چین میں گزرے 14 برس کا قصہ : روداد سفر (حصہ 11 )

ایڈیٹر نوٹ

شاکر ظہیر صاحب ، علمی اور ادبی ذوق کے مالک ایک کاروباری شخصیت ہیں . انہوں نے اپنی زندگی کے 14 برس چین میں گذارے . اس دوران انہوں نے چینی معاشرے ، نظام حکومت ، ثقافت سمیت پوری تہذیب کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے . اس سیریز میں انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات لکھے ہیں . ان کے مضامین روزانہ صبح گیارہ بجے (پاکستانی وقت کے مطابق ) آئی بی سی اردو پر شائع ہوں گے . آپ کمنٹ باکس میں ان سے سوال بھی کر سکتے ہیں اور اپنا فیڈ بیک بھی دے سکتے ہیں .

سبوخ سید : ایڈیٹر آئی بی سی اردو ڈاٹ کوم

جس ہوٹل میں ہماری رہائش تھی ، وہ ایسا ہی پرانا سا ہوٹل تھا جیسے لاہور ریلوے اسٹیشن پر حافظ ہوٹل ۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس کی دو بلڈنگز تھیں اور اوپر نیچے جانے کےلیے پرانی سی لفٹیں لگی ہوئی تھیں جو اوپر نیچے جاتے ہوئے لے میں جھٹکے بھی دیتی اور کچھ میوزک بھی سنانے کی کوشش کرتیں ۔ دونوں بلڈنگز کے درمیان ایک چھوٹا سا پارک بنا ہوا تھا ۔ اسی جگہ لوہے کی چادروں سے بنی ایک مسجد تھی ، اور اس کے ساتھ ایک روٹی کا تنور بھی لگا ہوا تھا جو ترک نسل کے چائنیز مسلمانوں کا تھا ۔ عقبی بلڈنگ کے کمرے رہائش کے لیے مختص تھے جبکہ سامنے والی بلڈنگ میں ھنڈی اور سامان کیری کرنے والے پاکستانیوں اور افغانیوں کے دفاتر تھے ۔

دوسری منزل پر پاک ریسٹورنٹ تھا ۔ ہوٹل کی دونوں بلڈنگ کے ساتھ ایک بینک اور چند چھوٹی دکانیں تھیں ۔ جہاں سے ضرورت کچھ چیزیں دستیاب ہوتی اور موبائل بیلنس کی سہولت موجود تھی ۔ بینک والوں کا اور ان دکانداروں کا واسطہ زیادہ تر پاکستانی اور افغانیوں سے ہی پڑتا تھا ۔ اس لیے وہ تقریباً سبھی کو جانتے تھے ۔ ایک دوکان پر سیلز مین لڑکی تھی جس کا بوائے فرینڈ ایک افغانی تھا ۔ ایک دن وہ لڑکی بیٹھی رو رہی تھی ۔ اس سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ اس کا بوائے فرینڈ واپس افغانستان چلا گیا ہے ۔اسے معلوم ہے کہ میں پریگننٹ ہوں لیکن وہ کہتا ہے کہ اسقاط حمل (abortion) کروا لو ۔ کچھ عرصہ افغانستان گزارنے کے بعد جب وہ افغانی واپس آیا تو اس نے بتایا کہ افغانستان میں ہی اس کے گھر والوں نے اس کی زبردستی شادی کروا دی ہے ۔ اب وہ اس سے شادی نہیں کر سکتا ۔ وہ لڑکی اتنی دلبرداشتہ ہوئی کہ اس نے خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی ۔ بعد میں اس کی ایک دوست اسے واپس اس کے اپنے شہر لے گئی ۔

ایوو شہر کو ایک چھوٹا سا قصبہ ہی سمجھ لیں جس کے اردگرد چھوٹی گھریلو صنعتیں موجود تھیں، اور ایک بہت بڑی مارکیٹ تھی جسے اس صنعت کا شوروم سمجھ لیں ۔ ساری دنیا سے کسٹمر اس مارکیٹ میں آتے اور اپنی ضرورت کی چیز پسند کرتے اور کچھ رقم ایڈوانس دے کر سامان بک کروا لیتے ۔ دوکاندار اسے بتا دیتا کہ وہ کس دن مال ڈیلیور کر سکتا ہے ۔

ایوو شہر

ناشتہ کر کے ہم ہوٹل سے نکلے ، ٹیکسی پکڑی اور مارکیٹ کے دروازے پر اتر گئے ۔ یہ بہت بڑی مارکیٹ ہے جس کے چار فلور ہیں اور کئی سیکشن ہیں ۔ ہر سیکشن میں الگ آئٹم موجود ہوتے ہیں ۔ ایک سیکشن صرف ڈیکوریشن پیس کا تھا ، ایک الیکٹرونکس کا ، ایسے ہی دیگر اشیاء کے سیکشن ۔ ٹیکسی پر بیٹھا تو احساس ہوا کہ ڈرائیور بہت عجیب سا ہے اور اس کا رویہ اور بات کرنے کا انداز ایسا ہی ہے جیسے راولپنڈی گنجمنڈی میں رکشے والوں کا چھوٹا سا شہر تھا ، ہوٹل سے پیدل بھی پندرہ منٹ میں مارکیٹ کے دوسرے سرے پر پہنچ جاتے ہیں ۔ بہرحال مارکیٹ بہت خوبصورت اور صاف ستھری تھی ۔ چھوٹے چھوٹے شیشے کے بوتھ بنے ہوئے تھے جس میں صرف سمپل ڈسپلے کئے ہوئے تھے ۔

مارکیٹ میں داخل ہوتے ہی شیخ صاحب نے کہا کہ یہ مارکیٹ ہے اس میں آپ اپنا کام کریں اور ہم اپنا ۔ پھر واپس ہوٹل جاتے وقت دروازے کا نمبر بتا دوں گا آپ وہاں آ جائیے گا ۔ میں مارکیٹ میں ادھر ادھر گھومنے لگا اور دو تین گھنٹے گھومتے پھرتے گزر گئے کہ شیخ صاحب کا فون آ گیا کہ انہیں میری ضرورت پڑی گئی ہے ۔ کیونکہ میں چائنیز زبان سے واقف تھا ۔ میں دوکان کا نمبر پوچھ کر وہاں پہنچ گیا ۔ ٹافیاں بسکٹ اور پستہ بادام میز پر پڑے تھے اور ایک خوبصورت لڑکی بھی بیٹھی تھی جس کے ساتھ شیخ صاحب اردو میں گفت و شنید کی کوشش کر رہے تھے ۔ شیخ صاحب کی اردو میری سمجھ سے بھی باہر تھی تو اس چائنیز لڑکی کو جو اردو کی ابجد نہیں جانتی تھی ، کیا سمجھ آتی ۔

خیر شیخ صاحب نے جو کہا ، میں نے اس لڑکی کو سمجھا دیا ۔ ہماری گفتگو کے دوران بھی شیخ صاحب مزے لیتے رہے ، کبھی ا س لڑکی کا ہاتھ پکڑ رہے ہیں ، کبھی بازو ۔ لیکن اس لڑکی کی نظر بس بل پر ہی تھی ، جو بڑھتا ہی جا رہا تھا ، ہو سکتا ہے اس بل میں ساتھ ساتھ ان مزوں کے پیسے بھی ایڈ ہوتے جا رہے ہوں ۔ بل بنانے کے بعد اس نے بتایا کہ پیسے وہ مال ڈیلیور کرتے وقت گودام میں ہی وصول کرے گی ۔ میں نے اس سے کہا ظاہر ہے ایسا ہی ہوگا ۔ اس لڑکی نے کہا کہ شیخ صاحب سے پوچھ لو ۔ شیخ صاحب نے جواب دیا کہ نہیں ، پیسے ہوٹل کے کمرے میں دوں گا ۔ یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی ، شاید یہاں ادھار بھی چلتا ہو ۔

بہرحال پہلا دن مارکیٹ میں گزرا ۔ شام پانچ بجے مارکیٹ بند ہو جاتی ہے اور لوگ نکل کر گھروں کی طرف ۔ اس وقت آپ پیدل ہی جائیں تو اپنی منزل پر جلدی پہنچ جاتے ہیں بجائے ٹیکسی یا بس کے ۔ اس وقت روڈ کی حالت رش کی وجہ سے قابل دید ہوتی ہے۔ شام کو کھانا کھایا ، شیخ صاحب کو ساتھ لے کر نکلے اور ایک نائٹ مارکیٹ پہنچ گئے ۔ یہ مارکیٹ ایک ایسی روڈ پر لگتی تھی جسے شام کو ٹریفک کےلیے بند کر دیا جاتا ہے ۔ لوگ سائیکل رکشہ میں اپنی پوری دکان اٹھا کر لاتے ہیں اور اپنے نمبر جو روڈ پر لگا ہوتا ہے دوکان لگا دیتے ہیں ۔ خریداروں میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو دوسرے شہروں سے مزدوری کےلیے یہاں آئے ہوتے ہیں ۔ غیر ملکیوں میں زیادہ تعداد پاکستانی ، افغانی ، اور عرب ممالک کے لوگوں کی ہوتی ہے جو واپسی پر اپنے گھروں کےلیے مختلف چیزیں خریدتے ہیں ۔ وہاں بہت سے غیر ملکی ایسے بھی ہوتے ہیں جو محض ٹھرک جھاڑنے ہی آتے ہیں ۔ بہرحال یہ جگہ بھی کاروباری لحاظ سے بہت بہترین ہے کہ دن کو کہیں اور کام اور شام کو یہاں کچھ کاروبار کر لیا اور روزی روٹی کما لی ۔ مارکیٹ کے کونے میں کچھ وہ بھی ہوتے ہیں جو اپنی کاروں کے بونٹ اور چھتوں پر چیزیں ڈسپلے کر کے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ کچھ لڑکے لڑکیاں جو کالج سکول کے سٹوڈنٹ ہوتے ہیں ، زمین پر کپڑا بچھا کر کچھ کھلونے وغیرہ بھی بیچتے ہیں ۔ میرا اس شہر میں ٹریڈنگ کمپنی شروع کرنے کا ارادہ تھا ۔ اس کےلیے ایک مکان کرایے پر لیا اور ایک ایجنٹ کے ذریعے سے بزنس ویزہ لگوا لیا ۔

میں کبھی کبھار تنہائی میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم وہ خاص امت تھے جنہیں لوگوں کی بھلائی کےلیے اٹھایا گیا اور لوگوں تک دین پہنچانے کی ذمہ داری لگائی گئی ۔ لیکن یہاں آ کر ہم لوگ اپنا اور اپنے مذہب کا کیا امیج پیش کر رہے ہیں ۔ ہم کیا جواب دیں گے کہ ہمیں اللہ نے ایک موقع دیا کہ ہم اپنے مذہب کا تعارف غیر مسلوں کے سامنے پیش کرسکیں ، کیا ہم نے ایسا کیا ؟ میں صرف پاکستانی اورافغانی مسلمانوں کی بات نہیں کر رہا یہاں تو دنیا کے ہر ملک کے مسلمان موجود ہیں ۔ یہاں قدم پر بکھری عجیب و غریب کہانیاں ہیں ۔ ہر ایک کے پاس اپنی الگ کہانی ہے ۔ کیونکہ یہاں لوگ عرصہ دراز سے رہ بھی رہے تھے اور محنت مزدوری کے بجائے کاروبار کر رہے ہیں ۔ یہی پیسہ ہے جو ایک سے ایک کہانی تخلیق کر رہا تھا ۔ ان تمام تر کہانیوں کے ساتھ سب کی زبان پر تھا کہ یہ مسلمان ہیں یہ سور نہیں کھاتے یہ اسے حرام کہتے ہیں ۔ کیا یہ سور بھی اتنا ہی حرام ہے جتنا زنا ، دھوکہ ، فراڈ ، جوا ، حق تلفی، ناحق زیادتی ۔ یا پھر یہ مسلمانوں کا ایک انتخابی نشان ہی ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں اور سور نہیں کھاتے ۔ کیا ہمارا دین بس اتنا ہی ہے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے