عدم اعتماد،عوام،حکومت اور اپوزیشن

متحدہ اپوزیشن کی طرف سےوزیرارعظم عمران خان کےخلاف تحریک عدم اعتماد اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانےکی ریکوزیشن جمع کروا دی گئی ہے۔جس میں مسلم(ن) کے ایاز صادق،مریم اورنگزیب،خواجہ سعد رفیق،رانا ثناءاللہ،پیپلزپارٹی کی طرف سےشازیہ مری،نوید قمر اور جے یو آئی(ف)کی طرف سے شاہدہ اختر علی،عالیہ کامران شامل ہیں۔تحریک پر 86 ارکان نے دستخط کیئے ہیں۔

دوسری طرف عمران خان نے کہا ہے کہ ہم مقابلے کیلئے تیار ہیں۔ اپوزیشن کو اس بار بھی شکست ہوگی۔یہ تو اب وقت ہی طے کرے گاکہ فیصلہ کس کے حق میں ہوگا۔لانگ مارچوں کی بھرمار ہےاور دوسری جانب اس وقت تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی ہے۔جب23 مارچ سے پی ڈی ایم کی تحریک کا اعلان بھی موجود ہے۔

حکومت کی تبدیلی اور کرسی کی لڑائی،مال بچاو،آل بچاو پروگرام اس وقت عروج پر ہے۔کہ ایک عالمی سطح پر نئی صف بندی جاری ہے تو دوسری جانب مارچ کے تیسرے ہفتےاسلام آباد میں او آئی سی کا اہم اجلاس ہونے جارہا ہے۔

حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر بد اخلاقی کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے ایک دوسرے پر وار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایک کرسی کی خاطر ضمیر کی آواز سنی ان سنی کی جارہی ہے۔یہ کرسی کا لالچ بھی ایسا ہے کہ انسان گرنے کی آخری حد کو چھونا چاہتا ہے۔

پہلی دفعہ 1989 میں غلام مصطفی جتوئی نے اپوزیشن کی مدد سے محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے کر آئے جو ناکام ہوئی،اس کے بعد 2006 میں وزیراعظم شوکت عیزیز کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی وہ بھی ناکام رہی۔جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں موجودہ وفاقی وزیر فوڈ سکیورٹی اور اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی فخر امام کے خلاف1986میں تحریک عدم اعتماد کامیاب رہی۔ اور اب عمران خان کی باری ہے۔دیکھتے ہیں،وقت کس کے حق میں فیصلہ کرتا ہے۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ اس بار اپوزیشن بالکل ایک پیج پر رہےکے آصف علی زرداری کی سربراہی میں پتے کھیل رہی ہے۔جس سے عمران خان بھی گھبرائے ہوئے لگ رہے ہیں۔اور آئے دن کسی نہ کسی اتحادی کے پاس جاکے منت سماجت کرتے نظر آتے ہیں۔اگر کچھ فیصلے خان صاحب نے وقت پر کیے ہوتے تو اج یہ نوبت ہی نہ آتی،ویسے اتحادی بھی ہیں بڑے سیانے وہ بھی دیکھ رہے کہ جس کا پلڑا بھاری ہوگا،اس میں چھلانگ لگا کے بیٹھ جائے گئے۔

گجرات کے چوہدریوں کے پاس گنی چنی چند سیٹیں ہیں لیکن رکھ رکھاو،بن بناو اتنا کہ سب کو لولی پاپ تھما دیتے ہیں،مونث الہی نے وزیر اعظم کو یقین دلایا ہے کہ ہم وعدوں کے پکے ہیں ہم آخر تک ساتھ نبھائےگئے۔14 سال بعد شہباز شریف سےمعلوقاتیں بھی اور حکومت کے ساتھ بھی،اپوزیشن سے وزارت اعلی بھی مانگی،لیکن کام نہ بنا۔چوہدریوں کی آس لاتے ہوئے زرادری سب پہ بھاری نے ایک اور پتا کھیلتے ہوئے جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ پی ٹی آئی میں علیم خان گروپ نمودار کروایا۔جس سے اپوزیشن پہلے سے مضبوط ہوئی۔پنجاب سے اییاشیاں اور کرسیوں کے نظارے ختم ہوتے دیکھ کر گجرات کے چوہدری پھر زرداری کے پاس پہنچے،لیکن انھوں نے آگے سے گھاس نہ ڈالی۔

ایم کیو ایم کا بھی اس وقت کوئی سر پیر نہیں کبھی کہیں تو کبھی کہیں،وزیراعظم سے جب ملتے ہیں تو ایک ادھ اپنا مطالبہ منوا کے پھر وہی رک جاتے ہیں۔اتحادیوں کو بھی پتا ہے کہ اپوزیشن پر بھی مکمل اعتبار نہیں کیا جاسکتا،چند عرصہ پہلے جیسے پی ڈی ایم بنی اور ٹوٹی اور سینٹ میں جو کچھ ہوا کسی سے کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔

وزیراعظم عمران خان بھی پہلے سے زیادہ گھبرائے گھبرائے لگتے ہیں۔ہر روز ایک نیا شوشا،نت نئے جلسے،اس کو نہیں چھوڑونگا،این آر او نہیں دونگا،سڑکوں پر نکلوں گا۔حکومت تو کیا جان بھی چلی جائے،چوروں سے لڑونگا۔اگر خان صاحب کو اپنے اوپر اتنا مان ہے ان کو لگتا ہے کہ ان کی مقبولیت عوام میں آج بھی ہے تو نیا میدان لگائے الیکشن ہو اور دوبارہ منتخب ہو کر،کرسی پر براجمان ہو جائے۔اور اپوزیشن کو بھی ٹھنڈ پڑجائے۔

اور یہ خون نچوڑ اپوزیشن اپنے اپنے مفاد،کرسی اور اپنے اپنے پیٹ بھرنے کیلئے اکھٹی ہوئی پھرتی ہے۔30 سال سے حکومت میں ہے کیا نظام بدلا،کیا پاکستان بدلا،زرداری کو سندھ میں 15 سال ہونے کو ہیں سندھ کا ایسا حال کردیا جو سوتیلی ماں سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی۔بات بات پہ جھوٹ،اور جھوٹ بھی ایسے کہ ان سے جھوٹ بھی شرمائے منہ چھپائے۔ان سیاسی جمہروں نے اپنے اپنے مفاد کے چکروں میں ملک کو کس نہج پر پہنچا دیا۔

اور آج بھی اس سے باز نہیں آتے،یہاں عمران خان سمیت جتنے بھی آئے ایک بس کے مسافر،ایک ہی منزل (کرسی) کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔اس ملک،عوام کا ذرہ بھر بھی احساس ان سب کو چھو کر نہ گزرا۔آج مہنگائی کس حد تک جاچکی،غریب عوام کتنی مشکل سے گزارہ کررہے،دو وقت کی روٹی کمانا،کھانا مشکل ہوگیا۔لوگ خودکشیاں کر رہے۔لیکن انھیں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کی لت لگی ہوئی ہے۔عوام رل جائے،مر جائے،بھاڑ میں جائےانھیں اس سے کوئی سروکار پہلے تھا،آج ہے نہ کل ہوگا۔

فرض کریں اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوبھی گئی،سادہ عام فہم بات ہے،کہ اگر ان کے نیوٹرل ہونے کے ساتھ ساتھ،جہانگر ترین گروپ،علیم خان اور ایک ادھ اتحادی نے ساتھ چھوڑ دیا،تو یہ تحریک ضرور کامیاب ہوجائے گی۔اور پاکستان میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ زرداری سب پہ بھاری نے نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھول کے رکھے ہوئے ہیں۔اس لئیے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے