[highlight txtcolor=”#c10600″]
ایڈیٹر نوٹ
شاکر ظہیر صاحب ، علمی اور ادبی ذوق کے مالک ایک کاروباری شخصیت ہیں . انہوں نے اپنی زندگی کے 14 برس چین میں گذارے . اس دوران انہوں نے چینی معاشرے ، نظام حکومت ، ثقافت سمیت پوری تہذیب کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے . اس سیریز میں انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات لکھے ہیں . ان کے مضامین روزانہ صبح گیارہ بجے (پاکستانی وقت کے مطابق ) آئی بی سی اردو پر شائع ہوں گے . آپ کمنٹ باکس میں ان سے سوال بھی کر سکتے ہیں اور اپنا فیڈ بیک بھی دے سکتے ہیں .
سبوخ سید : ایڈیٹر آئی بی سی اردو ڈاٹ کوم
[/highlight]
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریبان کا تار تار چلے
ہمارے والد صاحب ہماری تعلیم کےلیے بہت فکر مند تھے اور اس وقت کے سب سے اچھے سکول ایف جی پبلک ہائی سکول انگلش میڈیم میں داخل کروایا اور ساتھ ٹیوشن کےلیے بھی استاد رکھا تھا ۔ مجھے یاد ہے میں شاید نویں یا دسویں کلاس میں تھا , ہمارے سکول کی ایک بزرگ ٹیچر مس تاج تھیں جن کی عمر اس وقت بھی شاید پچاس ساٹھ کے قریب تھی اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ وہ ہمیں اسلامیات پڑھاتی تھی ۔ ایک دن کسی اور پیریڈ کی ٹیچر نہیں آئیں تو مس تاج نے مجھے کھڑا کیا اور ایک کتاب جس کا سر ورق نہیں تھا مجھے دی اور کچھ صفحات کے بارے میں کہا کہ اونچا پڑھ کر سب کو لکھواوں ۔ میں نے پڑھنا شروع کیا اور باقی طلباء اور طالبات نے لکھنا ۔ وہ کسی جنید بغدادی کی کرامت کا بیان تھا کہ وہ شاید ہر وقت عبادت ہی کرتے رہتے تھے اور ساتھ میں کسی نیک رابعہ بصری کا بیان بھی تھا کہ وہ ہر وقت روزے رکھتی اور نمازیں ہی پڑھتی تھیں اور زندگی بھر شادی بھی نہیں کی ۔
اب معلوم نہیں کہ انہوں نے کسی سے شادی نہیں کی کہ کسی نے ان سے شادی نہیں کی ۔ کون ان سے شادی کرتا ، کیا کسی نے گھر میں درگاہ کھولنی تھی ۔ بہرحال میرا کچھ مطالعہ اس وقت نعیم صدیقی کی کتاب محسن انسانیت کا تھا اس میں مجھے تو رسول اللہ ﷺ کی ایسی ہر وقت نمازیں پڑھنے اور ہر روز روزے رکھنے کی کوئی بات نہیں ملی تھی اس لیے مجھے یہ سب واقعات بہت عجیب سے لگے ۔ بلکہ اس کے مخالف یہ روایت ملی کہ ایک صحابیہ نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے شوہر کی شکایت کی کہ ہر وقت عبادت اور ہر روز روزے کی حالت میں رہتے ہیں اور ہمیں وقت نہیں دیتے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلا کر نصحیت کی کہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے تمہارے اہل و عیال کا بھی ۔ میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہوں اور عبادت بھی کرتا ہوں اور اہل عیال کی خبر گیری بھی ۔ یعنی ایک اعتدال ۔ لیکن یہاں تو کچھ اور ہی کہا جا رہا تھا ۔ میرے ذہن میں سوال آیا کہ پھر پڑھائی ، سکول جس پر ہم وقت ضائع کر رہے ہیں چھوڑ کر عبادت عبادت ہی کرنی چاہیے ۔ لیکن اگر والد صاحب نے بھی دوکان چھوڑ کر عبادت عبادت شروع کر دی تو ہم کھائیں گے کہاں سے ۔ مس تاج بہت سخت طبیعت کی تھیں ہم نے کبھی شاید ہی انہیں مسکراتے دیکھا ہو ۔ اس لیے مجھے ان سے سوال کرنے کی ہمت نہ ہوئی ۔
انہی دنوں سکول میں کسی اور سکول سے پرنسپل پوسٹ ہو کر آئے ، بخاری صاحب بہت جلالی طبیعت کے تھے اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے ، اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے ۔ ایک دن اسمبلی میں وہ تقریر کرنے کھڑے ہوئے اور بیان کیا کہ قرآن مجید میں ہر زبان کے الفظ موجود ہیں اور مثال دی کہ قرآن میں انگریزی زبان کے الفاظ بھی ہیں اور پھر مثال کےلیے یہ آیت پڑھی ” فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ” اور فرمایا کہ آیت (ون حر) میں "ون” انگریزی زبان کا لفظ ہے ۔
ساروں کے منہ کھلے رہ گئے اور ان کے سامنے کون بولے ۔ میرے ذہن میں سوال آیا کہ خدا کو اپنی کتاب میں یہاں انگریزی کا "ون ” ڈالنے کی ضرورت کیا تھی ، کیا ” ایک ” کےلیے عربی زبان کے پاس لفظ نہیں ہے ۔ پھر جنہوں نے سب سے پہلے پڑھنا تھا انہوں نے انگریزی کے ون کا کیا کرنا ۔
جیسے آج کل کچھ حضرات قرآن سے بگ بینگ ( big bang ) نکلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔ بھائی جو قرآن مجید کے پہلے مخاطبین تھے ان کو مثالیں ہی وہی دی گئیں جو ان کی سمجھ اور حواس خمسہ کے دائرے میں آتی تھی ۔ جیسے اس سے سامنے بچھی زمین ، سر پر آسمان ، اونٹ ، شہد کی مکھی ، بادل ، بارش اسے کے کجھور کے درخت ، اس کی گزرگاہ پر ماضی کی بستیاں جن سے وہ واقف تھا ۔ اس نے بیگ بینگ سے کیا دلیل لینی ۔ سادہ سی بات کہہ دی کہ ایک دھماکے سے ہم نے اسے الگ کر دیا پھر چھ ادورا میں ان سب کی تخلیق کی ۔ بیگ بینگ قرآن سے نکالنا تو ایسے ہی ہے جیسے ہمارے پرنسپل نے قرآن سے انگریزی کا ” ون ” یعنی ” ایک ‘ نکالا ۔
ہمارے ایک دور پرے کے رشتے دار تھے میر صاحب ( نام لکھنا مناسب نہیں کیونکہ ابھی وہ کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور رابطے میں نہیں اس لیے ان سے اجازت نہ لے سکا ) لوگ انہیں کیمونسٹ ذہن کے کہتے تھے یا کمیونزم سے متاثر کہتے تھے یا طنزیہ "دانشور ” کہتے تھے ۔ وہ ایک دن دوکان پر آئے اور اسلام پر سوالات اٹھا دیے اور کہا کہ یہ نظام تو تیس سال بھی نہیں چل سکا کہ جنگ جمل اور صفین میں اس کو ماننے والے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے اور یہ اقتدار کےلیے لڑ رہے تھے ۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں ان کے سامنے کوئی عقلی دلیل نہیں رکھ سکا ۔ خلافت و ملوکیت ( مولانا مودودی رحمہ اللہ کی کتاب ) کی تلاش شروع کی اور اسے پڑھنا شروع کیا روایات ملتی گئی کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا ۔ خلافت تیس سال رہے گی پھر ملوکیت ، اہل بیت پر ظلم ہوا ۔
میں سوچ میں پڑ گیا کہ جو نبی ﷺ کے اپنے تربیت یافتہ تھے ان سے ایسا کام ہوا تو بعد میں ہم تک والوں پر گلہ کیا ۔ پھر کیا یہ نظام صرف تیس سال کےلیے تھا اس کے بعد پھر وہی پرانی ڈگر ۔ پھر یہ کیسا مضبوط نظام تھا کہ اس میں ایک خلیفہ کو دارالخلافہ میں قتل کر دیا گیا جبکہ ان کے دروازے پر حضرت علی رضی اللہ پہرہ دے رہے تھے ۔ پھر کیا خلیفہ کو تبدیل کرنے کا کوئی اور راستہ قتل کے سوا نہیں تھا کہ اگر خلیفہ سے آپ مطمئن نہیں تو کسی پرامن طریقے سے جسے آپ بہتر سمجھیں اسے خلیفہ بنا لیں ۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ کا قول موجود تھا کہ حضرت عمار بن یاسر کو باغی گروہ قتل کرے گا اس کے باوجود لڑائی جاری رہی ۔ کیا یہ قول ان ابتدائی دور کے لوگوں کے سامنے نہیں تھا ۔ پھر کیا یہ کوئی دینی مسئلہ تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف لڑنے والے ایک دوسرے کی امامت میں نمازیں بھی ادا کر رہے تھے ۔ پھر مولانا مودودی رحمہ اللہ نے حضرت علی کی طرف داری کی تو حضرت امیر معاویہ کے ایمان کو کہاں فٹ کریں بلکہ ان سب کے ایمان کو جن کے سامنے رسول اللہ ﷺ کا عمار بن یاسر رضی اللہ والا قول موجود تھا ۔ پھر صحابہ جو موجود تھے انہوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کی حکومت کو کیوں تسلیم کر لیا اگر حضرت امیر معاویہ میں بہت شدید خامیاں تھیں ۔
کیا یہ واقعی کوئی دینی مسئلہ تھا جس کےلیے ایک فریق کے حق پر ہونے کےلیے روایات پیش کی جا رہی تھیں ؟ نظام پر میری سوئی اس لیے اٹک گئی کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کی ساری دعوت ہی اس خلافت راشدہ کے نظام کےلیے تھی اور یہ میر صاحب اسی نظام کے متعلق کہہ رہے تھے کہ وہ تو صرف تیس سال ہی چلا اس کے بعد تو راستہ اس کے پاس بھی کوئی نہیں تھا اور سلطنت اتنی پھیل چکی تھی کہ روم اور ایران کے متمدن علاقے اس کے تحت ا چکے تھے ۔ اب یہ کوئی صرف عرب کے دو چار شہروں اور کچھ قبیلوں کے نخلستان پر مشتمل علاقے نہیں تھے اور نہ ہی ایسے علاقے تھے جن کےلیے کعبہ کی وجہ قریش کو کوئی تقدس حاصل تھا ۔ اب اردگرد موجود بڑی سلطنتوں کے سسٹم کو دیکھ کر ملوکیت ہی اختیار کرنی پڑی ۔ یعنی کیا اور کوئی اور نظام حکومت موجود نہیں تھا ۔
تعلیم سے جان چھڑانے کے بعد والد صاحب نے اپنے ساتھ دوکان پر بیٹھا دیا اور جماعت اسلامی نے فارم فل کروا کر رکن بنا دیا ۔ مولانا مودودی رحمہ اللّٰہ کی تقریبآ ساری کتب ہی میری پڑھی ہوئی تھیں ۔ ایک دفعہ میرے ٹیکسلا کالج کے کلاس فیلو شیخ صاحب جو امریکہ میں سیٹل تھے پاکستان آئے تو انہیں ملنے کےلیے گیا ۔ شیخ صاحب کی باتوں سے معلوم ہوا کہ وہ غلام احمد پرویز صاحب کی فکر سے بہت متاثر ہیں ۔ اور ان دنوں منکر حدیث کا فتویٰ مارکیٹ میں بہت مشہور تھا ۔ انہوں نے ( شیخ صاحب ) روایات پر سوالات اٹھانے شروع کیے ۔ میں نے واپس گھر آ کر مولانا مودودی رحمہ اللہ کی کتاب ” سنت کی آئینی حیثیت ” دوبارہ پڑھی اور پھر انہیں تحفتاً پیش کی ۔ لیکن اس میں خود ایک بات میرے ذہن میں اٹک گئی کہ نماز کے متعلق اتنی روایات موجود ہیں پھر نماز ایک جیسی کیوں نہیں ۔ وہ نماز جو رسول اللہ ﷺ نے دس سال مسجد نبوی میں خود پڑھائی اس کے بعد ابوبکر صدیق ، عمر فاروق ، عثمان غنی رضوان اللہ نے پڑھائی وہ کیسے مختلف ہو گئی وہ کہاں گئی ۔
کیا درمیان میں کوئی پچاس سال کا ایسا عرصہ بھی گزرا کہ مساجد خالی ہو گئیں اور مسلمانوں نے نماز پڑھنی چھوڑ دی پھر دو تین نسلیں گزر گئیں اور پھر محدثین کو وہ نماز کا طریقہ پوچھ پوچھ کر ڈھونڈ کر لانا پڑا اور جو طریقہ ڈھونڈا گیا وہ پھر جزیات میں ہر ایک کا مختلف ۔ پھر رفع الیدین کی روایات بھی کافی تعداد میں موجود ہیں تو میں جو بغیر رفع الیدین کے نماز پڑھتا ہوں تو اس کی دلیل کہاں سے لاؤں ۔ پھر کچھ اور روایات بھی موجود تھیں جن کا دفاع مولانا مودودی رحمہ اللہ نے کیا تھا جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ کی شادی کی چھ سال والی روایت ۔ جیسے حضرت عائشہ صدیقہ کا سوال کے جواب میں غسل عملی طور پر کر کے دکھانا ، جسے انہوں نے فٹ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ مجھے ہضم نہیں ہوئیں ۔ ہضم نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ پھر وہی بات کیا رسول اللہ ﷺ کے دور سے لوگ غسل نہیں کر رہے تھے یا غسل کرنا درمیان میں چھوڑ دیا گیا پھر بعد میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کے کسی کو خیال آیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ سے جا کر پوچھنا پڑا ۔
ہمارے علاقے میں شیعہ مسلک کے لوگ بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں بلکہ ہمارے گھر کے پاس دو امام بارگاہیں ہیں جن کے جلوس دیکھنے ہم بچپن سے جاتے تھے روایات تو ان کے پاس بھی موجود ہیں پھر وہ ہم کیوں تسلیم نہیں کرتے ۔ اگر ساری روایات کی جانچ پڑتال محدثین نے کی ہے اور قوی روایات ہی لی ہیں تو پھر ان شیعہ حضرات کی روایات کو ہم کیوں نہیں قبول کرتے ۔
2002 سے پہلے تک ٹیکسلا جو تاریخی شہر اور world heritage ہے یہاں بہت سیاح آتے تھے ۔ ہمارے ایک دوست نے ٹیکسلا میوزیم کے پاس ایک ہوٹل کرایے پر لیا تھا جس میں کھانے پینے کے ساتھ قیام کا بندوبست بھی تھا ۔ شام کو اکثر مختلف ممالک کے سیاح آ جاتے تھے جو کھانا بھی کھاتے اور رات قیام کر کے آگے کی طرف نکل جاتے تھے ۔ رات کا قیام یہاں اس لیے کہ یہ اسلام آباد کی نسبت سستا اور اسلام آباد کے قریب ہی تھا ۔ پھر جو بدھ مت سے تعلق رکھنے والے سیاح تھے وہ یہاں قیام کو با برکت خیال کرتے تھے ۔ میرا معمول تھا کہ میں مولانا مودودی رحمہ اللہ کی کتاب دینیات کا انگریزی ترجمہ اپنے پاس رکھتا تھا اور جو سیاح آتے ان کی دعوت کرتا گپ شپ لگاتا اور ایک کتاب تحفتاً دے دیتا ۔
ایک جاپانی لڑکی سے ملاقات ہوئی جو شمالی علاقہ جات سے واپس آرہی تھی کے سفر کے دوران پیش آنے والے مردوں کے رویے پر افسوس کر رہی تھیں ۔ میں نے اس سے بات چیت شروع کی اور بات یہ کی کہ آج یہ سب لوگ اچھے اور برے اعمال کر رہے ہیں کسی کا اسے صلہ مل جائے گا اور کچھ رہ جائیں گے اور جو صلہ ملے گا وہ بھی کیا اس کے عمل کے مطابق ہو گا ؟ اس نے سوچا اور کہا یہ تو ہے لیکن پھر اس کا کیا حل ہو گا ۔ میں نے کہا کوئی دن ہونا چاہیے جہاں حساب بند ہو جائیں اور ہر ایک کے عمل کو کوئی غیر جانب دار تول کر بدلہ دے دے ۔ یہ بات سن کر اس نے مجھ سے کہا اسے پھر بیان کرو میں نے اس بات کو پھر بیان کیا ۔ اور اسے سوچوں میں چھوڑ کر اور مولانا مودودی رحمہ اللہ کی دینیات کتاب دے کر اجازت لی ۔
اس سے میں نے اس کے مذہب کے متعلق بھی سوال کیا اور اس نے بتایا کہ وہ کسی مذہب کو نہیں مانتی ۔ لیکن یہ سوال پھر میرے ذہن میں آیا کہ اگر وہ کسی مذہب کو نہیں مانتی تو اچھے اور برے اعمال اور حساب کتاب لینے والی غیر جانبدار ہستی کے بارے میں اس نے سوال کیوں نہیں کیا کہ وہ ہستی کیا ہو گی کہاں سے آئے گی کیسے حساب کرے گی ، کیا معیار ہوگا جس پر ان اچھے برے کو تولا جائے گا جانچا جائے گا ۔ اور اچھے اور برے اعمال ہیں کیا ؟ اور اچھے کس معیار پر اچھے اور برے کس معیار پر برے ہیں ؟ یعنی وہ معیار کیسے طہ ہوگا ۔ پھر ایک خاص بات کہ اس ہستی کو اس مخلوق سے ماوراء بھی ہونا چاہیے کہ وہ ہر شخص کے ماضی کے اعمال سے واقف بھی ہو اور جس نیت سے وہ عمل اس نے کیا ہے اسے بھی صرف عام انسانی عدالتی جج کی طرح بیرونی قرائن سے نہیں بلکہ اندر کی نیت سے بھی بہت واضح جانتی ہو ۔ پھر گھر آ کر میں خود اپنے ذہن میں اس دن (قیامت ) کی ضرورت کے متعلق دلائل جمع کرتا رہا کہ وہ کیوں برپا ہو ۔
ایک فرانسیسی جوڑے سے ملاقات ہوئی جس نے آگے ایران کی طرف جانا تھا ۔ یہ بہت خوش اخلاق جوڑا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ ایران کے بارے انہیں جو معلومات ملی ہیں وہاں کا اسلام کچھ اور ہے اور بہت سخت متشدد ہے ۔ میں نے کہا وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس نے کہا اس مسلک کے لوگ تو تمہارے یہاں بھی ہیں تو کیا ان کے اصول کچھ الگ ہیں ۔ پھر اس کا سوال تھا ان کا اسلام الگ ہے کیا ؟ اس بات کا جواب میرے پاس بھی نہیں تھا ۔ مذہب کے بارے میں ان سے معلوم ہوا کہ وہ بھی کسی مذہب کو نہیں مانتے ۔ ان سے کچھ اخلاقیات پر باتیں ہوئیں جنہیں انہوں نے سراہا اور کہا یہ تو ہم سب قبول کرتے اور میں نے ان اخلاقیات کو دین سے جوڑ دیا ۔ انہیں بھی میں نے دینیات کا انگریزی ترجمہ دیا اور نیک خواہشات کا اظہار کر کے گھر آ گیا ۔ میں اپنے ذہن میں یہ سوال لے کر آ یا کہ یہ تو کسی مذہب کو نہیں مانتے تو اخلاقیات کے باب میں یہ اسلام کی باتیں کیوں قبول کر رہے ہیں ۔
بہت بعد کا واقعہ ہے کہ پاکستان میں ہمارے گھر کے باہر سے محرم الحرام میں بچوں کا ایک جلوس نکل کر گیا ۔ میری بیوی اور بچیاں چھت پر کھڑے اسے دیکھتی رہیں ۔ رات کو میں جب واپس آیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ علی علی پکار رہے تھا اور وہ علی کو پوجنے والے تھے ۔ اور میری بیوی نے سپیشل اس کی ویڈیو بھی بنائی تھی ۔ سوال اس نے کوئی نہیں کیا لیکن ایسی بات ، مجھے معلوم ہے ذہن پر نقش ضرور چھوڑ کر جاتی ہے اور سوال ضرور بناتی ہے ۔ میرے ذہن میں بھی سوال اٹھا کہ اگر یہ بھی اسلام ہے تو میں اس کو اپنی بیوی بچیوں کے سامنے کیسے بیان کروں گا ۔
ایک بار دو تائیوانی لڑکیاں اسی ہوٹل میں آ کر رات رکیں ۔ ان سے بات چیت ہوئی وہ شادی کےلیے پاکستان آئی تھیں چائنا کے راستے گلگت سے لاہور گئی تھی وہاں کوئی ان کے جاننے والے تھے جن سے انہوں نے شادی کرنی تھی ۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں ان کے گھروں کے رسم و رواج بہت عجیب ہیں اور یہ نیک بہت بنتے ہیں بدھ بھکشوؤں کی طرح تسبیح ہاتھ میں ہوتی ہے لیکن ایک دوسرے کے خلاف باتیں بناتے ہیں اور خود کو اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور دوسری نے تو بہت بڑا انکشاف شدید نفرت والے لہجے میں کر دیا کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں جیسے یہ اس کے نزدیک بہت بڑا جرم ہو ۔ میں نے ان سے بھی ان کے مذہب کے متعلق پوچھا تو ان کا جواب بھی وہی تھا کہ وہ کسی مذہب کو نہیں مانتی ۔ وہ تو چلی گئیں میرے لیے سوال چھوڑ گئی کہ یہ کسی مذہب کو نہیں مانتی تو جھوٹ سے شدید نفرت کا اظہار کس بنیاد پر کر رہی ہیں ۔ جو کہ ہمارے مذہب اسلام میں سخت گناہ ہے ۔ اگر یہ تاؤ ازم یا کنفیوشس کے ماننے والے معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں اور کنفیوشس کی تعلیمات میں یہ ناپسندیدہ ہے تو کنفیوشس یا تاؤ ازم کس بنیاد پر اس جھوٹ سے نفرت کی تعلیمات دے رہے ہیں ۔ یہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کی کتاب میں کہیں پڑھا تو تھا کہ شاید کنفیوشس اور بدھا بھی پیغمبر گزرے ہوں لیکن قرآن تو صرف عرب کے اردگرد ہی رسولوں کی روداد سناتا ہے ۔ صابیوں کا ذکر بھی کرتا ہے لقمان حکیم کا بھی ذکر کرتا ہے لیکن چائنیز جو اتنی بڑی قوم ہیں ان کا ذکر کہیں نہیں نہ ہی کسی عبادت گاہ کے کوئی ایسے آثار کہیں ہیں ۔ وہ تو بس فلسفے کی باتیں ہیں ۔ لیکن وہ باتیں بھی جن کو ہمارا مذہب اعلی اخلاقیات کہتا ہے وہ کنفیوشس اور تاؤ ازم والے کہاں سے لے کر آئے ۔
میرا چھوٹا بھائی جنوبی کوریا میں بہت عرصے سے ہے ۔ وہ ایک electro plating کی فیکٹری میں کام کرتے تھے مالکن کا ایک چھوٹا سا بیٹا تھا جو چھٹی والے دن فیکٹری آ جاتا تھا ۔ اور میرے بھائی کے ساتھ بھی کھیلتا تھا ۔ ایک دن کھیل کھیل میں میرے بھائی نے اسے کسی بات پر یہ مذاق میں کہہ دیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو ۔ اس بچے نے اچانک رونا شروع کر دیا اور اپنی ماں کے پاس چلا گیا اور بتایا کہ اس نے مجھے گالی دی ہے ۔ ماں نے پوچھا کیا گالی دی ہے بچے نے کہا اس نے مجھے جھوٹا کہا ہے ۔ یعنی جھوٹا کہنا بہت بڑی گالی ہے ۔ بھائی نے مجھے یہ واقعہ سنایا تو میرے ذہن میں یہ پھر سوال آ گیا کہ یہ تاؤ ازم کنفیوشس یا ارواح کی پرستش کرنے والے کے پاس جھوٹ ایک برائی ہے کی کیا بنیاد ہے یا دوسرے الفاظ میں اخلاقیات کے کیا اصول ہیں اور کہاں سے آئے ہیں ۔ جو ہمارے پاس وحی کے ذریعے پہنچے ۔ کیا وہ اخلاقی اقدار انسانیت کا ورثہ ہیں یا صرف وحی کے ذریعے آئے ۔
اسی عرصے میں ایک انڈیا کے سٹوڈنٹس کے گروپ سے ٹیکسلا میوزیم کے پاس دوست کے ریسٹورنٹ میں ملاقات ہوئی جو بدھا تہذیب کو دیکھنے آئے تھے لیکن ان کے ساتھ خفیہ اداروں کے اہلکار بھی تھے اس لیے صرف علیک سلیک ہی ہو سکی ۔ بہرحال وہ موٹر وے پروجیکٹ سے بہت متاثر تھے ۔
اسی دوران میرے بیرون ملک جانے کا بندوبست ہو گیا وہ ایسے کہ ہمارے ایک جاننے والے تائیوان میں تھے اور ان کے ساتھ جانا تھا ۔ انہوں نے حامی بھری اور ہم نے رخت سفر باندھ لیا ۔ انہوں نے کہا کہ فلپائن تک فلائٹ لے کر آنی ہے ۔ اور ہم نے بھی پاسپورٹ تیار کیا دو بیگ تیار کیے جن میں تمام موجود کپڑے جوتے بوٹ پالش کا سامان سمیث لیا اور اسلام آباد ائیر پورٹ پر آ گئے ۔ اس وقت ڈالر صرف ایک ہزار پاسپورٹ پر ملتے تھے لیکن وہ بھی امریکن ایکسپریس سے امریکن ایکسپریس کے چیک کی شکل میں اور پاسپورٹ پر انٹری ڈالی جاتی تھی کہ اس پاسپورٹ کو ہزار ڈالر کے چیک ایشو کیے گئے ہیں ۔ اس وقت تک فلپائن کا ویزہ نہیں تھا بلکہ on arrival ویزہ تین ماہ کا ایئرپورٹ پر دیا جاتا تھا ۔
میں فقط وہ بتارہا ہوں جو مجھے اپنی اوائل عمری میں پیش آیا ۔جس سادگی سے پیش آیا تھا اسے طرح پیش کردیا ۔تحریر سے کسی شخصیت کی توہین و تنقیص ہرگز مراد نہیں ہے۔