گیمنگ: کیا ذہنی استعداد بڑھانے والی مشق تنازعےکی بیخ کنی کر رہی ہے؟

دوہزار بائیس جنوری میں ایک نوعمر لڑکے نے اپنی ماں اور بہن بھائیوں کو گولی سے مار دیا اور یہ تصور کیا کہ جس طرح ’پب جی میں خودکار نظام کے تحت ڈیجیٹل گیمنگ ربوٹس زندہ ہوجاتے ہیں، یہ بھی زندہ ہو جائیں گے۔‘ پولیس کو دئیے گئے بیان میں اس نے قبول کیا کہ آن لائن گیم میں دیے گئے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعداسکا مزاج غضبناک ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے اس نے ایسا کیا۔

لاہور میں آن لائن گیم سے جڑے جرم کا یہ چوتھا واقعہ تھا، دو ہزار بیس میں پہلا کیس سامنے آنے پر پولیس حکام نے گیم پر پابندی کی استدعا کی تھی۔ اب سال کے دوسرے مہینے میں ایک اور طالبعلم کے بستے سے بندوق برآمد ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک طالبعلم نے اپنے استاد کو اعتقاد کے اختلاف پر قتل کردیا۔

گزشتہ دو برسوں میں پب جی گیم کے شوقین تین نوجوان خودکشی کر چکے ہیں۔دن بدن بڑھتے ایسے واقعات معاشرتی سکون و برادشت کیلئے بڑھتے خطرے کی نشاندہی کررہے ہیں، اسی حوالے سے مختلف ماہرین کی آراء لی گئی ہے۔

سائیکلوجسٹ بشری رانی کا کہنا ہے کہ ویڈیو گیم کھیلنا ذہین بچوں کا کام ہے،گیمنگ سے کوگنیٹیو صلاحیت بڑھتی ہے، گیمز جو ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی صلاحیت کو بڑھائیں مثلاً سکوڈو، سولیٹائر، یا ایسی گیمز جن میں پلاننگ کرنے کی مشق کرائی جائے، مثلاً فارمنگ، جنگل بنانے ، زرعی ، یا لائیو اسٹاک کو منتظم کرنیوالی گیمز، خزانہ ڈھونڈنے کی گیمز، جن میں ہتھیار یا مارڈھاڑ نہ ہو، یہ سب ذہنی گیمز ہیں ۔

دوسری جانب یہی گیمز نشے کی لت جیسے اثرات بھی رکھتی ہیں۔ بچے سکرین ایڈیکشن کا شکار ہو جاتے ہیں بچوں کو بیس منٹ سے زیادہ گیم نہیں کھیلنے دینا چاہیئے بیس منٹ سے زائد گیم کھیلنا ایک بیماری یا لت کی علامت ہے۔ زیادہ ویڈیو کھیل کے بعد بچے کا دماغ تھک کر ماؤف ہو جاتا ہے، بلکل ویسے ہی جیسا کہ کسی کا دماغ نشہ کرکے سُن ہوجاتا ہے، تو سینٹرل نرویس سسٹم بھی بند ہوجاتا ہے اور بچے کا رویہ بھی آؤٹ آف کنٹرول ہوجاتا ہے، یعنی وہ جو دیکھے گا بغیر سوچے سمجھے اسکو دہرائے گا، اور پب جی کھیل کے نشے میں دھت بچے نے بھی یہی کیا۔

پُرتشدد گیمز کی وجہ سے ناصرف ایک گھر بلکہ کئی معاشرے تباہ ہو نے کی لائن میں آن کھڑے ہوئے ہیں، آئے روز خبروں میں سنتے ہیں کہ مغربی دنیا میں کسی بچے یا نوجوان یا بالغ فرد نے بندوق سے سکول، کالج، کنسرٹ ، مسجد، عبادت گاہ، ہوٹل، کیفے یا بازار میں فائرنگ کرکے لا تعداد لوگوں کو زخمی یا قتل کردیا۔

امریکہ میں بچوں کی سوشلائزیشن پر ایک سوشل سائیکالوجیکل ریسرچ کا انعقاد کیا گیا ، جس میں پتہ چلا کہ جب ٹی وی پر ہتھیاروں یا فوجی مشنز ، قتل و غارت، مار دھاڑ والی فلمیں لگنا شروع ہوئیں تو شہروں میں قتل و غارت کے واقعات بھی بڑھ گئے۔ یہی اثرات گیمز کے بھی ہیں بچوں میں ایسی جارحیت پسند گیمز کی وجہ سے غصے والے جذبات ٹریگر ہوتے ہیں، اور بچے ان پر عمل کرتے ہیں ۔

[pullquote]پیرنٹنگ (Parenting) یا والدین کی پالنے پوسنے کی صلاحیت انتہائی نظر انداز مسئلہ ہے[/pullquote]

والدین نے بچوں کو سنبھالنے کی بجائے موبائل گیمنگ میں پناہ ڈھونڈ لی ہے ، والدین چاہتے ہیں کہ بچے باہر نہ جائیں دوست نہ بنائیں اور گیم کھیلتے رہیں۔ بچوں سے زیادہ والدین کو آگاہی اور تربیت کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت یا پرورش کیسے کی جانا چاہیئے، ہمارے ہاں پرینٹنگ (والدین کی پالنے پوسنے کی صلاحیت)سب سے زیادہ نظر انداز شعبہ ہے، والدین کو بچوں کو ڈیل /سنبھالنے کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا ۔

صحتمند معاشروں میں بچوں کے سامنے کچھ ایسا نہیں کرتے جو بچوں کے ذہن پر بُرا اثر ڈالیں ۔ لیکن ہمارے بچے پرائم ٹائم میں ٹی وی پر لگنے والے وہ تمام سیاسی ٹاک شو دیکھتے ہیں جن میں سچ اور جھوٹ کی کوئی تمیز نہیں ہے، وہ خبریں سنُتے اور انکے ذہن ملکی اور گھریلو سیاست کیساتھ آلودہ ہوتے ہیں جو نہیں ہونا چاہیے۔ والدین بچوں کے سامنے جھگڑتے ، دوسروں کی عیب جوئی، غیبت ، دوسروں کو نیچا دکھانا، بالغ کانٹینٹ ، ہر وہ کام کرتے ہیں جو بچوں کے سامنے نہیں کرنا چاہیے۔

[pullquote]والدین کیلئے بچے پالنا پارٹ ٹائم مشغلے کی حثیت اختیار کرچکا ہے[/pullquote]

والدین کی تربیت کے حوالے سے ہر سطح پر ایڈوکیٹ کرنا چاہیے، محکمہ تعلیم ، ترقیء آبادی اور صحت کے محکمہ جات کو مل کر اس پر کام کرنا چاہیے یہ انتہائی نظر انداز ،مسئلہ ہے۔فوری طور پر سکول کی سطح پر بچوں سے بات کرنا چاہیے، والدین سکرین ٹائم کو نوٹ کریں۔

جو بچے اس نشے کی لت میں جا چکے ہیں انکو فورا سائیکو تھراپسٹ کے پاس لیجانا چاہیے تاکہ وہ اپنے دماغ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرسکیں۔ ڈیجیٹل دنیا کی وسعتوں میں ہم جیسے ترقی پذیر معاشروں میں ابھی ان سہولیات کے درست استعمال کیلئے حکومتی سرپرستی ، پالیسیز اور ماہرین کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔

رعنا ملک، چیئرپرسن جینڈر اینڈ سٹیڈیر ڈیپارٹمنٹ ، پنجاب یونیورسٹی نے گیمنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو سال میں وباء کی وجہ سے گھریلو یا انڈور کھیلوں کا رُحجان بڑھا تو والدین نے بھی بچوں کو کمپیوٹر اور موبائل گیمز کھیلنا سیکھائیں یا جو پہلے سے کھیلتے تھے اب ان پر سختی کم ہوگئی۔

والدین کو سرپرستی کرنا نہیں چھوڑنا چاہیئے ، نوعمری یا بالغ عمری کا مرحلہ زندگی میں بہت ہی حساس ہوتا ہے کیونکہ بچپن سے نکل کر لڑکپن میں نہ صرف جسمانی تبدیلیاں نمایاں ہو رہی ہوتی ہیں بلکہ ہارمونز کی وجہ سے ذہنی صحت بھی کافی حد تک توجہ طلب ہو جاتی ہے۔

وباء کی وجہ سے سکول بھی بند ہوگئے ، محلوں میں کھیلنے کے میدان کافی عرصہ سے ختم کر دئیے گئے ہیں، گھروں میں معاشرتی رواج کے مطابق بڑوں سے گفتگو کرنے کے محدود موضوعات ، بچوں یا نو عمربالغ افراد میں اظہار رائے یا اپنی کیفیات بیان کرنے کا رُحجان ہی نہیں ، پھر ایسے میں یہ توانائی کہاں استعمال ہوگی؟

گھروں میں والدین کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے کھیل یا سرگرمیوں کو ڈیجیٹل یا آف لائن دونوں جگہ مانیٹر(نگرانی ) کریں ۔ معاشرتی اعتبار سے لڑکیوں کو گُڑیوں اور لڑکوں کو بندوق کے کھلونے دئیے جاتے تھے اب دونوں ہی آن لائن گیمز کھیلتے ہیں آن لائن گیمز میں اسلحہ ، اور بارود یا لڑائی جھگڑے والی کھیل زیادہ ہوتی ہے۔

