جزیرہ عرب میں دین توحید کا غلبہ قائم ہونے کے بعد، حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بتایا کہ اس غلبے کو استحکام حاصل رہے گا اور آپ کی وفات کے بعد شرک کے دوبارہ عام ہو جانے کا کوئی فوری خطرہ درپیش نہیں ہوگا۔ یوں شیطان کی ساری کدوکاوش مسلمانوں کے مابین تفریق اور جنگ وجدال کی آگ بھڑکانے پر مرکوز ہوگی، اس لیے مسلمان اس سے خبردار رہیں۔
تاہم دیگر متعدد صحیح احادیث کے مطابق، آپ نے یہ اطلاع بھی دی کہ وقت گزرنے کے ساتھ جب امت میں اس دین کے ساتھ وابستگی مجموعی طور پر کمزور ہو جائے گی تو پرانی شرکیہ ثقافت بعض گروہوں میں دوبارہ لوٹ آئے گی۔ چنانچہ سنن ابی داود میں حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ میری امت کا ایک گروہ مشرکین میں شامل نہ ہو جائے اور کچھ گروہ بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں۔
دوسری حدیث متفق علیہ ہے اور حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے (جن کا اپنا تعلق قبیلہ دوس سے تھا)۔ اس کے مطابق آپ نے فرمایا کہ قیام قیامت سے پہلے، ایسا وقت آئے گا کہ قبیلہ دوس کی خواتین ذو الخلصہ کے اردگرد اپنے کولہے لہکائیں گی۔ (ذوالخلصہ اس بت کا نام تھا جسے قبیلہ دوس کے لوگ جاہلیت میں پوجتے اور اس کا طواف کرتے تھے۔)
ایک اور حدیث کی رو سے، شرک کی طرف اہل عرب کا یہ رجوع آخرکار مکمل طور پر غالب آ جائے گا۔ چنانچہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق آپ نے سیدہ عائشہ کو بتایا کہ ایک وقت آئے گا جب دوبارہ یہاں لات وعزی کی عبادت کی جانے لگے گی۔ سیدہ عائشہ حیران ہوئیں اور کہا کہ میرا گمان تو یہ تھا کہ اب توحید کا غلبہ ہمیشہ کے لیے قائم رہے گا۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ جب تک اللہ کو منظور ہوگا، یہ غلبہ قائم رہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو ہر صاحب ایمان کو موت دے دے گی۔ پھر وہی لوگ بچیں گے جن میں کوئی خیر باقی نہیں ہوگی اور وہ اپنے آباو اجداد کے دین کی طرف لوٹ جائیں گے۔
مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت میں بیت اللہ کا انجام بھی بتایا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بیت اللہ کی بے حرمتی اور پامالی کی ابتدا کوئی اور نہیں، بلکہ خود اس کے متولی یعنی عرب ہی کریں گے۔ اور جب وہ یہ کریں گے تو پھر تم عربوں کی ہلاکت کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ اور بیت اللہ کا آخری انجام اہل حبشہ کے ہاتھوں ہوگا جو اس پر حملہ آور ہو کر اس کا خزانہ لوٹ کر لے جائیں گے اور اس کو ہمیشہ کے لیے ویران کر دیں گے جس کے بعد یہ گھر کبھی آباد نہیں ہوگا۔
ان احادیث میں مذکور واقعات کا متعین زمانہ طے کرنا، ظاہر ہے، مشکل ہے۔ قرب قیامت کے دیگر واقعات مثلا خروج دجال اور خروج یاجوج وماجوج کے ساتھ ان کا زمانی تعلق طے کرنے کا معاملہ بھی یہی ہے۔ تاہم تاریخ کے عمومی مطالعے سے ان تبدیلیوں کی جو ایک ممکنہ ترتیب سمجھ میں آتی ہے، وہ کچھ یوں بنتی ہے:
۱۔ سب سے پہلے مرحلے پر جزیرہ عرب میں شرک اور اہل شرک کی موجودگی کے متعلق حساسیت کمزور ہوگی اور مشرکانہ ثقافتوں کے متعلق، مختلف اسباب سے، ایک ہمدردانہ رویہ پیدا ہو جائے گا۔
۲۔ اسلام نے مختلف قوموں میں جو ایک نئی تہذیبی شناخت پیدا کی ہے، اس کے ساتھ وابستگی گوناگوں تاریخی عوامل سے کمزور ہوگی اور یہ عمل آخرکار اہل عرب تک بھی پہنچ جائے گا۔ اس کے نتیجے میں مختلف قوموں میں قبل از اسلام کی تہذیبی شناخت کی طرف واپسی کا یا اس شناخت کو اسلام کی شناخت پر مقدم قرار دینے کا رجحان پیدا ہوگا (جیسے مثلا اہل مصر میں ’’ابناء الفراعنۃ’’ ہونے کا نعرہ اور ہندوستان میں اسلامی فتوحات کو مقامی تہذیب پر ایک ’’اجنبی’’ تہذیب کی جارحیت سمجھنے کا تصور وغیرہ)۔ یہی رجحان ابتداء بعض عرب گروہوں میں بھی سامنے آئے گا اور وہ قبل از اسلام کی مشرکانہ تہذیب کو اپنی شناخت کی بنیاد بنانے کو ترجیح دینے لگیں گے۔
۳۔ قدیم مشرکانہ شناخت کے احیاء کے ساتھ مختلف بت پرستانہ رسوم کا بھی احیاء ہوگا۔ مثلا مختلف قبائل اپنے پرانے بت خانے وغیرہ دوبارہ بنا لیں گے جہاں مشرکانہ تہذیب کی طرف رجوع بنیادی طور پر ثقافتی نوعیت کی سرگرمیوں کی صورت میں ہوگا۔
(ذو الخلصہ کے گرد عورتوں کے کولہے لہکانے کی تعبیر انھی ثقافتی اعمال مثلا رقص وغیرہ کی طرف مشیر ہے۔ عموما شارحین نے اس کو طواف کی تعبیر کہا ہے، لیکن حدیث میں خاص طور پر خواتین کا ذکر اور پھر ان کے کولہے لہکانے کی تعبیر طواف کے لیے زیادہ موزوں نہیں لگتی۔ اس کی زیادہ مناسبت رقص کے ساتھ بنتی ہے۔ واللہ اعلم)
۴۔ توحید کو تہذیبی شناخت قرار دینے کا موقف، تدریجا احیائے شرک کے اس موقف کے سامنے سکڑتا چلا جائے گا اور بعض گروہوں سے شروع ہونے والا رجحان انجام کار لات وعزی وغیرہ کی پوجا پر مبنی مشرکانہ ثقافت کے کامل احیاء پر منتج ہوگا۔ اہل توحید اس کشمکش میں کم ہوتے ہوتے آخر بالکل معدوم یا مغلوب ہو جائیں گے۔
۵۔ اسی عمل کے دوران میں کسی مرحلے پر یا اس کے مکمل ہو جانے کے بعد مرکز توحید کی حیثیت سے بیت اللہ کے انہدام کا واقعہ بھی رونما ہوگا اور یوں دین توحید دنیا میں اپنے پہلے اور آخری مرکز سے محروم ہو جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں ایک تہذیبی قوت کی حیثیت سے دنیا سے توحید ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد دنیا میں انفرادی طور پر تو کچھ نہ کچھ اہل ایمان بچ جائیں گے، لیکن ایک امت کے طور پر ان کا وجود نہیں ہوگا۔ ان میں سے جب آخری صاحب ایمان دنیا سے رخصت ہوگا تو قیامت کے برپا کرنے کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔
(حدیث میں اہل عرب کے ہاتھوں بیت اللہ کی حرمت کی پامالی کا جو ذکر ہے، اس کے متعلق بھی متعین طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ قرب قیامت کے کسی واقعے کی طرف اشارہ ہے یا سابقہ تاریخی مراحل پر ہونے والے مختلف واقعات کی طرف۔ یہ ماضی میں بھی مسلمانوں کے ہاتھوں مختلف مواقع پر ہو چکا ہے، اور ممکن ہے کہ آخری انہدام کے قریبی زمانے میں یہ عمل، توحید سے براءت اور شرک کی طرف رجوع کے اعلان کے طور پر، ایک بار پھر رونما ہو۔ واللہ اعلم)
ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم