ہمارا مسلک ہی حق ہے.

وہ لوگ دکھنے میں سارے ایک جیسے تھے۔ رنگ، نسل اور جسامت بھی ایک جیسی، زبان، ثقافت اور روایات بھی قدرے مشترک ۔ ان کےخوراک، رہائش، ضروریات اور اوقاتِ کار بھی مشترک تھے۔ ان کے مسائل بھی یکساں اور مواقع بھی کم و بیش یکساں۔ لیکن سارے لوگ مختلف طبقات میں بٹے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان باہمی تعلقات کچھ خوشگوار نہیں تھے۔ وہ ایک دوسرے سے کھل کر بات کرنے سے کتراتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور نہ ہی خوشی میں۔ لیکن ہاں وہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ مارکیٹ ہو یا کھیل کا میدان، سرکاری دفاتر ہوں یا تعلیمی ادارے، مسجد ہو یا گھر ہر جگہ سب سے گرما گرم بحث یہی ہوتی کہ کون غلط اور کون درست!!!

ہر گروہ کو گمان یہ تھا کہ وہ ہی اللہ تعالیٰ کے حضور چنیدہ گروہ ہے، تقدس اور اور پاکدامنی اسی کا ہی شیوہ ہے۔ ہر ایک اپنے آپ کو درست سمجھتا اور باقی سب کو سرے سے ہی غلط۔ دنیا و آخرت کی جملہ نعمتوں کا استحقاق صرف وہی لوگ رکھتے ہیں جو اس کے مکتب سے وابستہ ہوں، باقی سب کے لیے دنیا کی ’’ضلالت‘‘ اور آخرت کا ’’ابدی عذاب‘‘ !!!! ہر گروہ کے لیے اچھے انسان کا تصور اپنے طبقہ فکر سے باہر ناممکن ہو گیا تھا ۔ ہر ایک گروہ کو یہی زعم تھا کہ اللہ کا قرب، تقویٰ، زہد، نیکی اور انسانیت کا رشتہ صرف اسی مکتب میں مل سکتا ہے، باقی طبقات کو شیطان کا چیلہ، مادیت کا پرستار، گمراہ، باطل کا ٹولہ، انسانیت پر کالا داغ، غدار، سازشی، بکنے والا، منافق اور آستین کا سانپ۔۔۔۔۔۔ گستاخ، بے ادب ، غدار، ایجنٹ، خارجی، بدعتی، مرتد، فتنہ پرور، رجعت پسند، انتہاپسند، شدت پسند، کافر اور واجب القتل ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے الفاظ سے فضا صبح و شام معطر ہوتی!!! ۔

اس میدان کارزار میں زور کبھی حلق اور آوازوں پر آتا ہے تو کبھی آگے بڑھ کر ہاتھوں پر آتا ہے ۔ ایک دوسرے کے خلاف چیختے، چلاتے اور آوازیں کستے ۔ لاؤڈ سپیکرز ہوں یا اجتماعات ہوں، جلسے ہوں یا جلوس ، سب کی مشترکہ قدر شعلہ بیانی اور شعلہ انگیزی تھی۔ لڑتے جھگڑتے ایک دوسرے کو نوچ لیتے، زخموں سے نڈھال ہو جاتے۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یوں دن رات اسی’’ روحانی‘‘ مصروفیت میں گزر جاتی!!! ہر ایک خبط عظمت و تقدس میں مبتلا رہتا، تعمیر و ترقی کی فکر قریب سے بھی نہ گزرتی!!!
اب ہر طرف شکوک و شبہات، توہین و تحقیر، خوف و تشدد، تنزلی، گھٹن، منافرت ، تشدد ، موت اور کھنڈرات ہی رقصاں تھے!!!۔ اعتماد، احترام، امن، سلامتی، محبت ، تعاون، ترقی اور خوشحالی نے منہ موڑ لیا تھا۔

حالات حد سے زیادہ بگڑ گئے اور بے قابو ہونے لگے۔ ان حالات پر ہر طبقے میں کچھ افراد دل شکستہ تھے، روز روز کی لڑائی جھگڑوں پر رنجیدہ ، نقصانات پر غمزدہ اور فکرمند تھے۔ وہ روز کے ایسے دلسوز حالات سے نالاں تو تھے لیکن بے بس بھی !!! وہ تشدد ، تعصب اور منافرت کا راستہ روکنا چاہتے تھے اور پوری قوم کو باہمی احترام، اعتماد، تعاون اور ترقی کا راستہ پر لگانے چاہتے تو تھے لیکن کوئی نقطہ آغاز نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔۔

بالاخر ایک دن انہوں نے آپس میں مل کر ایک تدبیر سوجھی۔ انہوں نے سارے طبقات فکر کے کچھ مقتدر ذمہ داران کو ایک مکالماتی مجلس میں اکھٹا بلا لیا تاکہ معاملے کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔ حالات کے سیاسی، سماجی اور مذہبی اسباب کا جائزہ لے کر ان کا سماجی و عوامی حل پیش کیا جا سکے۔!!
آگے روداد آئندہ کالم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے