یہ فتح تو ہے مگر کس کی؟

نتائج اخذکرنے میں اکابرینِ ملت و حکومت نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا۔اسلام اور پاکستان کی جیت ہوئی یا نہیں‘اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ معرکہ کالعدم(تادمِ تحریر) تحریکِ لبیک کی جیت پر منتج ہوا۔ایک تاریخی فتح۔

یہ جماعت اب کالعدم نہیں رہے گی۔ایک سیاسی جماعت کے طور پر‘اسی منشور کے ساتھ آزادانہ کام کرے گی۔کسی کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں ہو گا۔سب گرفتار رہا ہو جائیں گے۔رہا پولیس والوں کا خون تو اس کے بارے میں فیض صاحب برسوں پہلے فیصلہ سناگئے ہیں؎
نہ مدعی نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا

املاک کا ضیاع ہوااور کاروباری نقصان بھی۔ذمہ دارانہ صحافت کا تقاضا مگر یہ ہے کہ ان کا ذکر نہ کیا جائے۔اگر یہ تحریکِ لبیک کی جیت نہیں ہے تو پھر جیت کس چڑیا کا نام ہے؟

تحریکِ لبیک والے خوش قسمت ہیں کہ انہیں مفتی صاحب جیسا وکیل میسر آیا۔ دھرنے والوں کو ریاست سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لے دیا اور خدمتِ دین کا پروانہ الگ۔ ریاست کو مگر کیا ملا؟ عوام کو کیا ملا؟ یہ پاکستان کی جیت کیسے ہے؟اسے اسلام کی فتح کیسے کہا جا سکتا ہے؟

ان سوالات کے جواب میرے پاس نہیں۔یا یوں کہیے کہ میرے پاس وہ بصیرت ہے نہ وہ نظر ہے جو اکابرینِ ملت و ریاست کو عطا ہوئی ہے۔ممکن ہے اس میں اسلام اورامتِ مسلمہ کی فتح مضمر ہو اور مجھ کوتاہ نظر کی رسائی وہاں تک نہ ہو۔میں تو خیر کسی شمار میں نہیں‘یہ مغالطہ مولانامودودی کو بھی ہو گیا تھا‘جب تحریکِ خلافت برپا ہوئی تھی۔بر صغیر میں چاروں طرف غوغا تھا کہ ہمیں احیائے اسلام و ملت کا چیلنج درپیش ہے اور یہ تحریک اسی مقصد کے لیے اٹھی ہے۔مولانامودودی اُس وقت سترہ اٹھارہ سال کے نوجوان تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ جس خلافت کی طبعی عمر پوری ہو چکی اور خود ترک جس کی قبا چاک کرنے کو ہیں‘برصغیر کے مسلمان اسے کیسے بچالیں گے؟پھر وہ سوچتے تھے کہ جو بات میری سمجھ میں آرہی ہے‘کیا مولانا محمد علی جوہر جیسے اکابر کی سمجھ میں نہیں آرہی؟

مولانا نے اپنے اس مخمصے کو اپنی ایک تقریر میں بیان کیاہے جو ”جماعت اسلامی کے 29 سال‘‘کے عنوان سے شائع ہوچکی۔میں بھی آج اسی مخمصے میں مبتلا ہوں کہ اس معاہدے میں اسلام اور پاکستان کی فتح کہاں ہے ؟بلکہ سچ یہ ہے کہ مجھے اس کے برعکس دکھائی دے رہا ہے۔لیکن پھر سوچتا ہوں کہ جو بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی‘ کیا مذہب اور ریاست کی ایسی مقتدر ہستیوں کو بھی سمجھ نہیں آئی؟

میری سمجھ میں تویہ آرہا ہے کہ ‘عشق کی اک جست نے طے کر دیاقصہ تمام۔تحریکِ لبیک نے بارہ دنوں میں ریاست سے یہ منوالیا ہے کہ وہ ایک جائز سیاسی قوت ہے۔ دھرنے کے شرکاپر کوئی مقدمہ نہیں ہوگا۔ان کی قیادت رہا ہوگی۔یوں ان کے لیے اس دھرنے نے مستقبل کے وسیع امکانات پیدا کرد یے ہیں۔محترم مفتی صاحب نے مشترکہ پریس کانفرنس میں تو یہی کہا کہ یہ کسی کی جیت یا ہار نہیں لیکن رات دھرنے کے شرکا کو انہوں نے خوش خبری سنائی کہ یہ اُن کی ایک بڑی فتح ہے جس کا انہیں اس وقت پوری طرح اندازہ نہیں۔انہوں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں قرآن مجید کی جس سورہ کی تلاوت فرمائی‘وہ بھی ایک بڑی فتح کی بشارت ہے۔

پھر مفتی صاحب نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت کی طرف سے جو لوگ شریکِ مشاورت ہوئے‘وہ بھی ان کا انتخاب تھے۔انہوں نے ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا جو اس سے پہلے اس کام کے لیے چنے گئے تھے۔بلحاظ عہدہ یہ کام تو وزیر داخلہ اور وزیر مذہبی امور کا تھا لیکن تحریکِ لبیک ان کے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ نہیں تھی۔ایک ثالث‘ بشیر فاروقی صاحب نے یہ بھی بتا دیا کہ معاہدے کروانے میں ‘ہزار فیصد‘حصہ کس کا تھا؟اس کے بعد حکومت کے حصے میں کیاآیا ہے‘یہ وزیر داخلہ کے منصب کا کوئی آدمی ہی بتاسکتا ہے۔میرے جیسا عامی کیا جانے امورِ جہاں بانی۔

ایک بات البتہ یہ عامی جانتا ہے‘ وہ بھی اس کی اپنی نہیں ہے‘اس نے ایک جلیل القدر صاحب ِ علم سے سن رکھی ہے۔مولانا مودودی ہی نے کہا تھا کہ غلطی کبھی بانجھ نہیں ہو تی۔ریاست جب انتہا پسندانہ مذہبی افکار کی حامل جماعتوں کو قومی سیاسی جماعت کے طور پرقبول کرے گی تو یہ دراصل ان افکارپر ریاست کی طرف سے مہرِ تصدیق ثبت کرنا ہوگا۔کل اگر کوئی اور جماعت ایسے ہی خیالات کے ساتھ سیاسی کردار ادا کرنے پر آمادہ ہو تو کیا ریاست اسے بھی یہ موقع دے گی؟ کیا ملک میں اس باب میں کوئی قانون موجود نہیں؟

پھر یہ بات بھی میرے لیے قابلِ فہم نہیں کہ ایک سیاسی جماعت کو مستقبل میں دھرنے یا لانگ مارچ سے روک دیا جائے گا۔یہ کیسے ممکن ہو گا؟جب ہم کسی کو ایک سیاسی جماعت مان لیتے ہیں تو اس کے بعد اسے وہ تمام حقوق حاصل ہو جائیں گے جو دوسری جماعتوں کو دیے گئے ہیں۔اگر نون لیگ یا جمعیت علمائے اسلام لانگ مارچ کر سکتے ہیں تو تحریکِ لبیک کیوں نہیں؟جو معاہدہ بنیادی انسانی حقوق اور قانون کے خلاف ہو‘وہ بدیہی طور پر خلافِ قانون ہوتا ہے۔لہٰذااب تحریکِ لبیک کو کسی سیاسی سرگرمی سے نہیں روکا جا سکتا جو دوسری جماعتوں کے لیے روا ہے۔

ایک غلطی کئی غلطیوں کو جنم دے رہی ہے۔آپ سمجھ رہے ہیں کہ بحران ٹل گیا‘مجھے لگ رہا ہے کہ گمبھیر ہو گیا۔انتہا پسند جماعتوں کو سندِ جواز عطا کرنے کا مطلب ان افکار کو ریاستی سطح پر قبول کر نا ہے۔اب وہ مذہبی جماعتیں بھی یہی راستہ اپنائیں گی جو سیاسی اور جمہوری ہیں۔جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے تحریکِ لبیک کو پورے تعاون کا یقین دلایا۔یہ بات باعثِ اطمینان تھی کہ وہ جمہوری جد وجہد کر رہی تھیں اور ان کا ایجنڈا بھی دوسرا تھا۔اب صورتِ حال تبدیل ہوگی۔کل ہی جماعت اسلامی کا وفد غازی علم دین کے مزار پر بطور خاص بھیجا گیا ہے۔میرے علم کی حد تک یہ پہلی بار ہوا ہے۔اس میں آنکھوں والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔

تحریکِ لبیک کی قیادت کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے ہر قدم آگے کی طرف بڑھایا ہے۔انہوں نے اپنے وجود کو منوا لیا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ قوتِ بازو سے منوایا ہے۔مجھے خوف اس بات کا ہے کہ قوتِ بازو سے اپنا وجود منوانے کا یہ رواج اگر چل نکلا توپھر صرف قوت ہی فیصلہ کن رہ جائے گی۔علم ِسیاست یہ کہتا ہے اور ہماری فقہی روایت بھی کہ طاقت کے استعمال پر صرف ریاست کی اجارہ داری ہوتی ہے اور وہ بھی قانون کے تابع۔ہماری ریاست نے قوت کے استعمال پرغیر ریاستی حق بھی تسلیم کر لیا۔غلطی اسی طرح انڈے بچے دیتی ہے۔

اگر آپ یہ کالم پڑھتے پڑھتے یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو بتائیے کہ کیا فی الواقع یہ معاہدہ کسی کی جیت نہیں ہے؟ہمارے اکابرینِ ریاست و ملت نے تجاہلِ عارفانہ سے کام نہیں لیا؟

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے