ریاست تو ہے مگر۔۔؟

مذاکرات کیسے اور کس کے درمیان ہورہے ہیں،ملک کا وزیر داخلہ اس معاملے سے اپنی لاعلمی کاسرِ عام اعلان کر رہا ہے۔یہ ’اعلان‘ اپنے دامن میں ایک جہانِ معانی سمیٹے ہوئے ہے۔

بحران وہ پیمانہ ہے جو بتاتا ہے کہ کسی قوم کے پاس مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کتنی ہے؟گورننس، اجتماعی دانش، رجالِ کار،ریاستی ادارے،سماجی قوت۔۔۔بحران میں یہ سب ایک ساتھ بروئے کارآتے ہیں۔ہماری ہی نہیں، دنیا کی تاریخ مثالوں سے بھری ہے کہ قوموں پر سخت وقت آتے ہیں اور وہ اجتماعی قوت کے زور پر ان سے نکل جاتے ہیں۔ یہ قوت، قوتِ خیال بھی ہے اور قوتِ کار بھی۔

معاصر دنیا میں ایران ہے جسے انقلاب کے بعد طویل جنگ لڑنا پڑی مگراس نے ا جتماعی قوت سے، خود کومکمل شکست سے محفوظ رکھا۔میں انقلابی قیادت کی فکر اور حکمتِ عملی سے خود کو متفق نہیں پاتا مگر بطور امرِواقعہ اس بات کا انکار محال ہے کہ ایک قیادت کے زیرِ سایہ علما، دانش مند،میڈیا،سیاست دان یک زبان رہے اور انہوں نے ایسے بحرانوں میں زندگی کا ثبوت دیاجو جان لیوا ہو سکتے تھے۔ملک بکھرا نہ مزاحمت ہی میں کوئی کمی آئی۔

برصغیر میں،انگریزوں کی آمد کے بعد سے،مسلمانوں کی تاریخ یک سوئی سے خالی ہے۔انتشارِ فکر نے انہیں گھیرے رکھا اور اہلِ اسلام نے ابوالکلام آزادو علامہ اقبال ہی نہیں، قائداعظم اور مولانا مودودی جیسوں کوبھی گنوادیا۔مولانا آزاد امام الہند نہ بن سکے کہ خود علما کے طبقے نے انہیں قبول نہ کیا۔علامہ اقبال کو عالم ماننے سے انکار کیا گیا اور لوگ آج تک اس پر قائم ہیں۔قائداعظم کی پشت پر اگر مسلمان یک سو ہوجاتے توان کا حسنِ کردار یہ صلاحیت رکھتا تھا کہ صحراکو گلستاں کردے۔حالات اور مسلمانوں کاردِ عمل د یکھتے ہوئے،ابوالکلام نے اس سوچ اورحکمتِ عملی سے رجوع کیاجس میں وہ مسلمانوں کا تہذیبی اور سیاسی احیا دیکھ رہے تھے۔قائداعظم نے بھی سماجی حالات کے نتیجے میں پاکستان کے متبادل کی طرف رجوع کیا،ورنہ وہ بھی کچھ اور سوچ رہے تھے۔یہاں کسی فرد کو مانا گیا نہ کسی فکر کو۔یہی انتشارِ خیال ہمیں ورثے میں ملا جب پاکستان بنا۔

قائد اعظم اور علامہ اقبال متفق تھے کہ اسلام میں مذہبی طبقے کی حکومت کا کوئی تصور نہیں۔مولانا مودودی کی رائے بھی یہی تھی۔سب کے نزدیک علما یقیناً شریکِ مشاورت ہوتے کہ دین میں بیان کی گئی ہدایت تک رسائی کے لیے دین کا علم رکھنے والوں ہی کی طرف رجوع کیا جا تا ہے۔یہ علم مگران کے نزدیک کسی مدرسے کا سند کا قیدی نہیں ہے۔یہ مدرسے میں بھی ہو سکتا ہے اور اس کے باہر بھی۔اقبال کی نظریں اگر دیوبند کے تلمیذ و استاذانور شاہ کاشمیری کی طرف اٹھتی تھیں تو نوجوان ابو الا علیٰ کی طرف بھی جواقبال ہی کے الفاظ میں آبلہ مسجد نہ تھے۔

علما کے سیاسی کردار کے معاملے میں اقبال کی اس بات کو کسی نے نہیں مانا اور ہمارے ہاں ایک خاص مذہبی طبقے کو اقتدار تک پہنچانے کی جد وجہد میں توانائیاں برباد کی جاتی رہیں۔یہاں تک کہ بظاہر سیکولر اور روشن خیال لوگوں نے بھی مذہب پر اس طبقے کی بالا دستی کو زبانِ حال سے قبول کر لیا۔آج پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اورریاست کے نزدیک اسلام کے باب میں اسی طبقے کا فرمایاہی مستند ہے۔ یہاں تک کہ ریاست کومدرسہ ومنبر کی سوچ کے برخلاف کسی بیانیے کی ضرورت پیش آتی ہے تو تائید کندگان یہیں سے لا تی ہے۔

یہ انتشارِ فکر مسلسل ہمارے تعاقب میں ہے۔تحریکِ لبیک کے معاملے میں ریاست و حکومت اور معاشرتی طبقات کا رویہ اس کا تازہ ترین مظہر ہے۔حکومت کے ایوانوں میں ایک حل پر اتفاق ہوا۔اسے سرِعام بیان کیا گیا۔چند دن معلوم ہوا کہ ریاست کی نمائندگی حکومت نہیں کوئی اور کر رہا ہے۔ریاست کے حقیقی وارثوں نے اسی آزمودہ فارمولے کا اطلاق کرتے ہوئے،معاملے کی باگ مذہبی طبقے کو تھما دی اور یوں اپنے تئیں بحران کو ٹال دیا۔مشرف صاحب نے بھی یہی کیا تھا،سب یہی کرتے آئے ہیں۔اس پر میڈیا کی تائیدو تحسین کے بھی آرزو مند ہیں کہ وہ اس بصیرت کی داد دے۔

محترم مفتی صاحب وزرا کو کذب بیانی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں لیکن ساتھ ہی، ان کا کہناہے کہ وہ فرانسیسی سفیر کے معاملے میں اپنے موقف سے دست بردار نہیں ہوئے۔وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ سعد رضوی صاحب، اس وقت تک سفیر کے معاملے پر بضد تھے جب تک وہ مذاکرات کا حصہ تھے۔اب ’وہ نہیں جانتے کہ کون کس کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے‘۔وہ تو بس اتنا جانتے ہیں کہ عمران خان پانچ سال پورا کریں گے۔ اب جملوں میں باہمی ربط کیا ہے،اس کو وہی سمجھے جو نظم ِکلام کو سمجھتا ہے۔عام آدمی تو اسے انتشارِ فکر ہی قرار دے گا۔رہا کذب کا معاملہ تواس کا انتساب کسی عالم کے نام ہو یا کسی وزیر کے نام،ایک قومی المیے سے کم نہیں۔

کسی قوم میں یک سوئی دوطرح سے پیدا ہوتی ہے۔ایک وحدتِ فکرسے اوردوسرے وحدتِ عمل سے۔ فکری وحدت سے مراد ایک نظامِ اقدار پر اتفاق ہے۔اس کی مثال یورپ ہے جس نے چند اقدار پر وحدتِ فکر پیدا کر لی۔جیسے سیکولر ازم یا جیسے جمہوریت۔یہ وحدت لازم نہیں کہ جزیات تک کو محیط ہو۔وحدتِ عمل سے مراد ایک ایسے نظامِ کار پر اتفاق ہے جس میں تقسیمِ کار کے اصول کو مانا گیا اورریاست کی قوت کو مختلف اداروں میں تقسیم کر دیا گیا۔جیسے عدالت قضیوں کا فیصلہ کرتی ہے۔پارلیمان قانون سازی کرتی ہے۔سماج کی قوت اس وحدتِ فکر و عمل کی توثیق کرتی ہے اور اس نظام کو قابلِ عمل بناتی ہے۔ان معاشروں میں اگر کوئی اختلاف پیدا ہوتا ہے تو اسی نظام اور فکری وحدت کو بروئے کار لاتے ہوئے،اسے حل کر لیا جاتا ہے۔امریکہ نے اسی نظام کی قوت سے چار سال تک صدرٹرمپ کا بوجھ اٹھائے رکھا اور ملک کو کسی جان لیواانتشار سے بچایا۔

ہمارا معاملہ اس سے بالکل مختلف رہا۔انتشارِ فکر کا یہ حال ہے ہم آج تک مذہب اور مذہبی طبقے کے سماجی وسیاسی کردار میں فرق کو نہیں سمجھ سکے۔عملاً ہم یہ نہیں طے کر سکے کہ قانون سازی کہاں ہونی ہے اورمقدمات کا فیصلہ کہاں؟تحریکِ لبیک سے معاہدہ کرنا ہے تو یہ کام کون کرے گا؟عقیل ڈیڈی اس کا حصہ ہیں تو کیوں؟وزیر داخلہ کے بجائے بشیر فاروقی صاحب کے پاس معاہدہ محفوظ ہے تو کیوں؟پھر یہ معاہدہ ہے کیا،وزرا تک کو اس کی بھنک نہیں۔اس پربصیرت کی تحسین کا مطالبہ۔ کیا نظامِ ریاست اس طرح چلتاہے؟

اس ملک میں سماجی سطح پر وحدتِ فکر اورریاستی سطح پر وحدتِ عمل کی ضرورت ہے۔یہ وحدتِ عمل آئین طے کرتا ہے کہ کس نے کون سا کام کر نا ہے اور ان کے مابین ربط کیسے قائم ہو گا۔سماج کی فکری پراگندگی ظاہر وباہر ہے۔ریاست نے بھی تحریکِ لبیک کے معاملے میں اپنے نظامِ عمل کی حقیقت کو واضح کردیا ہے۔ وحدتِ فکر و عمل سرِ دست اس لیے محال دکھائی دیتی ہے کہ ہم پرابھی تک سماج اور ریاست کا فرق واضح نہیں۔ یہ انتشارِ فکر و عمل جب تک باقی ہے،ہر بحران ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا رہے گا۔ہم ہر موقع پر ایک عارضی حل تلاش کریں گے،یہ سمجھے بغیر کہ ایسا ہر حل سماج اور ریاست دونوں کو کمزور سے کمزور تر کرتا جا رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے