بروقت کرونا کی ویکسین نہ لگواکر اپنی جان اور صحت کے ساتھ کھلواڑ کیا

گلگت سے تعلق رکھنے والی سیاسی کارکن فہمیدہ برچہ کہتی ہیں کہ میں نے بروقت کرونا کی ویکسین نہ لگواکر اپنی جان اور صحت کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے، تذبذب کا شکار ہونے کی وجہ سے کرونا کی ویکسین لگوانے میں تاخیر ہوگئی۔ میں کرونا سے واپس صحتیاب تو ہوگئی لیکن میری صحت مکمل طور پر واپس نہیں آئی ہے اور معمولی سے موسم کے فرق کے ساتھ ہی کھانسی، نزلہ اور زکام کی بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں۔

فہمیدہ برچہ کے والد کے انتقال کی بڑی وجہ کرونا وائرس تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ میرے والد کرونا سے ریکور ہوگئے تھے لیکن صحت مسلسل بگڑتی چلی گئی۔ فہمیدہ برچہ کہتی ہیں کہ جن دنوں والد کو ہسپتال میں داخل کرایا اس وقت ہر طرف کرونا کی ہی خبریں اور کہانیاں تھیں۔ پورے بازار میں ہسپتال اور فارمیسی کے علاوہ کوئی دوکان کھلتی نظر نہیں آتی تھی۔ ہسپتال میں کرونا کے مریضوں کا رش اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ایسے مریض بھی تھے جن کو بسترے تک پہنچانے میں جان نکل گئی۔ان کے مطابق جب ان کے والد ہسپتال میں داخل تھے اور کرونا کی مرض میں مبتلا تھے تو اس وقت کرونا ویکسین دریافت نہیں ہوئی تھی۔

فہمیدہ برچہ خود کرونا وائرس کا شکارہوگئیں اور وہ کرونا کا ڈیلٹا قسم تھا۔ کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے فہمیدہ برچہ کو سانس لینے میں دشواری پیدا ہوگئی وہ کہتی ہیں کہ جب کرونا کا شکار ہوگئی تو اس وقت ساسن زبردستی لے رہی تھی اور نوبت یہاں تک پہنچی تھی کہ ڈاکٹروں نے پھیپھڑوں کے سرجری تجویز کی تھی۔ مجھے تب بہت افسوس ہوا کہ میں نے وقت پر کرونا کی ویکسین کیوں نہیں لگوائی ہے۔

پاکستان اور گلگت بلتستان کے متعدد افراد کی طرح فہمیدہ برچہ کو بھی ویکسین لگوانے کے وقت لوگوں نے روکنے کی کوشش کی اور انہیں ویکسین کے متعلق طرح طرح کے مسائل کا زکر کیا، کسی نے کہا کہ اس ویکسین سے بانجھ پن کا مسئلہ ہوجاتا ہے، کسی نے کہا کہ سر کے بال گر جاتے ہیں تو کسی نے کہا کہ دو سال کے اندر بندہ مر جاتا ہے۔ فہمیدہ برچہ چونکہ کرونا کے مریضوں کو بھی قریب سے دیکھ چکی تھی اور خود بھی اس میں مبتلا تھی تو انہوں نے لوگوں کی بات سننے کی بجائے انہیں سمجھانا شروع کردیا اور خود ویکسین لگوائی۔

گلگت بلتستان کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پروونشل ہیڈکوارٹر ہسپتال گلگت میں خدمات سرانجام دینے والے پیتھالوجسٹ ڈاکٹر محمد اعجاز کرونا وائرس کے دوران گلگت میں موجود تھے۔ انہوں نے تمام مریضوں اور روزانہ کی صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شروع شروع میں لوگ خوفزدہ اور ہچکچاہٹ کا شکار تھے لیکن بعد میں میڈیا مہم نے اس میں اپنا کردار ادا کیا۔ کرونا کی چوتھی لہر کے دوران یہ مشاہدے میں آیا کہ کرونا کا شکار ہونے والوں میں 95 فیصد وہ لوگ تھے جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی تھی۔ اگر اموات کی شرح بھی دیکھیں تو 98 فیصد تک وہ لوگ تھے جن کی ویکسین نہیں لگی تھی۔ بعض لوگوں نے ہم سے شکایت کی کہ ویکسین لگوانے کے بعد بھی کرونا لگتا ہے تو ویکسین لگوانے کا کیا فائدہ ہے؟ کرونا ویکسین لگوانے کے بعد بھی امکانات ضرور ہیں کہ کرونا لگ جائے لیکن ایسی کیفیت نہیں ہوتی ہے کہ اسے آکسیجن کی ضرورت پڑے یا وینٹیلیٹر پر منتقل کریں۔

ڈاکٹر محمد اعجاز کہتے ہیں کہ پاکستان میں جب کرونا ویکسین ۤآگیا تو عوام افواہوں کی زد میں تھی اسی لئے فیصلہ کیا گیا کہ پہلے ڈاکٹر خود ویکسین لگوائیں گے بعد میں عوام کو لگایا جائے گا اور ہم نے پہلے خود ویکسین لگوائی اور لوگوں کو ترغیب دیدی۔

پیتھالوجسٹ ڈاکٹر محمد اعجاز کا کہنا ہے کہ عام عوام نے دو ویکسین لگوائے ہوں گے ہم نے تین ویکسین لگوائے ہیں۔ پوری دنیا میں ایسی چیزوں کو پھیلایا گیا ہے جن میں حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ سوشل میڈیا اور یوٹیوب میں چلنے والی ایسی تمام ویڈیوز فیک ثابت ہوگئی ہیں۔

"ویکسین لگوانے کے بعد دو سال میں بندہ مرجاتا ہے” اس افواہ نے گلگت بلتستان میں بھی اپنا اثر دکھا دیا اور کئی لوگ محض اس افواہ کی بنیاد پر ویکسین لگانے سے انکار تھے، ڈاکٹر محمد اعجاز کہتے ہیں کہ ایسی کونسی تحقیق ہوئی تھی جس نے کرونا ویکسین کے دو سال پورے ہونے سے پہلے خبردار کیا کہ دو سال بعد بندہ مرجاتا ہے؟ کرونا ویکسین کے دریافت ہونے کے بعد دو سال بھی مکمل نہیں ہوئے تو دو سال بعد مرنے والی افواہ پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں نے اب تک صرف دو ویکسین ہی لگوائے ہوںگے لیکن صحت کے عملے خصوصاً ڈاکٹروں نے تین ویکسین لگوائی ہے۔ ہم نے بوسٹر انجکشن بھی لگوائی ہے۔ میرا 12 سال کا بیٹا ہے میں نے اس کی بھی ویکسینیشن کرالی ہے۔ اس میں کسی قسم کا خطرہ یا نقصان نہیں ہے بلکہ مدافعتی نظام کے لئے کرونا ویکسین ناگزیر ہے۔ افواہوں پر یقین رکھنے کی بجائے عوام متعلقہ شعبہ کے ماہرین تک رسائی کریں اور ان سے پوچھیں کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے