ہمیں اپنے فہم اسلام پر نظر ثانی کرنا ہو گی

داعش اور نام نہاد اسلامک سٹیٹ جیسے دہشتگرد گروہوں کی جانب سے کی جانے والی تباہی و بربادی پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ کافی نہیں۔ اسلام کا لبادہ اوڑھے ان گروہوں کی دہشت گردی پر میں ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے ساتھ اپنے غم و غصے کا اظہار کرتا ہوں۔ ہم مسلمانوں پر یہ خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم نہ صرف دنیا کو دہشت گردی اور وحشیانہ انتہا پسندی کے ہاتھوں درپیش تباہی و بربادی سے بچانے کے لئے اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ ہاتھ ملائیں بلکہ ہمیں اپنے عقیدے کے تشخص کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ بھی کرنا ہو گا۔
الفاظ اور نشانیوں کے ساتھ کسی بھی مخصوص شناخت کا دعویٰ کرنا آسان ہے مگر ان دعوؤں کی صداقت صرف اپنے افعال کو ان دعوؤں کے ساتھ پرکھنے سے ہی معلوم ہو سکتی ہے۔ ایمان کی اصل آزمائش صرف نعرے لگانے یا مخصوص لباس پہننے سے نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ان بنیادی اصولوں پر زندگی گزارنے میں ہے جن کا پرچار دنیا کے تمام اہم مذاہب کرتے ہیں۔ ان میں جان و مال کا تقدس اور تمام انسانوں کی عزت و احترام شامل ہیں۔

ہمیں دہشت گردوں کے پراپیگنڈہ کی کھل کر مذمت کرنی چاہئے۔ اور شرح صدر اور اعتماد کے ساتھ کثرت پسندانہ سوچ کو فروغ دینا چاہئے کیونکہ ہماری نسلی‘ قومی یا مذہبی شناخت سے قبل ہماری مشترکہ انسانیت آتی ہے جسے ہر اس موقع پر جھٹکا لگتا ہے جب کوئی وحشیانہ فعل سرانجام دیا جاتا ہے پیرس میں جان سے ہاتھ دھونے والے فرانسیسی شہری‘ ایک روز قبل بیروت میں مارے جانے والے لبنانی شیعہ مسلمان اور ہزاروں کی تعداد میں عراق میں انہیں دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے سنی مسلمان سب سے پہلے اہم انسان ہیں۔ ہماری تہذیب اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک ہم تمام انسانوں کی مشکلات اور مصائب کو ان کی نسلی یا مذہبی شناخت سے بڑھ کر ایک جیسے انداز میں نہیں دیکھتے اور ان پر ایک جیسا ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔
مسلمانوں کو ہر قسم کی سازشی تھیوریوں سے بھی بچنا اور انہیں مسترد کرنا چاہئے جو آج تک ہمیں ہمارے معاشرتی مسائل کا سامنا کرنے سے ہی روکتی رہی ہیں۔ اس کی بجائے ہمیں حقیقی سوالات کا سامنا کرنا چاہئے: کیا ہمارے معاشرے اپنے اندر موجود مطلق العنانیت‘ گھریلو تشدد‘ نوجوانوں کو نظرانداز کرنے اور متوازن تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہمہ گیر ہونے کی نیت رکھنے والے گروہوں کے لئے بھرتی کا میدان ثابت نہیں ہو رہے؟ کیا ہماری حقوق انسانی‘ آزادی اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں ناکامی ان لوگوں کے لئے مددگار ثابت نہیں ہوئی جو متبادل منصوبوں کے ساتھ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

پیرس میں ہونے والا تازہ سانحہ دینی علوم کے ماہرین اور عام مسلمانوں سبھی کے لئے ایک اور یاددہانی ہے کہ وہ دین کے نام پر کی جانے والی بربریت کو رد کریں۔ تاہم اس موقع پر صرف رد کر دینا اور مذمت کرنا کافی نہیں۔ مسلم ممالک میں دہشت گردوں کی بھرتی کو ملکی حکام‘ مذہبی قائدین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے مل کر روکنا ہو گا۔ ہمیں بحیثیت معاشرہ ان تمام عوامل کے خلاف جدوجہد کرنی ہو گی جو دہشت گردوں کی بھرتی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ حمایت یا اختلاف رائے کیلئے جمہوری طریقوں کا استعمال ہمیں خطرات سے دوچار نوجوانوں کی نشاندہی‘ تباہی سے بھرپور راستے اختیار کرنے سے بچاؤ اور خاندانوں کو مشاورت اور ہر دیگر ذرائع سے امداد فراہم کرنے کے لئے ضروری لائحہ عمل طے کرنے کے لئے معاشرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔ ہمیں ایسا مثبت حکومتی نظام قائم کرنا ہو گا جہاں مسلمان ایک میز پر بیٹھ کر دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی طے کر سکیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ سیکھنا ہو گا کہ جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے حمایت یا اختلاف رائے کا اظہار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ سکول کے نصاب میں بنیادی سطح پر جمہوری اقدار کی شمولیت نوجوان ذہنوں میں جمہوریت کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے بہت اہم ہے۔ ایسے سانحات کے بعد تاریخی طور پر سخت ردعمل سامنے آتا رہا ہے۔ مسلم کش اور مذہب کے خلاف جذبات کے ساتھ ساتھ حکومتوں کی جانب سے فوجی حل کے استعمال سے فائدے سے زیادہ نقصان ہی ہوا ہے۔ یورپ کے مسلمان امن و سکون کی خواہش رکھتے ہیں۔ فضا ناسازگار ہونے کے باوجود انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ وہ مقامی اور قومی حکومتوں کے ساتھ تعلق قائم رکھیں تاکہ ایسی پالیسیوں میں مدد ہو سکے جو ان کی کمیونٹی کو وسیع تر معاشرے میں شامل رکھے۔

ہم مسلمانوں کیلئے یہ بھی اہم ہے کہ ہم اپنے عہد کی ضروریات اور حالات اور مشترکہ تاریخی تجربات کی روشنی میں اسلام کے فہم اور عمل کا بھی تنقیدی جائزہ لیں۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم اپنی اسلامی روایات سے منہ موڑ لیں بلکہ ایک سمجھدارانہ سوچ رکھیں تاکہ ہم قرآن اور سنت کی حقیقی تعلیمات کی تصدیق اس طرح کر سکیں جیسی ہم سے پہلے مسلمان کرتے آئے تھے۔ ہمیں مستعدی کے ساتھ اپنے دینی مآخذ کی سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی جانے والی تشریح کو روکنا ہو گا جو بھٹکی ہوئی سوچ کیلئے اکسیر ثابت ہوتی رہی ہے۔ مسلمان مفکرین اور علماء کو کلیت پر مبنی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور قرون وسطیٰ کے فتوؤں پر نظرثانی کرنی ہو گی جو اس وقت دیئے گئے تھے جب مذہبی نسبت اکثر سیاسی نسبت بھی ہوا کرتی تھی۔ بنیادی عقائد کے حامل ہونے اور تنگ نظر ہونے میں فرق کیا جانا چاہئے۔ یہ نا صرف عین ممکن ہے بلکہ انتہائی ضروری بھی ہے کہ اسلامی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے اس اظہار رائے کی آزادی کی روح کو حیات نو بخشی جائے جس نے اسلام کو نشاطِ ثانیہ عطا کی تھی۔ صرف ایسے ماحول ہی میں مسلمان اس انتہا پسندی سے بہتر طور پر نبردآزما ہو سکتے ہیں۔
حالیہ واقعات کے تناظر میں تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آیا جن لوگوں نے ابتداء میں یہ نظریہ پیش کیا تھا انہوں نے ایسا صرف اپنی دوراندیشی سے کیا تھا یا پھر یہ ان کی خواہش کا شاخسانہ تھا۔ جو بات حتمی ہے وہ یہ کہ آج اس نظریے کی تجدید دہشت گرد نیٹ ورکس کیلئے بھرتی کی کوششوں میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔ میں یہ بات وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ تہذیبوں کے درمیان تصادم نہیں بلکہ انسانیت اور بربریت کے درمیان ٹکراؤ ہے۔ بحیثیت مسلمان شہری ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی زبوں حالی کے باوجود ہم مسئلے کا حل بننے کی کوشش کریں۔ اگر ہم دنیا بھر کے مسلمانوں کی زندگی اور شہری آزادی کا دفاع کرنا چاہتے ہیں اور تمام بنی نو انسان کیلئے ان کے عقیدے سے بالاتر ہو کر امن و سکون کے خواہاں ہیں تو ہمیں ہر سمت میں اس سفاک انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا ہو گا خواہ وہ سیاسی اور معاشی میدان ہو یا پھر معاشرتی اور مذہبی۔ اپنی زندگیوں سے بہترین مثالیں قائم کر کے‘ دینی مآخذ کی انتہاء پسندانہ تشریحات کو ختم کر کے‘ نوجوانوں پر ان کے اثرات سے باخبر رہ کر اور ابتدائی تعلیم میں جمہوری اقدار کو شامل کر کے ہی ہم تشدد‘ دہشت گردی اور کلیت پسندی کی سوچ کا مقابلہ کر سکتے ہیں جو ہمیں اس جانب لے جاتی ہے۔

بشکریہ نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے