27 دسمبر کو بےنظیر بھٹو کا یوم شہادت ہے.. بےنظیر کی شخصیت کا ہر رنگ خوبصورت تھا دلکش شخصیت اور ذہانت نے کتنے سال اس عوام کو ان کے سحر میں مبتلا رکھا.. اور پھر وہ 27 دسمبر آ گیا جس نے بی بی کو اپنے چاہنے والوں سے جدا کیا اور یہ ملک ایک بڑی سیاستدان سے محروم ہو گیا..
آج پارلیمنٹ ہاوس میں پوائنٹ آف آڈر کے علاوہ بی بی کے حوالے سے بھی ساٹس کرنے تھے.. بی بی کے بطور ماں کردار کے حوالے سے اراکین پارلیمنیٹ کی رائے درکار تھی..
سب سے پہلے میں نے سینیٹر بابر اعوان کو دیکھا تو مجھے دلی خوشی ہوئی وہ بی بی کے پرانے رفقا میں سے ہیں وہ اس موضوع پر بہت اچھا جواب دے سکتے تھے.. میں نے ان سے پوچھا کہ بابر اعوان صاحب یہ بتائیں کہ بی بی کے ساتھ آپ کا بہت سارا وقت گزرا آپ نے ان کے کئی روپ دیکھے آپ بتائیے کہ بی بی ایک اچھی سیاستدان تو تھی مگر بطور ماں آپ نے ان کا رویہ کیسا دیکھا..
وہ ایک لمحے کو ٹھہرے اور پھر یوں گویا ہوئے.. میری جڑواں بیٹیاں ہیں اور بی بی ان سے اتنی محبت کرتی تھی کہ میرے پاس کتنی ہی ایسی تصاویر ہیں جن میں وہ میری بچیوں سے لاڈ کر رہی ہیں تو سوچیں وہ اپنی اولاد کے لیے کیسی ماں ہوں گی.. مجھے یاد ہے ہماری میٹنگز ہوا کرتی تھی لمبی لمبی میٹنگ جن کو فیصلہ کن میٹنگ بھی کہہ سکتے ہیں مگر بی بی ان میں بھی بچوں کو ساتھ رکھتی تھی.. وہ اپنے بچوں کو خود ٹیوشن دیتی تھیں.. اگر کبھی ماوں کے کردار کو اجاگر کرنے کی کمپین چلانی ہو تو بی بی رول ماڈل ہیں
پھر میں آگے بڑھی تو سینیٹر سسی پلیجو نظر آئیں.. اگرچہ وہ ینگ پارلیمینٹیرین ہیں مگر ان کا بھی کچھ وقت بی بی کے ساتھ ضرور گزرا ہے.. میں نے اپنا سوال بتایا وہ کہنے لگیں جب بی بی کے بچے چھوٹے تھے تب سے ان کا بی بی کے گھر آنا جانا ہے وہ کہنے لگیں جب عورت سیاست میں آتی ہے تو سب سے پہلے نجی زندگی کی قربانی دینا پڑتی ہے اولاد اور گھر نظر انداز ہوتے ہیں مگر بی بی کا اپنی اولاد سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وقت ملنے پر وزیراعظم بے نظیر گھر میں اپنے بچوں کے لیے سینڈوچ بھی خود بنایا کرتی تھی خود کھلایا کرتی تھیں.. وہ اپنے بچوں کی پڑھائی پر بھی خود توجہ دینے کی بھرپور کوشش کرتی تھیں
پھر میں آگے بڑھی تو پیپلز پارٹی کے عاجز دھامرا سے ملاقات ہوئی انہوں نے بھی بی بی کی اولاد سے محبت کی یاداشت کھنگلاتے ہوئے کہا کہ بی بی اپنی اولاد کے معاملے میں روایتی ماں کی طرح بہت حساس تھی.. ان کو صرف اپنے بچوں سے ہی نہیں سب بچوں سے ہی بہت محبت تھی شہادت سے قبل وطن واپسی پر انہوں نے کہا تھا مجھے صرف بختاور، بلاول اور آصفہ کے بارے میں نہیں سوچنا مجھے قوم کے لاکھوں بلاول لاکھوں بختاوروں اور آصفاوں کے بارے میں بھی سوچنا ہے میں ماں ہوں اور ماں سب کی اولاد کا سوچتی ہے..
بی بی کے اولاد کے بارے میں جذباتی خیالات نے ان کی قدر میرے دل میں مزید بڑھا دی.. میں پارلیمنٹ سے آفس جاتے بی بی کے بطور عورت اور بطور ماں کردار کا ہی سوچتی رہی.. آفس پہنچے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ہر چینل پر بریکنگ چلنے لگی.. بلاول کے پروٹوکول کے باعث دس ماہ کی بسمہ بروقت علاج نہ ہونے کے باعث انتقال کر گئی..
ایسے میں پیپلز پارٹی کے سینیئر راہنما اور صوبائی وزیر صحت کا یہ تکلیف دہ بیان کہ یہ ایک معمولی واقعہ ہے بچی کا انتقال کوئی نئی بات نہیں.. صوبائی وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے اس واقعہ پر اظہار افسوس تو کیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بلاول کی سیکیورٹی بھی اہم تھی..
سوال تو یہ ہے کہ انسانی جان چاہے چئیرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی ہو یا غریب باپ کی دس ماہ کی بسمہ کی کیا اس کی اہمیت ایک سی نہیں ہے.. کیا بی بی جن کے بارے میں بابر اعوان کہتے ہیں کہ اگر ماوں کے کردار کو اجاگر کرنا ہو تو بےنظیر ایک رول ماڈل ہیں اگر وہ زندہ ہوتی تو اپنے بیٹے کے پروٹوکول کے لیے ننھی بسمہ کی موت کو اتنا ہی معمولی سمجھتی.. اس کا جواب یقیناً نہیں میں ہو گا وہ بھی ایک ماں تھیں وہ کسی ماں کی گود اجڑنے پر کبھی یہ نہ کہتی کہ یہ معمولی واقعہ ہے.. وہ اپنے بلاول کے لیے کسی بسمہ کی قربانی کبھی نہ لیتی..
بی بی کے بعد پی پی کی موجودہ قیادت کا رویہ کس طرح پیپلز پارٹی کی جڑہیں کھوکھلی کر رہا ہے اور کیسے ہر گزرتا دن ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر بھٹو کے نظریے سے دور کرتا جا رہا ہے شاید طاقت کے زعم میں مبتلا پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت ابھی نظر انداز کر دے مگر اس طرح کے پروٹوکول اور اس کے بعد کے بیانات کے نتائج عوام کے دلوں میں نفرت کا بیج بوتے جا رہے ہیں..