صرف کرکٹ کیوں؟

تمام توانائیاں کرکٹ کی نذر کر دینا، کیا ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا؟

میں راولپنڈی میں رہتا ہوں۔ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کے لیے سکیورٹی کے انتظامات، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ بلامبالغہ، ایسی سکیورٹی میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ سٹیڈیم روڈ عوام کے لیے بند تھا۔ اسی سڑک پر ایک کووڈ ویکسین سنٹر ہے۔ یہ بھی کئی دن سے بند تھا۔ میچ سے دو دن پہلے، کئی کلومیٹر تک، شہر کی مرکزی شاہراہ، مری روڈ پر تمام دکانیں، پٹرول پمپ بند کر دیے گئے تھے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم پریکٹس کیلئے آتی تو اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان مرکزی شاہراہ کو مکمل بند کر دیا جاتا۔ قریب کے پارک کو بند کر دیا گیا۔ ٹیم کی گزرگاہ پر پولیس کی غیرمعمولی تعداد موجود تھی۔ یہی نہیں، میں نے سکیورٹی کی اتنی گاڑیاں، کبھی ایک ساتھ متحرک، اس سے پہلے نہیں دیکھیں۔

یہ سکیورٹی اتنی زیادہ تھی کہ اسے دیکھ کر وحشت ہوتی تھی۔ میں سوچتا رہاکہ جن میچوں کی وجہ سے، شہر کی معمول کی زندگی اتنی زیادہ متاثر ہوتی ہو، ان میں تفریح کہاں سے آئے گی؟ یہ ایک عذاب تھا جو شہر پر مسلط تھا۔ سٹیڈیم کے قریب مری روڈ پر راولپنڈی اسلام آباد کی تعمیرات سے متعلق سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ ان برے حالات میں بھی، یہاں ہر روز کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے کہ تعمیرات ہی کا شعبہ متحرک ہے۔ یہ دکانیں میچ سے دو تین دن پہلے ہی بند کر دی گئی تھیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تاجروں کا کتنا نقصان ہوا ہوگا؟

جس نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، اس کے لیے یہ ماننا مشکل ہے کہ یہاں کسی واردات کا کوئی اندیشہ تھا‘ اس کے لیے اس مقدمے میں جان ہے کہ دورے کی منسوخی کا اصل سبب سکیورٹی نہیں کچھ اور ہے۔ یہ معلوم بات ہے کہ کھیل اب پولیٹیکل اکانومی ہی نہیں، جیو پالیٹکس کے پہلو سے بھی بہت اہم ہوگیا ہے۔ ریاستوں کے معاشی وسیاسی مفادات براہ راست کھیل کے ساتھ وابستہ ہیں۔ دنیا نے اس سارے قصے کو اسی نظر سے دیکھا۔ نیوزی لینڈ اور انگلستان نے، گمانِ غالب یہی ہے کہ سیاسی اسباب کے تحت فیصلے کیے۔

یہ بات کسی طور قابلِ قبول نہیں ہو سکتی کہ ہماری وزارتِ خارجہ کے حکام کھیل کے اس استعمال سے واقف نہیں۔ وہ مجھ جیسے عامی سے کہیں زیادہ جانتے ہیں کہ سیاست اور کھیل کیسے ایک دوسرے سے جڑ گئے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ کرکٹ جیسے کھیل پر تاریخی حوالے سے انگریزوں کا غلبہ ہے۔ یہ کھیل انہی علاقوں میں زیادہ مقبول ہوا جو انگریزوں کی کالونی رہے۔ دورِ جدید میں بھارت نے بھی اپنی معاشی حیثیت کو کرکٹ کیلئے اور کرکٹ کو معیشت کیلئے، کامیابی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اس وقت وہ کرکٹ کی سیاست کا اہم کھلاڑی ہے۔

وزارتِ خارجہ اس سے بھی واقف ہے کہ کرکٹ کو سیاست سے پہلے، کارپوریٹ سیکٹر نے استعمال کیا جب کیری پیکر کا ڈرامہ شروع ہوا۔ یہ کرکٹ کو ریاست سے ماورا، سرمایہ دارانہ معیشت سے وابستہ کرنے کی پہلی کامیاب کوشش تھی۔ انہی دنوں، جب پاکستان کی ٹیم آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے پر روانہ ہو رہی تھی تو اس کے اہم ترین کھلاڑی ٹیم چھوڑ کر چلے گئے۔ مشتاق محمد اور وسیم راجہ کی شاندار کارکردگی نے پاکستان کی ساکھ کو دھچکا نہیں لگنے دیا۔

اگر کرکٹ کی یہ تاریخ، سرمایہ دارانہ چالیں اور ملکوں کے سیاسی مفادات کا یہ کھیل نظروں کے سامنے رہے تو اس کے بعد لازم ہو جاتا ہے کہ تمام توانائیاں محض کرکٹ کے لیے وقف نہ کی جائیں۔ ہمیں اپنے کھیل کے میدان آباد رکھنے کے لیے ایک سے زیادہ کھیلوں پر توجہ دینی چاہیے تھی۔ اگر کسی وجہ سے ایک کھیل نہیں ہو رہا تو دوسرے کھیل جاری رہیں۔

ہمارے ہاں کم وبیش تیس سال سے صرف کرکٹ ہورہی ہے۔ ہاکی جیسا قومی کھیل، جس میں ہم سردار تھے، برباد ہوگیا۔ سکواش کی دنیا میں کوئی ہمارا ہم سر نہیں تھا۔ آج ہاکی کہاں ہے؟ سکواش کہاں ہے؟ ہم نے تمام کھیل تباہ کرکے ایک کرکٹ کو زندہ رکھا۔ آج کرکٹ کے میدان ویران ہوئے تو ہمارے پاس کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ دو ملکوں نے دورے کیا منسوخ کیے، پورے ملک میں صفِ ماتم بچھ گئی۔

یہ واقعات ہمیں متوجہ کر رہے ہیں کہ تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہئیں۔ ہمیں دوسرے کھیلوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ اگر ہم معیشت اور سیاست کے حوالے سے متبادل کے بارے میں سوچتے ہیں تو کھیلوں کے حوالے سے کیوں نہیں سوچتے؟ چین کے ساتھ اگر دیگر شعبوں میں اشتراک ہو سکتا ہے تو کھیلوں میں کیوں نہیں؟

جب اکرم پہلوان نے جاپانی پہلوان انوکی کو للکارا تو ملک میں کافی دن رونق لگی رہی۔ اس کا انجام اگرچہ مضحکہ خیز تھا لیکن کھیل کا ایک مقصد تو پورا ہوا۔آج بھی ہمیں انہی خطوط پر سوچنا ہو گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کر کٹ کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ ہمیں نیوزی لینڈ جیسے ممالک سے کشیدگی بڑھانی نہیں چاہیے۔ اس کے ساتھ کرکٹ کے نئے مواقع بھی تلاش کرتے رہنا چاہئے۔ یہ اچھی خبر ہے کہ پاکستان نے ازبکستان میں کرکٹ کے فروغ کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے۔ سنٹرل ایشیا میں مزید امکانات تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

جس طرح معاشی اور سیاسی بنیادوں پر اتحاد بنتے ہیں، اب کھیل کے لیے بھی بننے چاہئے کیونکہ کھیل اب معیشت اور سیاست سے الگ نہیں ہے۔ دنیا اگر اسے استعمال کررہی ہے تو پاکستان کو بھی کرنا چاہیے۔ مسابقت کی اس دنیا میں اب فرارکوئی متبادل نہیں ہے۔ یوں یہ محض کھیل کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر سوچ بچار ہونی چاہیے۔

ایک راستہ اور بھی ہے۔ سچ پوچھیے تودرست راستہ وہی ہے۔ اس راستے کی نشاندہی جنرل قمر جاوید باجوہ کرچکے ہیں، اس لیے اب تو مان لینا چاہیے۔ یہ راستہ ہے اپنی گھر کی اصلاح۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ دنیا ہمارے بارے میں ایسی بدگمان کیوں ہے؟ نیوزی لینڈ کی ٹیم کیلئے سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر اب یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ منسوخی کسی بڑے مسئلے کا حصہ ہے۔ یہ مسئلہ دراصل ہے کیا؟ اس کا تجزیہ ہونا چاہیے اور اگر ہمیں اصلاح کی ضرورت ہے تواس سے گریز نہیں ہونا چاہیے۔

اس کے باوجود زندگی کو ہمیشہ کسی نہ کسی چیلنج کا سامنا رہے گا۔ دنیا کی سیاست میں اخلاقیات کا کم ہی گزر ہوتا ہے۔ یہ مفادات کا بے رحمانہ کھیل ہے۔ یہاں بقا کی جنگ ناگزیر ہے۔ او آئی سی میں زندگی کے آثار ہوتے تو ‘مسلم اولمپکس‘ اور ‘مسلم وولڈ کپ‘ جیسے تصورات پر سوچاجا سکتا تھا۔ اس لیے اب ایک ہی راستہ دکھائی دیتاہے اور وہ ہے چین کے ساتھ مل کر کھیلوں کا ایک عالمگیر محاذ بنایا جائے۔ سرمایہ دار کا کوئی ملک یا مذہب نہیں ہوتا۔ اگر دوسری مارکیٹ مل جائے تو اسے اس طرف آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اپوزیشن کا معاملہ بھی ریاست سے زیادہ مختلف نہیں رہا۔ حکومت مخالف حلقے بھی کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔ اپوزیشن نے اس واقعے کو حکومت پر تنقید کا ایک موقع جانا اور بس۔ لازم تھاکہ اپوزیشن اس صورتحال سے نکلنے کیلئے کوئی راستہ تجویز کرتی۔ پاکستان کو مغرب طالبان کے سہولت کار کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں مغرب کا دباؤ بڑھے گا اور افغانستان کا اضطراب بھی اس کی سرحدوں تک محدود نہیں رہے گا۔ اگر امریکہ اور مغرب کے مخالف چلنے کا کوئی فیصلہ شعوری سطح پر ہوا ہے تو پھر متبادل کی تلاش لازم ہے۔ ہمیں یہ متبادل کھیل کے میدان میں بھی ڈھونڈنا ہوگا۔ اس کا آغاز اس اعتراف سے کرنا چاہیے کہ کھیل صرف کرکٹ کا نام نہیں۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے