معصوم عوام اور حکمران

ان دنوں سیاست کا ستارا گردش میں ہے ،نمبرز گیم کا کھیل کھیلاجا رہا ہے ،اب تک کوئی نہیں جان پایا کے کس کے کتنے نمبرز ہیں اور کون کس کی سائیڈ پر ہے، سب پریشان حال ہیں لیکن ظاہر یہ کیا جا رہا ہے کہ ہم تو مطمئن ہیں ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا البتہ ان کی زبان اور بوکھلاہٹ بتا رہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے،بلکہ ساری دال ہی کالی ہے.

سیاسی صورتحال روزبروز گھمبیر ہوتی جارہی ہے،متحدہ اپوزیشن پاکستان ڈیموکریٹک موؤمنٹ (پی ڈی ایم) وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاچکی ہے اور ساتھ ہی اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ کا اعلان بھی کرچکی ہے۔وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ میرے خلاف گہری سازش ہو رہی ہے اور میں اس سازش کاڈٹ کر مقابلہ کروں گا۔

سندھ ہاؤس کو ہارس ٹریڈنگ کا مرکز قرار دے دیا گیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتمادکو ناکام بنانے کیلئے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک میں دس لاکھ لوگ اکٹھے کرنے کافیصلہ کیا ہے.

سیاسی مخالفین کے متعلق جو زبان ہم سنتے آ رہے ہیں وہ بدصورتی و بدتہذیبی کا بدترین عکس ہے۔مولانافضل الرحمٰن اور باقی اپوزیشن کے متعلق یہ کیسی زبان استعمال کی جا رہی ہے کہ میرا پہلا نشانہ زرداری ہے، شوباز اور فضلو ڈیزل کو بھی نہیں چھوڑوںگا، ان کی گردنیں میرے ہاتھوں میں آگئی ہیں۔اس طرح اپوزیشن کا عمران خان کو یہودی ایجینٹ کہنا وغیرہ بڑا ہی نامناسب غیر اخلاقی عمل ہے.اختلاف اپنی جگہ لیکن اخلاقی گراوٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیئے . دراصل ہمارے سیاست دانوں کو کرسی کی لت لگ گئی ہے ،عجب دستور ہے کہ جو کرسی پر براجمان ہو جاتا ہے تو وہ اسے چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہوتا ،اور اسکے لئے وہ کسی بھی حد سے گزر جاتا ہے.

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان سب حکمرانوں کو اپنی ڈوبتی ناؤ تو دکھائی دیتی ہے مگر اپنے معصوم اور غریب عوام کا مستقبل دکھائی نہیں دیتا ، انھیں رتی برابر فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے ان اقدامات سے ان کی روزی روٹی پر کیا اثرات مرتب ہوں گئے،اگر سڑکیں ، دفاتر، ادارے ،اسکول اور اسپتال ان کے آپسی اقتدار کے چکر میں ایسے ہی بند ہوتے رہیں گئے تو یہ عوام تو بھوکھی مر جائے گی ،دہاڑی دار مزدور جس کے گھر کا چولہا اس کی یومیہ اجرت سے چلتا ہے اس کا کیا ہو گا کبھی سوچا ہے؟مگر آپ لوگ کیوں سوچیں گے آپ کو تو صرف سڑکیں بند کرنی آتی ہیں ،عوام کے پیٹ پر لات مارنی آتی ہے اور غریب عوام کو مزید پستی کی طرف دھکیلنا آتا ہے.

کبھی عرش پر کبھی فرش پر، کبھی ان کے در، کبھی در بدر
غم کرسی تیرا شکریہ، ہم کہاں کہاں سے گزر گئے

بہر حال موجودہ سیاسی صورتحال کو اتنا طول نہیں دینا چاہیئے کہ جس سے ہماری عوام پریشان اور ہمارا پیارا وطن عدم استحکام کا شکار ہوجائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے