سیرت النبیﷺاورتنازعات کا حل

تنازعات کا علم جدید سماجی علوم میں بہت ہی اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔یہ ایک مستقل شعبہ کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ دنیا بھر کی یونیور سٹیوں اور تحقیقاتی و پالیسی ساز اداروں میں اس پر تدریسی و تحقیقی پروگرامات اور مطالعات اور تحقیقات کا ایک وسیع سلسلہ جاری ہے۔ اس علمی شعبے میں ہونے والی پیش رفت کے نتیجے میں تنازعات کے تجزیات، اصول، اساب و اثرات، مراحل و صورتیں اور تنازع سے نمٹنے کے اسالیب اور تنازع کے نتائج پر بہت کام کیا جا رہا ہے۔

چونکہ دنیا میں اس وقت جاری تنازعات یا تو مسلم ممالک میں ہیں یا ان سے مسلمان وابستہ ہیں، اس لیے اس میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کا خصوصی مطالعہ کیا جارہا ہے اور دہشت گردی، امن ، تنازعات سے اسلام کے تعلق کی نوعیت کو جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں جب ہم نے سیرت رسول اکرم ﷺ کا خصوصی مطالعہ کیا تو ہمیں بہت مسرت ہوئی کی اتنی علمی پیش رفت کے بعد تنازعات کے علم پر کام کرنے والے ماہرین نے تنازعات سے نمٹنے کے جو اسالیب و طریقے پیش کیے ہیں اُن سے متعلق سیرت نبی اکرم ﷺ میں ہمیں واضح رہنمائی ملتی ہے۔ یہاں ہم انتہائی اختصار کے ساتھ تنازع سے نمٹنے کے مختلف اسالیب کو سیرت رسول اکرم ﷺ کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہاں صرف وہی واقعات بطور مثال پیش کر یں گے جو بہت مشہور ہیں اور سیرت کی تقریبا ساری کتب میں بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان کا حوالہ ذکر کرنے کی چنداں ضرورت محسوس نہ کی۔

تنازع سے کیا مراد ہے۔

”تنازع “ عربی زبان کا لفظ ہے اور ” نزع“ سے مشتق ہے۔ نزع کا معنی کھینچنا ہے۔ پس دو یا دو سے زائد افراد کا کسی چیز کو اپنی طرف کھینچنا تنازع کہلاتا ہے۔ جبکہ تنازع عام بول چال میں اختلاف، جھگڑے یا کشمکش کو کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ”تنازع سے مراد کم سے کم دو افراد یا گروہوں کے درمیان ایسا تعلق ہے جن کے مفادات، مقاصد، نظریات یا ضروریات میں حقیقی طور پر یا تصوراتی طور پر تصادم یا عدم مطابقت پائی جاتی ہے۔

مفادات یا نظریات کے تصادم کی بنیاد پر تنازع کے فریق ایک دوسرے کے خلاف رد عمل دکھاتے ہیں‘‘۔ عام طور پر تنازع کو امن کا متضاد سمجھا جاتا ہے، حالانکہ امن کا ضد خوف ہے۔ اور تنازع خوف کا ایک اہم سبب ہے۔ کسی بھی تنازع کی صورت حال سے نمٹنے کے طریقے یا اسالیب مختلف ہو سکتے ہیں۔ صورت حال کے مطابق نمٹنے کے انداز مختلف ہو سکتے ہیں اور ان کے تحت تنازع کے نتائج بھی مختلف نکل سکتے ہیں۔ ذیل میں تنازع سے نمٹنے کے مختلف طریقوں اور اسالیب کو بیان کیا جارہا ہے:

ا) تنازع پر قابو پانا (Conflict Management)

سب سے پہلے ضروری ہے کہ تنازع کو تشدد اور نقصان سے بچانے کے لیے اس پر قابو پالیا جائے۔ متحارب افراد اور گروہوں کو ایک دُوسرے پر حملہ کرنے سے روکنے کے لیے ان کے درمیان قانونی، سماجی اور اخلاقی رکاوٹیں پیدا کی جائیں، جن کے نتیجے میں عارضی طور پر امن قائم ہو جاتا ہے۔ ایک موقع پر اہل قبا کے مابین جھگڑا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا: ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم ان کے درمیان صلح کروائیں۔

ب) تنازع کا حل نکالنا (Conflict Resolution)

تنازع پر وقتی طور پر قابو پانے کے بعد تنازع کا کوئی نہ کوئی وقتی حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ تنازع کے حل کا مقصد فریقین کی مدد کرنا ہے تاکہ وہ ایک دُوسرے کی ضروریات، مسائل اور تنازع کی وجوہات کو سمجھ کر پائیدار حل تلاش کرسکیں۔اس مرحلے/طریقے کا مقصد فریقین کو کسی ایسے معاہدے یا حل پر راضی کرنا جس پر دونوں فریق پر مطمئن ہو تاکہ تنازع کا مستقل حل نکالا جا سکے۔ بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کعبة اللہ میں حجر اسود نصب کرنے کے مسئلے پر قریش کے قبائل کے درمیان کھڑا ہونے والا تنازع اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیش کردہ حل ایک بہترین مثال ہے۔ تمام قبائل یہ سعادت خود حاصل کرنے کے خواہش مند تھے اور اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنازع کو بہترین انداز میں حل کرنے کے لیے یہ تجویز پیش کی کہ حجر اسود کو ایک چادر کے درمیان میں رکھا جائے اور ہر قبیلے کا سردار ایک کونا پکڑ کر اُسے مطلوبہ مقام پر لے جائے، جہاں اُسے نصب کرنا مقصود تھا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور تنازع حل ہوگیا، جس سے خطرناک لڑائی کا خطرہ ٹل گیا۔

ج) تنازعات کو بہتر مواقع میں بدل دینا (Conflict Transformation)

تنازع کو بہتر مواقع میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ تنازع کا کثیر الجہت تجزیہ کیا جائے اور اس کے امکانات کا جائزہ لیا جائے۔ تنازع کی وجہ سے فریقین کے مابین متاثر ہونے والے تعلقات کو بحال کیا جائے، نقصانات اگر ہوئے ہوں تو ان کا ازالہ کیا جائے، نفرتوں کو معافی اور عفو و درگزر کے ذریعے خوشگوار تعلقات میں تبدیل کیا جائے تاکہ فریقین افہام و تفہیم کے نتیجے میں ایک دوسرے کی صلاحیتوں، استعداد اور وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ایک ایسے دور کا آغاز کر سکتے ہیں جس میں مذکوہ مسئلہ پر کسی تشدد یا تنازع کا خدشہ نہ رہے۔ دونوں گروہ تنازع کی وجوہات دُور کر کے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے بعد تنازع کو عناد اور دشمنی کے بجائے مستقل بنیادوں پر مفاہمت اور دوستی میں بدل دیں۔ اس کے علاوہ اس کا مقصد فریقین کی مدد کرنا ہے کہ وہ تنازع کے صحت مند اور مفید اثرات قبول کرتے ہوئے اس قابل ہوجائیں کہ باہمی تنازعات کے ذیلی مسائل کا حل خود تلاش کر سکیں۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب تنازع کے بعد بحالی اور تعمیر ِ نو کا عمل شروع ہوتا ہے۔

اس مرحلہ میں تعمیر ِ نو کا مقصد صرف تباہ شدہ عمارات کی از سر نو تعمیر نہیں بلکہ سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچے کی تعمیر ِ نو اور تنازع کے شکار فریقین کے درمیان پہلے سے مضبوط اور پائیدار تعلقات استوار کرنا ہے اور نئے امکانات اور مواقع اکا آغاز ہے۔ اس کا مقصد تنازع کی بنیادی وجہ کو سامنے لانا اور فریقین کو کسی ایسے حل کی طرف لے جانا بھی ہے جس کے بعد تنازع کا خدشہ نہ رہے۔

فتح مکہ (۸ ہجری ) کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب فاتح بن کر شہر میں داخل ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وہی لوگ تھے جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار ظلم ڈھائے، جس کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئی جنگیں لڑیں۔ ان سب باتوں کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کو معاف فرمایا اس معافی کے بعد ماضی کے دشمن اب ہر قسم کی تلخیاں بھلا کر مکمل طور پر آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور ایک نئی اجتماعی زندگی کا آغاز فرمایا۔

اسلامی تاریخ میں ہجرت کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ کے انصار اور مکہ مکرمہ سے آنے والے مہاجرین کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم کیا ۔ نسل، قوم و قبیلہ، خاندان، شہر، سوچ و بچار وغیرہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود انصار اور مہاجرین ایک پائیدار رشتہ میں بندھ گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی کی عظیم مثال قائم کی۔

د) تنازعات سے بچاﺅ (Conflict Prevention)

تنازع سے بچاؤ بھی ایک ایسی حکمت عملی ہے جس سے معاشرے کو تنازعات سے بچایا جا سکتا ہے۔ تنازع سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ ان وجوہات کا پہلے ہی جائزہ لیا جائے جو تنازع کا سبب بن سکتی ہوں، یعنی ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ تنازع پیدا ہونے ہی نہ پائے۔ تنازعات سے بچاؤ کے لیے معاشرے کے اندر لوگوں کے مابین ایسی کوششیں اور اقدامات کیے جا سکتے ہیں جو تنازع کا راستہ روکیں اور تنازع اور تشدد کا مرحلہ پیش ہی نہ آئے۔ معاشرتی اقدار جیسے باہمی احترام، عدل و انصاف، مساوات، باہمی افہام و تفہیم، حُسن معاشرت اور حُسن اخلاق وغیرہ کے فروغ سے تنازعات کا بچاؤ ممکن ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ” سدّ ذرائع “ (برائی کا راستہ روکنے کا) کی صورت میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ سد ذرائع تنازعات سے بچاوکی اسی حکمت عملی کو واضح کرتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک کبیرہ گناہوں میں سے ایک اپنے والدین کو گالی دینا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ! کیا کوئی شخص اپنے والدین کو بھی گالی دے سکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ہاں ،وہ دوسرے شخص کے باپ کو گالی دے گا اور دوسرا رد عمل میں اس کے باپ کو گالی دے گا، وہ دوسرے کی ماں کو گالی دے گا تو وہ اس کی ماں کو گالی دے گا۔ (صحیح مسلم: ۰۳۱)

یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سد ذرائع کی تعلیم دی کہ اگر تم نے اپنے ماں باپ کی ناموس کو بچانا ہے ، تو دوسرے کے ماں باپ کی توہین نہ کرو۔

حل ّ تنازعات کی ممکنہ صورتیں فریقین چاہے وہ افراد ہوں، گروہ یا ممالک، ان کے درمیان تنازع مندرجہ ذیل چار مختلف صورتوں میں ختم ہو سکتا ہے۔

ا) یک فریقی جیت ( win-lose)

ایک فریق ،جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہونے یا مالی لحاظ سے زیادہ طاقتور ہونے یا اسے کسی بااختیار ادارے یا ملک کی حمایت کی وجہ سے جیت جاتا ہے اور دوسرا ہار جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہارنے والا مطمئن نہ ہواور اسے تشدد اور نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑے۔ مختلف غزوات اس کی مثال ہیں۔ غزوہ بدر میں مسلمان نے جیت اور مشرکین نے شکست اور غزوہ احد میں مسلمانوں کو شکست اور مشرکین کو جیت ملی۔

ب) دست برداری (lose-win)

تنازع کو کم از کم عارضی طور پر ختم کرنے کا ایک اور طریقہ دست برداری ہے۔ جس کے مطابق ایک یا دونوں فریق پیچھے ہٹ جاتے ہیں البتہ اس کے ذریعے کوئی بھی فریق صحیح معنوں میں مطمئن نہیں ہوتا۔ سن ۶ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کرنے کا فیصلہ فرمایا اور مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس فیصلہ کا جب مکہ کے قبائل اور سرداروں کو پتا چلا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی صورت مسلمانوں کو عمرہ کرنے نہیں دیں گے۔ قریش مکہ نے مسلمانوں کو مکہ سے باہر حدیبیہ کے مقام پر ہی روک دیا۔ اس مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔اس معاہدہ کی چند شرائط سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بظاہر متفق نہیں تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان شرائط کو منظور فرمایا۔ صلح حدیبیہ میں پیغمبر اکرم ﷺ اپنے موقف (عمرہ کی ادائیگی)سے دست بردار ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ جانے کے بجائے واپس مدینہ منورہ لوٹے۔

ج) سمجھوتہ (lose-lose)

یہ تنازع کے حل کا آغاز ہے دونوں فریق کم و بیش کسی چھوٹی سی تبدیلی پر مثلاً ان وسائل میں شراکت جن پر ان کے درمیان جھگڑا ہوا، یا براہ راست لڑائی سے گریز پر رضا مند ہوجاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سمجھوتہ فریقین کے لیے مکمل طور پر منصفانہ نہ ہو لیکن یہ کم از کم عارضی طور پر اطمینان بخش ہوتا ہے۔ میثاق مدینہ میں رسول اکرم نے مدینہ کے یہودی قبائل کو ریاست سے وفاداری کے عوض تمام شہری حقوق عطا کیے۔

د) ہر ایک کی جیت (win-win)

حقیقی مشترکہ سوچ (یا اعلی تر سوچ) کے حامل فریق ایک دوسرے کے نقصان یا ہار کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ ہر ایک کی بھلائی اور جیت کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس میں دونوں فریق اپنی اصل ضروریات پر ایک نئی مفاہمت پیدا کر لیتے ہیں اور تعاون کے ثمرات آپس میں بانٹنے کا ایک نیا طریقہ تلاش کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے اختلافات کا احترام کرتے اور اپنے مشترکہ مسائل کا تعین کرتے ہیں۔ وہ اپنے مشترکہ مقصد کی خاطر مل کر کام کرتے ہیں۔ اس حل کے مطابق” پُرتشدد تنازع“ فریقین کی نظر میں اختلافات کے حل کا تقریباً غیر مطلوب طریقہ بن کر رہ جاتا ہے۔ حجر اسود کے نصب کرنے کے معاملے پر پیش آنے والے تنازع کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا حل پیش فرمایا، جسے آج کے جدید دور میں ”طرفین کی جیت“ (win-win) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسا حل جس میں سب کی جیت ہوتی ہے اور کسی کی ہار نہیں ہوتی۔

فتح مکہ بھی ہر فریق کی جیت کی ایک بہترین مثال ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فتح مکہ کے موقع پر عفوو درگزر کی عظیم مثال قائم کی اور فرمایا: اے قریش کی جماعت! آپ کیا کہتے ہیں کہ آج آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ انھوں نے کہا: آپ ہمارے بھتیجے اور عم زاد اور رحم کرم کرنے والے ہیں، اس لیے ہم امید رکھتے ہیں کہ آپ ہمیں معاف فرمائیں گے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پھر ان سے یہی سوال پوچھا ، انھوں نے پھر یہی جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میں وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف (علیہ السلام )نے کہی تھی:آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمھیں معاف کر دے گااور وہ سب سے بڑا رحم فرمانے والا ہے۔“

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے