انسان نے اپنی مرضی سے غلامی کے جو طوق پہنے‘ اُن میں سے ایک ٹیکس کا موجودہ نظام بھی ہے۔
جمہوریت کا آغاز ایک نعرے سے ہوا تھا جو ایک عوامی تحریک میں ڈھل گیا۔ یہ نعرہ تھا: No taxation without representation اس کا مفہوم یہ ہے کہ ٹیکس عائد کرنے کا اختیار عوام کے منتخب نمائندوں یعنی ایوانِ نمائندگان کو ہونا چاہیے‘ کسی ہاؤس آف لارڈز کو نہیں۔ اس اختیار کو پھر اس طرح استعمال کیا گیا کہ انسان اس نظام کا معاشی غلام بن کے رہ گیا۔ اب اس کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں کہ اس پر ٹیکس کوئی غیر یا آمر نہیں‘ اس کے ووٹوں سے منتخب نمائندے عائد کر رہے ہیں۔ یہ کسی ایک حکومت کی نہیں‘ جمہوریت کی کوکھ سے جنم لینے والے نظام کی عطا ہے۔
اس باب میں البتہ ہماری اور مغرب کی جمہوریتوں میں ایک نمایاں فرق ہے۔ مجھے اس وقت اپنی جمہوریت سے غرض ہے یا یوں کہیے کہ جمہوریت کے نام پر اس ملک میں جو نظام نافذ ہے‘ مجھے اس سے سروکار ہے۔ مغرب میں شہری جو ٹیکس دیتا ہے‘ اس کو اطمینان ہوتا ہے کہ اس کا بڑا حصہ‘ بالواسطہ اس کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو رہا ہے؛ تاہم‘ اس کے باوجود یہ ایک ظلم ہے جو انسانوں پر روا رکھا جا رہا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ میرا مسئلہ تو وہ نظام ہے‘ میں جس کا اسیر ہوں۔
پاکستان میں‘ آج ٹیکسوں کا ایک ظالمانہ نظام نافذ ہے۔ عوام سے نام بدل کر بار بار ٹیکس لیا جاتا ہے اور مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس ملک میں دیانت داری سے ٹیکس دینا ممکن ہی نہیں۔ تنخواہ دار طبقہ مجبور ہے کہ پورا ٹیکس دے۔ اس کو ریاست یا آجر کبھی پوری تنخواہ نہیں دیتے۔ اسے ٹیکس وصول کرنے کے بعد تنخواہ دی جاتی ہے۔ اس کے بعد بھی اس کو معاف نہیں کیا جاتا۔ عام شہری کو قدم قدم پر ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ ایک فطری تقاضے کے تحت‘ وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر اسے جہاں موقع ملتا ہے‘ وہ ٹیکس نہیں دیتا۔
میں ایک ایسے خاندانی نظام میں رہتا ہوں‘ جس میں روزمرہ کے معاملات کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے۔ سادہ لفظوں میں مجھے آٹے دانے کا بھاؤ معلوم نہیں تھا۔ چند برسوں سے لیکن صورتِ حال بدل گئی ہے۔ بعض اسباب سے میں اب بازار کے حالات سے واقف ہو چکا ہوں۔ مہنگائی کا بڑھنا پہلے میرے لیے اخبار کی ایک خبر تھی۔ آج میراذاتی تجربہ ہے۔ یہ مہنگائی ظاہر ہے کہ ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے ہے۔
چند دن پہلے میں نے گھر آنے والے سودا سلف کی لسٹ دیکھی۔ اس لسٹ کے مطابق‘ جو اشیا خریدی گئیں‘ ان میں سے ہر ایک پر‘ قیمت کے ساتھ‘ الگ سے ایک ٹیکس‘ جسے جی ایس ٹی کہا جاتا ہے‘ وصول کیا گیا۔ یہ بل بیس اکیس ہزار کا تھا۔ مجموعی بل کے ساتھ‘ پچیس سو دس روپے‘ ٹیکس کی مد میں وصول کیے گئے۔ میں نے بل دیکھا تو سر پیٹ کے رہ گیا۔ میں نہیں جان سکا کہ جب ہر چیز پر ٹیکس دیا جا چکا تو پچیس سو دس روپے کا جرمانہ کیوں؟ کیا یہ پاکستانی ہونے کی سزا ہے؟ مجھے پر ٹیکس کا یہ ظالمانہ نظام ایسی حکومتوں نے نافذ کیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہیں۔
اسی طرح کی صورتِ حال کا مجھے ہر سال سامنا کرنا پڑتا ہے جب میں اپنی ٹیکس ریٹرن جمع کراتا ہوں۔ میری آمدن میں ایک پیسہ ایسا شامل نہیں جس پر ٹیکس ادا نہ کیا گیا ہو۔ میرے اکاؤنٹ میں جو پیسہ آتا ہے‘ اس کا ٹیکس پہلے ہی کٹ چکا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود جب سال کے آخر میں‘ میں اپنی ریٹرن جمع کراتا ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میری مجموعی آمدن کے حساب سے مجھے اتنا ٹیکس مزید ادا کرنا ہے۔ وہی دکان کے بل کی طرح۔ جب ساری آمدن پر ٹیکس دیا جا چکا تو پھر مزید ٹیکس کیوں؟
اصولاً جب میں اپنی آمدن پر ایک بار ٹیکس ادا کر چکا تو پھر مجھ سے مزید ٹیکس نہیں لینا چاہیے۔ ایسا لیکن ہوتا نہیں۔ میں قدم قدم پر ٹیکس دیتا ہوں اور یہ تمام ٹیکس میرے منتخب نمائندے مجھ پر عائد کرتے ہیں۔ ہر حکومت کھلم کھلا دھوکہ دیتی ہے کہ نئے ٹیکس سے عوام پر اثر نہیں پڑے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر ٹیکس کا اثر عوام ہی پر پڑتا ہے۔ جس سٹور پر حکومت نے ٹیکس عائد کیا‘ اس نے پچیس سو روپے کی صورت میں‘ وہ ٹیکس مجھ سے‘ ایک عام صارف سے وصول کیا۔ کچھ پیسے ممکن ہے اس نے مزید دیے ہوں لیکن اس کا بڑا حصہ مجھ سے لیا گیا۔
ہر حکومت یہ سوچتی ہے کہ سرکاری آمدن بڑھانے کے لیے کس طرح زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کیا جائے۔ اس لیے اسے بطور کارکردگی پیش کیا جاتا ہے کہ ہم نے پچھلے سال کی نسبت‘ اس سال زیادہ ٹیکس جمع کیا۔ گویا اس نظام نے ظلم کو کارنامہ بنا دیا۔ اب عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی آمدن سکڑ رہی ہے اور اس کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ اس ملک کے عوام نے چونکہ ظلم کے ساتھ بقائے باہمی کا معاہدہ کر لیا ہے‘ اس لیے آمدن اور اخراجات کے فرق پر ان کی سوچ کا زاویہ ہی بدل دیا ہے۔ اب عام آدمی اس پر احتجاج کے بارے میں نہیں سوچتاکہ اس پر لاتعداد ٹیکس کیوں عائد کیے جا رہے ہیں۔ وہ اگر سوچتا ہے تو یہ کہ اس فرق کو کس طرح پورا کرے۔ قرض سے‘ آمدن میں اضافے سے یا ٹیکس کی چوری سے؟
کیا ہمارے پاس اس کا کوئی متبادل موجود ہے؟ اس ملک کے اہلِ علم کو اسی سوال کا جواب تلاش کرنا ہے۔ اسلام کے نقطہ نظر سے‘ ہماری تفہیم کے مطابق‘ ریاست زکوٰۃ اور عشر کے علاوہ بزور کوئی ٹیکس نہیں لے سکتی۔ کسی مشکل مرحلے پر عوام سے درخواست کر سکتی ہے۔ سود کی طرح یہ بے شمار ٹیکس‘ استحصال کی ایک صورت ہے۔ سود کے خلاف تو یہاں آواز اٹھائی جاتی ہے جو مبارک ہے لیکن ٹیکسوں کا یہ نظام‘ ہمارے اہلِ مذہب میں کبھی زیرِ بحث نہیں آتا۔
ہر حکومت ٹیکس میں اضافے کی تدبیر سوچتی ہے۔ ایسا آدمی ڈھونڈ کر ایف بی آر کا سربراہ چنا جاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی ضمانت دے۔ اصل ضرورت ٹیکس کے اس نظام میں اصلاح کی ہے۔ ایسا نظام جو امرا سے ٹیکس وصول کرے اور محروموں پر خرچ کرے۔ موجودہ نظام تو سارا بوجھ کم آمدن اور محروم طبقات کو منتقل کر دیتا ہے۔ زکوٰۃ اسی کا نام ہے کہ صاحبانِ نصاب سے لے کر سماج پر خرچ کیا جائے۔
بعض لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ زکوٰۃ سے اتنی رقم نہیں مل سکتی جو جدید ریاست کا نظام چلانے کے لیے کفایت کرتی ہو۔ اہلِ علم نے بتایا ہے کہ اگر زکوٰۃ اور عشر کو قرآن مجید اور رسالت مآبﷺ کی سنت کی روشنی میں اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تویہ اعتراض پیدا نہیں ہوتا۔ ٹیکس سے زکوٰۃ کی طرف سفر تدریجاً ہو گا لیکن کوئی سوچنا تو شروع کرے۔ اس کے بغیر ریاست مدینہ کا کوئی تصور امرِ واقعہ نہیں بن سکتا۔ جس طرح حکومت نے بیوروکریسی کے نظام میں اصلاحات کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی‘ اسی طرح کی ایک کمیٹی بننی چاہیے کہ ٹیکسیشن کے موجود نظام کا متبادل کیا ہو؟
لوگ سیدنا علیؓ کا یہ قول اکثر دہراتے ہیں کہ کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے‘ ظلم کی نہیں۔ ٹیکس کا نظام ظالمانہ ہے۔ اس کے ساتھ بھی حکومتیں قائم نہیں رہتیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ خوئے غلامی ہماری نفسیات میں اس طرح داخل ہے کہ اس نے احتجاج کی صلاحیت ہی چھین لی ہے۔ اس لیے اب حکومتوں کے لیے کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ آج اگر ایک ہزار روپے ٹیکس کے ساتھ‘ حکومت دو جوتوں کا بھی اضافہ کر دے تو عوام بخوشی ‘ادا‘ کر دیں گے۔
بشکریہ دنیا