسلئے دُنیا بھر کے ممالک میں بیشتر ایک سے دو یا تین بجے تک دوپہر کا وقفہ کیا جاتا ہے تاکہ لوگ لنچ کے بعد کچھ قیلولہ کرسکیں۔ آج پورا یورپ رسول ﷲ ﷺ کی سنت کو اپنائے ہوئے ہے اور پورے یورپ میں دوپہرا سے ۳ بجے تک کا وقفہ ہوتا ہے۔ اُنھوں نے سنت رسول ﷺ پر ریسرچ کی،اسے اَپنایا اور ہم سے کہیں بہتر صحت کا معیار رکھتے ہیں۔
(۵) کھانے سے پہلے پھل نوش فرمانا:رسول ﷲ ﷺ ہمیشہ کھانا کھانے سے پہلے پھل نوش فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ کھانے کے بعد پھل نوش نہ فرماتے تھے۔ مختلف پھلوں میں 90سے 99 فیصد تک پانی کی مقدار ہوتی ہے آپ ﷺ نے چونکہ کھانا کھانے کے بعد پانی پینے سے منع فرمایا ہے جبکہ کھانے سے قبل پانی پینے کی ترغیب دلائی ہے۔ اس لئے مختلف پھل بھی چونکہ پانی کی بہت زیادہ مقدار رکھتے ہیں اس لئے ان کو کھانے سے پہلے کھانے سے جسم اور خاص طور پر معدہ اور آنتوں کو توانائی ملتی ہے۔ کیونکہ کھانے کو ہضم کرنے میں معدہ اور آنتو ں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے اور یہ عمل ان کی کارکردگی بڑھانے میں ان کے لئے مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ بات بھی سائنسی مشاہدات سے ثابت شدہ ہے۔ فروٹ میں موجود غذائیت سے خالی معدے کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
(۶) غذاکے بعد پانی نہ پینا: رسول ﷲ ﷺ کبھی بھی کھانے کے بعد پانی نہ پیتے تھے۔ آج علم و تحقیق سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ اس سنتِ مبارکہ پر عمل نہ کرنے کے اس قدر نقصانات ہیں کہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جب ہم کھانے کے بعد پانی پیتے ہیں تو کھانے میں جس قدر بھی فیٹس ہوتے ہیں وہ کھانے سے نکل کر معدے کے اوپر والے حصے کی طرف آجاتے ہیں۔ باقی کھانا ہاضمے کے دوسرے مرحلے کیلئے چھوٹی آنت میں چلا جاتا ہے اور اس طرح معدے میں رہ جانے والا فیٹ اور پروٹین معدےمیں انتہائی نقصان دہ گیسز پیدا کرتے ہیں جبکہ ان سب کو کھانے کے ساتھ مکس ہوکر نظام انہضام کے اگلے مرحلے میں جانا تھا۔ ہم نے پانی پی لیا یا فروٹ کھا لیا تو یہ ہماری صحت کی بربادی کیلئے معدے ہی میں رہ گئے۔ ایک حدیث رسول ﷺ کا مفہوم ہے کہ اگر کھانا کھالینے کے بعد پانی کی حاجت ہو تو محض چند ایک گھونٹ لے لو اور اس کے بعد روٹی کا ایک لقمہ کھالو۔ جاپانی ریسرچ ہے کہ کھانے کے بعد پانی پینے سے جو فیٹ اوپر آرہے تھے اور آپ نے جو بعد میں لقمہ کھالیا تو فیٹس کے اوپر آنے کا سلسلہ نہ صرف وہیں رک جاتا ہے بلکہ وہ دوبارہ غذا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس لئے کھانا کھانے کے بعد پانی ہرگز نہیں پینا چاہئے کہ جو پیٹ میں نہ صرف گیسز، تیزابیت، بدہضمی کا باعث بنتے ہیں بلکہ دل کے بہت سے امراض کا تعلق بھی اسی سنت مبارکہ پر عمل نہ کرنے کے سبب سے ہی ہے۔
(۷)’’وضو‘‘ ۔ ہم دن میں پانچ فرض نمازوں کے لئے کم از کم پانچ بار وضو کرتے ہیںکیونکہ وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور منہ، ناک، بازو، سر اور پائوں دھوئے بغیر وضو نہیں ہوتا۔ یعنی دن میں پانچ بار ہم جسم کے اِن تمام ظاہری اعضاء کو دھوتے ہیںجن پر مٹی اور کاربن لگ سکتی ہے۔آج سائنسی مشاہدات یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ جسم کے جن اعضاپرمٹی یا کاربن لگ سکتی ہے اگر ان کو صاف نہ کیا جائے اور وہ جسم کے اس حصے یا بدن پر لگے رہیں تو ان اعضاء اور دماغ کا کنکشن کمزور ہوجاتا ہے یعنی جسم کا اعصابی نظام کمزور ہوجاتا ہے۔ وہ چوں کہ مسلسل دماغ کو یہ پیغام بھیج رہے ہوتے ہیں کہ جسم پر کوئی چیز آگئی ہے، اس کی صفائی کا اہتمام کیا جائے۔اگر ایک شخص صرف صبح اور شام منہ دھوتا ہے تو اس کے اعضاء اور دماغ کا تعلق کمزور پڑ جاتا ہے اور وہ بہت سے اعصابی مسائل کا شکار ہوسکتا ہے۔اسلام کم از کم دن میں پانچ بار اعضاء کی صفائی کا بندوبست کرتا ہے اور جمعہ کے روز ناخن اور مکمل صفائی کا اہتمام کرتا ہے اس لئے جمعہ کا غسل ہر مسلمان پر واجب ہے۔ رسول ﷺ نے نہ صرف ایسا کرنے کا حکم فرمایا ہے بلکہ یہ سب آپ ﷺ کی سنت مبارکہ کا حصہ بھی ہے۔
(۸)’’جلد سونا‘‘ ۔ رسول ﷺ کی ایک اور عادت مبارکہ یہ بھی تھی کہ آپ ﷺ رات جلد سو جایا کرتے تھے۔ عموماً آپ ﷺ نماز عشاء کے فوراً بعد سو جاتے تھے ۔ یعنی رات جلد سونا اور صبح جلد اٹھنا آپ ﷺ کے معمولات میں شامل تھا۔ ہماری بایولوجیکل واچ جو کہ ہمارے پورے جسم کے نظام کو منظم کرتی ہے جب یہ باہر اندھیرا دیکھتی ہے تو یہ آپ کے جسم کو سونے کا سگنل دے دیتی ہے جسم کو تیاری کے لئے یہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا ٹائم دیتی ہے کہ اس وقت تک آپ کو لازمی سونا ہے۔ نوٹ کیجئے کہ نماز مغرب اور عشا میں بھی تقریباً اتنا ہی دورانیہ ہوتا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے اندر بایولوجیکل واچ کے تحت ایک ڈاکٹر جاگ جاتا ہے جو پورے جسم کی مینٹی نینس کرتا ہے۔ اگر کہیں زخم آگیا ہے تو وہ اس کو ریپیئر کرتا ہے۔ اگر جگر یا کسی اور عضو میں کچھ مشکل ہے تو اس پر کام کرے گا بلکہ سونے کے بعد سب سے پہلے جگر پر ہی کام ہوتا ہے اور جو جگر کے مریض ہیں ان کے لئے یہ مشورہ بھی ہےکہ وہ اپنی نیند کے نظام کو بہتر کرکے اپنے جسم کے ڈاکٹر کو علاج کا موقع دیجئے اور پھر اس کے ثمرات دیکھئے۔مینٹی نینس کا یہ عمل روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ﷲ رب العزت نے آپ کے جسم میں ایک خودکار نظام رکھا ہے اور یہ تب کام کرتا ہے جب آپ جلدی سونے کی عادت اپناتے ہیں۔ عہدِ جہالت میں عربوں میں ایک رواج تھا کہ رات کے کھانے کے بعد ان کے ہاں دیومالائی کہانیوں کی محفلیں ہوتی تھیں جو رات گئے چلتی رہتی تھیں اور اس ماحول میں رسول ﷺ کا رات جلدی سونا بھی ان کے نزدیک ایک قابل اعتراض عمل تھا۔ یہ تو عہد جہالت تھالیکن آج ماڈرن ایج کا دعویٰ کرنے والے مسلمانوں کے ہاں بھی دیر تک جاگنے کو نہ صرف قابل اعتراض نہیں سمجھا جاتا بلکہ کچھ حد تک تو قابل فخر بھی جانا جاتا ہے۔ عہد جہالت کی محفلوں کی جگہ آج ماڈرن انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی نے لے لی ہے۔ لیکن جلدی سونا رسول ﷺ کے معمولات میں تھا کیونکہ جسم کے اندرونی ڈاکٹر کی افادیت سے واقف تھے اور یہی وجہ ہے کہ پوری حیاتِ مبارکہ میں رسول ﷺ ایک لمحے کے لئے بھی بیمار نہیں ہوئے۔
(۹)’’مسواک کرنا‘‘ ۔ رسول ﷲ ﷺ مسواک کو بہت پسند فرماتے تھے اور خصوصاً دن میں پانچ دفعہ ہر نماز میں وضو کیساتھ تو ضرور اس کا اہتمام فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی جب گھر تشریف لاتے ،کسی محفل میں حاضری سے پہلے مسواک کا اہتمام کرتے اور مسواک کو بہت محبوب رکھتے۔جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو دانتوں کے درمیان کھانے کے کچھ نہ کچھ ذرات ضرور رہ جاتے ہیں اور ایک گھنٹہ بعد ان میں بیکٹیریا پیدا ہوجاتے ہیں ،دو گھنٹے بعد یہ ذرات نرم ہوجاتے ہیں جن کی وجہ یہ بیکٹریا ہی ہیں۔اس لئے ہمیں کہا گیا ہے کہ کھانے سے پہلے،بعد، سونے سے پہلے، بعد مسواک کا اہتمام کیا جائے ورنہ یہ ہارٹ اٹیک کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔آج امریکہ اور مغربی ممالک میں صبح اٹھنےکے بعد، بغیر منہ صاف کئے، کھانے پینے کا رواج ہے جو اُن میں طرح طرح کی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی نے ہارٹ اٹیک کے پانچ سو مریضوں پر ریسرچ کی انہوں نے جہاں اور بہت سی وجوہات بیان کیں وہاں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ ٹوتھ برش کرنے کے عادی نہ تھے جس کے سبب ان کے دانتوں پر جمے میل کا پیٹ میں اتنا اضافہ ہوا کہ وہ ہارٹ کی آرٹریز کو بلاک کرنے کا سبب بنا جبکہ ہمیں رسول ﷲ ﷺ نے مسواک کی اس حد تک تلقین فرمائی کہ ایک موقع پر فرمایا کہ اگر امت پر بھاری نہ ہوتا تو میں امت پر مسواک کو فرض قرار دے دیتا۔ آج کی ماڈرن سائنس یہ ثابت کرچکی ہے کہ جن لوگوں کو ٹوتھ برش زیادہ کرنے کی عادت ہوتی ہے ان کو غصہ کم آتا ہے اور وہ اکثر ٹھنڈے مزاج کے حامل اور پرسکون رہتے ہیں۔جس شخص کو زیادہ غصہ آتا ہو، بلڈپریشر اکثر ہائی رہتا ہو، طبیعت میں بے چینی ہو، تو وہ زیادہ سے زیادہ مسواک کیا کرے دو تین ماہ ہی میں وہ اس کے حیران کن اثرات دیکھ لے گا۔
آج ہم سائنسی تحقیقات پر بہت یقین رکھتے ہیں، کیا ہم اس انتظار میں ہیں کہ سائنس رسول ﷲ ﷺ کی سنت مبارکہ کو پروف کرے تو ہم ﷲ کے رسول ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا شروع کریں گے۔حقیقت یہ ہے کہ سائنس رسول ﷲ ﷺ کی سنتوں سے بہت پیچھے ہے اور آپ ﷺ کی ساری حیاتِ طیبہ، سنتیں ہمارے لئے دنیا و آخرت کی کامیابیاں اور راحتیں ہیں۔ اے مسلمانو! تمہارے لئے ﷲ کے رسول ﷺ (کی زندگی) میں ایک بہترین نمونہ ہے۔( الاحزاب، 21 )
بشکریہ جنگ