وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزرا، آرمی چیف اور ان کیساتھ بیٹھی سول وملٹری انٹیلی جینس سربراہان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا،’’بتائیے پنجاب میں جاری کالعدم جماعت کے احتجاج سے کیسے نمٹا جائے؟‘‘وہ اپنی رہائشگاہ بنی گالہ میں اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ حکومتی اجلاسوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جب چیف ایگزیکٹو اجلاس کے شرکا سے رائے مانگے تو سب سے سینئر سب سے پہلے بات کرتا ہے اور پھر عہدے کے لحاظ سے سب اپنی اپنی باری پر رائے دیتے ہیں۔ سب سے سینئر نے معاملے کو بات چیت کے ذریعے افہام و تفہیم سے حل کرنے کی رائے دی، باقی شرکا نے بھی باری باری وہی موقف اختیار کیا۔ اقتدار کے ایوانوں میں منعقدہ اجلاسوں میں یہی ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ طاقتور کی کہی ہوئی بات سے عام طور پر اختلاف کیا ہی نہیں جاتا۔اجلاس کے تمام شرکا ایک ہی پیج پر تھے ۔ سب کی رائے آنے کے بعد عمران خان ایک بار پھر بولے، یہ کالعدم جماعت ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو پورے معاشرے کیلئے نقصان دہ ہے ہمیں دہشت گردوں سے بات نہیں کرنا، سب جائیے اور یہی موقف اختیار کیجئے۔ ایک واضع اور مختلف موقف اختیار کیا گیا تو اس بار اجلاس کے شرکا نے وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ملادی۔
تاہم فواد چوہدری شاید وہ واحد وزیر تھےجو وزیراعظم کی اس بات کے دل وجان سے حامی تھے۔ اس اجلاس کے تسلسل میں اکتوبر کے آخری ہفتے میں کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا بھی ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کے دوران ایک موقع پر تو وزیردفاع پرویزخٹک نے وزیراعظم کو مشورہ دے ڈالا کہ وہ کالعدم جماعت کے خلاف کارروائی کی بجائے انہیں پیسے دیں۔ ایک سرکاری افسر نے اپنے وزیردفاع کی حمایت بھی کی تو وزیراعظم بولے وہ کہاں سے اور کیوں پیسے دیں؟ وزیراعظم کا خیال تھا کہ عشق رسولؐ کی راہ میں جتنا کام انہوں نے کیا ہے وہ شاید ہی کسی نے کیا ہو مگر عشق رسولؐ کے نام پر حکومتوں کو ڈکٹیٹ کرنا اورپولیس والوں کو شہید کرنا عشق رسولؐ نہیں ریاست کی بربادی ہے۔ خیر بات آئی گئی ہوگئی لیکن یہ واضح ہوگیا کہ حکومت کے اندر ہی سوچ میں بڑا فرق ہے۔
اکتوبر 2021 میں ہوئے ان دو اجلاسوں سے ذرا پہلے اپریل 2021 کے وسط میں مرکزنے تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا تو تمام حکومتی اداروں نے اس فیصلے پر لبیک کہا۔ اس وقت کے پنجاب کے چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس اور ISI کے سیکٹر کمانڈر میں سے اس فیصلے پرعملدرآمد کے لئے صرف ایک شخص نے معاونت کی اور وہ تھا آئی جی پنجاب پولیس۔ 12اپریل 2021کو پنجاب پولیس نے کارروائی کے آغاز میں اس تنظیم کے سربراہ کو گرفتار کیا تو پورے پنجاب میں 105مقامات احتجاج کے باعث بند کردئیے گئے لیکن پولیس کی کارروائی کے باعث 48 گھنٹوں میں لیاقت باغ راولپنڈی سمیت 104 مقامات کھول دئیے گئے تاہم لاہور میں مسجد رحمت العالمین پر احتجاج چار روز تک جاری رہا جس پر بعد میں قابو پالیا گیا ۔اس وقت احتجاج کے دوران پولیس کے 4جوان شہید ہوئے متعدد زخمی بھی ہوئِے۔ آئی جی کی طرف سے زخمیوں اور شہدا کے لواحقین کی مالی اور اخلاقی ہمت افزائی کے ساتھ پنجاب پولیس کی طرف سے تحریک لبیک کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قراردینے کےلئے مرکز کو خط لکھا گیا جس نے فوری کارروائی کی اور یہ تنظیم دہشت گرد قراردے دی گئی ۔
پنجاب پولیس نے اس جماعت کو سیاسی اعتبار سے بھی کالعدم قرار دینے کے لئے خصوصی مراسلہ لکھا مگر حکومت تذبذب کا شکارتھی۔ اس وقت آئی جی پولیس انعام غنی کی اس سفارش کو نظرانداز کیا گیا تو اس جماعت نے آزاد کشمیرکے عام انتخابات سمیت دیگر انتخابی معرکوں میں بھی حصہ لیا اور ٹھیک 6 ماہ بعد اکتوبر2021میں یہی جماعت ایک بار پھر سڑکوں پر آگئی۔ اس عرصے میں پنجاب میں انتظامیہ تبدیل ہوئی تو مرکز میں بھی بعض معاملات میں ایک پیج پھٹ کر دو ہوگئے۔نئے آئی جی کے طور پر رائو سردار کے ذمے سخت کام تھا۔ وہ اچھی شہرت کے حامل ہیں مگر شایداس باروہ پرفارم نہ کرسکے یا پھران کے ہاتھ باندھ دئیے گئے۔ وفاقی سیکرٹری داخلہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے سیاسی جماعت کے طور پر اس تنظیم کو کالعدم قراردینے کے معاملے کو نظرانداز کرنے میں اہم کردار ادا کیا اس بار بھی ان کا کردار یہی تھا۔ یہی حال پنجاب کے چیف سیکریٹری اور ہوم سیکریٹری کا تھا۔
انہوں نے اصل ظلم تو اس وقت کیا جب پنجاب میں رینجرزطلب کرکے وزارت داخلہ کے ساتھ طے کرلیا کہ صوبے میں اب پولیس رینجرز کی کمانڈ میں کام کرئے گی یہ کرتے وقت یہ تک نہ سوچا گیا کہ وسائل کی کمی کے باوجود اسی پولیس نے 6 ماہ پہلے اسی جن کو بوتل میں بند کیا تھا۔ ادھر وزیراعظم عمران خان کو بتایا گیا کہ رینجرز کو تو صرف گولی چلانا آتی ہے اور اگر چناب کے پل کی دوسری طرف کالعدم جماعت کے مظاہرین پر گولی چلائی گئی تو اس سے ایک منفی تاثر جائے گا جس کا اثرملک کے سیکورٹی اداروں پر ہوگا اوردشمن اس صورتحال سے فائدہ اٹھائے گا۔دوسری طرف پنجاب میں احتجاج کے باعث جی ٹی روڈ کم و بیش 10دن سے مسلسل بند تھی اورپہلے ہی مہنگائی سےتنگ عوام مظاہرین کے ساتھ مل رہے تھے۔ اس احتجاج کے دوارن پولیس کے 7جوان شہید ہوگئے حکومت پردبائو اوربڑھا مگرکوئی حکومتی عہدیدار پولیس شہدا کے گھر تک نہ گیا۔
اس دوران اچانک مفتی منیب متحرک ہوئے وہ کراچی کےایک بزنس مین کے ذریعے آرمی چیف کے پاس پہنچے اور کالعدم تنظیم سے مذاکرات کے ضامن بن کر حکومت کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ اس تنظیم کی کالعدم حیثیت ختم کرنے سمیت تمام مقدمات واپس لے گی اور اس کے کارکنوں کو رہا کرئے گی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ مفتی منیب وزیراعظم سے ملے نہ انہیں ملاقات کی دعوت دی گئی۔ مگر مذاکرات اور خفیہ معاہدے کے بعد ریاست نے ان کی ساری باتیں مان کر ہتھیار ڈال دئیے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ ریاست کی طرف سے انتہا پسند کالعدم جماعتوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی سوچ سے جڑا ہوا ہے۔ ماضی میں ایسی جماعتیں خارجہ پالیسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کی جاتی تھیں تو اب انہیں سیاسی منظرنامے تبدیل کرنے کےلئے میدان میں اتارا جاتا ہے جس کا اصل نقصان جمہوریت اور سیاست کو ہوگا۔ افسوس مگر یہ کہ ریاست کے ہتھیار ڈالنے کے اس عمل میں سیاستدانوں کی اکثریت خاموش تماشائی کے سوا کچھ نہیں۔
بشکریہ جنگ