ہمارا جسم ہمارے ذہن کیلئے ایک روبوٹ جیسا ہے ، جیسا دماغ سوچے یا دیکھے گا وہ اسکی پیروی کریگا، اور آنکھیں اور سوچ دماغ کو غذا فراہم کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے دماغ جو زیادہ دیکھتا ہے وہ وہی اپنا لیتا ہے۔ بچے بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر رُحجان کی اندھی تقلید کرتے ہیں

یہاں والدین اور معاشرے کے بزرگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ نوجوانوں کیلئے صحت مند سرگرمیوں کا انعقاد کریں یا نئی سرگرمیوں کو اختراع یا ایجاد کرنے میں انکی مدد کریں ورنہ نوجوان ایسے ہی ڈپریشن سے دوسروں کو ماریں گے یا خودکشی کرلیں گے۔

بچوں کی وڈیو گیمز کے حوالے سے نہ صرف مقامی و عوامی بلکہ گلوبل سطح پر بات کرنا ہوگی ۔ ہمیں والدین ، اساتذہ، نوعمر بالغ افراد اور بچوں کو گیمنگ کے حوالے سے آگاہی دینا ہوگی، گیمز کی مختلف اقسام ہوتی ہیں، اچھی اور بُری کھیل ۔

دماغی صلاحیت کو بڑھانے والے کھیلوں کو فروغ دینے کیلئے یونین کونسل سطح پر کلبز کو لازمی قرار دینا ہوگا، اور انکی حوصلہ افزائی کیلئے مخیر حضرات کے علاوہ اہم کھلاڑی شخصیات اور کمپنیوں کو حکومت کیساتھ مل کر کھیلوں کا سامان اور ترویج کا ذمہ اٹھانا ہوگا۔ یہ نئی لت نشے کی طرح تیزی سے معاشرتی سکون اور خاندانی نظام کو دیمک لگا رہی ہے۔ جو آخرکار خاندانی ، گھریلو، معاشرتی اور ملکی سطح پر انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔

بانی محفوظ بچپن فیس بک پیج، فلانتھراپسٹ اور ریڈیو براڈکاسٹر بشری اقبال حسین نے اس معاملے پر اپنا مشاہدہ شیئر کیا، کہ ہم تبدیلی کے ایسے دور میں ہیں جہاں نئی نسل پیدا ہی ڈیجٹل سپیس کے درمیان ہوئی ہے جبکہ والدین ابھی اس سپیس کو سیکھ رہے ہیں، کچھ والدین بچوں کو استاد بنا کر ان سے سیکھتے بھی ہیں اور انکو سیکھاتے ہوئے انکی رہنمائی اور مانیٹرنگ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔

چونکہ ہر آنیوالی نسل گزشتہ یا موجودہ اذہان سے زیادہ تیز صلاحیتیں رکھتی ہے۔ اس لحاظ سے جہاں والدین بچوں کی نگرانی نہیں کرتے یا سخت رویہ اختیار کرلیتے ہیں وہاں ایسے مسائل بہت زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں، مغرب میں بچوں کو بہت زیادہ ایکسپوژر ملتا ہے اور ہمارے بچے کم ایکسپوژر کی بنا ءپر چیزوں کے منفی استعمال سے ہی آشکار ہو پاتے ہیں۔

ہم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کے افراد کا مقابلہ یا موازنہ نہیں کرسکتے کیونکہ جرائم کی شرح دنیا میں ہر جگہ ایک جیسی ہے، فرق ایسے واقعات کی روک تھام یا ان سے نبٹنے اور مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے آتا ہے۔

جسمانی کھیلوں میں مقابلے کی فضاء ہوتی ہے، جسم کی حرکت سے توانائی پیدا ہوتی ہے، بچے کھلی فضا میں سانس لینے سے صحتمند ہوتے اور اندرونی کھیلوں میں بھی ذہن و جسم دونوں کا متوازی استعمال مفید حد تک ہوتا ہے جبکہ موبائل یا آن لائن گیمز میں ایسا نہیں ہوتا۔

دنیا میں کہیں بھی بچوں کی گیمز کے مواد کی نگرانی نہیں ہوتی پھر کھیل کی تھیم ، اسکے اندر کیا سیکھایا جا رہا ہے مثلاً کسی کھیل میں مختلف پرزہ جات کو جوڑ کر بچہ نئی چیز تخلیق کرتا ہے تو بچے کا ذہن تخلیقی صلاحیتوں کو سیکھے گا، اسکے برعکس اگر بچہ بندوق سے کسی کو مارنے کی پلاننگ کرنا سیکھے گا تو وہ عام زندگی میں بھی وہی رویہ اپنائے گا۔

والدین خود بچوں سے کھیلنے کی بجائے ان کو موبائل دے دیتے ہیں اسکی وجہ سے بچے کے دماغ میں ایک غدود ڈوپامین ریلیز ہوتا ہے اگر آپ بچے سے موبائل مانگیں یا واپس لے لیں تو بچہ فساد برپا کر دیتا ہے ۔ سائبر سپیس بچوں کیلئے ویسے بھی محفوظ نہیں۔

بشری اقبال نے مزید بتایا کہ دو ہزار تین میں ایک فوکس گروپ ڈسکشن کے مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ بچے جو ٹام اینڈ جیری کارٹون دیکھتے ہیں ، وہ ایک دوسرے کو مارتے ہوئے یہ نہیں سمجھتے کہ انکی مار سے کسی کو کوئی فرق پڑے گا،کیونکہ کارٹون کریکٹر جیری بھی ٹام کو فرائی پین مارتا ہے اور وہ دوبارہ کھڑا ہوجاتا ہے، یا ٹام جیری کو ٹکڑوں میں کاٹ دیتا ہے اور وہ دوبارہ اکٹھا ہوکر ٹھیک حالت میں آجاتا ہے۔

تب بھی یہی سوال اُٹھایا گیا تھا کہ ہر کارٹون تشدد کی بنیاد پر ہی کیوں بنایا جاتا ہے، ہر کھیل میں جنگ ہی کیوں دکھائی جاتی ہے ، ورچوئل رئیلٹی کی وجہ سے بچے شناخت نہیں کر پاتے کہ حقیقی زندگی میں ایسی صورتحال کے نتائج کیا ہوں گے، کیونکہ بچوں میں زندگی اور موت کا تصور واضح نہیں ہوتا۔

اسی طرح ایک آن لائن سوال کے جواب میں ایک شخص نے اپنا مشاہدہ شئیر کیا، جو بہت خوفناک تھا۔

بچوں یا بالغ افراد کو موبائل یا سائبر سپیس استعمال کو منع کرنا یا پابندی لگانا اسکا حل نہیں، ہمیں اسکی باریکیو ں کو سمجھنا ہوگا۔ موبائل یا سائبر سپیس اور گیمز کے استعمال کیلئے کچھ پالیسز اور قوانین مثلاً ایک عمر کی حد مقرر کرنا پڑے گی۔

پب جی کھیلنے والے مختلف افراد کا کہنا ہے گیم کھیلتے ہوئے وہ خود کو بہت پُرجوش محسوس کرتے ہیں، کچھ افراد اسے صرف گیم کے طور پر ہی لیتے ہیں اور محدود مدت کیلئے کھیلتے ہیں، جبکہ کچھ افراد کیلئے یہ ایک نشے کی لت جیسی ہے، کہ اگر وہ ایک دن پب جی گیم نہ کھیلیں تو وہ اپنے آپ کو محسوس نہیں کر پاتے۔

کچھ لوگ اپنے دوستوں یا کزنز کے دباؤ یا ’رُحجان ‘ کی پیروی کے چکر میں کھیلتے ہیں اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ایڈرینل رش کی وجہ سے اس کھیل میں ایک نشہ اور جنون ہے، اور مسلسل خون، گولیوں کی آواز، لڑائی کی تکنیکس، ماحول کی وجہ سے بعض اوقات عام زندگی میں کسی کا خون دیکھ کر بھی انہیں مسئلہ نہیں ہوتا، کچھ کے مطابق یہ قطعی خطرناک گیم نہیں ہے۔

بچوں کی تربیت کی خاطر انگلینڈ میں سن دوہزار کے بعد گیمز کے محدود اور زیر نگرانی استعمال پر پالیسی عمل میں لائی گئی۔ پُرتشدد کھیلوں یا کارٹونز یا ویڈیو گیمز ۔۔۔جس میں کچھ نہایت خوفناک گیمز بھی شامل ہیں مثلاً ’بلیو وہیل ‘ ٹائپ اور پب جی۔۔۔ کے حوالے سے پاکستان یا ہم جیسے ممالک کو بھی کچھ پالیسیز اور اصول بنانا پڑیں گے۔

تاکہ معاشرتی تضاد کو فساد میں بدلنے سے پہلے کچلا جاسکے ۔ آگاہی مہم، سیمینارز، چھوٹے پبلک سروس پیغامات جیسا کہ کرونا سے بچاؤ کیلئے کیا گیا، اور یونین کونسل سطح پر کمیشنر کی نگرانی میں ہر علاقے میں نوجوانوں کیلئے غیر نصابی سرگرمیوں کیلئے فنڈز اور میدان بنانے ہوں گے، تاکہ اس بڑھتے معاشرتی ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جاسکے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے