وزیراعظم عمران خان کی بڑی صفت ہے۔ وہ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرسکتے ہیں ۔
ان کے ہمدرد صحافی اور اینکرز انہیں بڑے عرصے تک ایک سادہ لوح انسان بنا کر پیش کرتے رہے جسے دنیا یا لوگوں کا زیادہ پتہ نہیں تھا۔ انہیں جو چاہتا ہے باتوں میں آگے لگا لیتا ہے۔وہ ہر کسی کی بات پر یقین کر لیتے ہیں۔ سادہ طرز زندگی ہے۔ کسی ہوٹل پر پڑی چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتے ہیں اور اگر نیند آرہی ہو تو وہیں اسی ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر سو بھی جاتے ہیں جس کے ثبوت کے لیے ان کے پاس تصویریں بھی تھیں۔
ان کی ایک اور خوبی کو بھی بڑا بیچا گیا کہ وہ کسی کو چائے تک نہیں پلاتے۔ خود کھانا کھاتے رہتے ہیں اور سامنے بیٹھے بندے سے پوچھتے تک نہیں۔ اس مزاج کو ان کی بڑی انسانی خوبی بنا کر پیش کیا گیا۔ واہ کیا بات ہے اس بندے کی جو نہ کسی کو چائے پلاتا ہے نہ کھانے کا پوچھتا ہے ایسا ہی حکمران یہ قوم تلاش کررہی تھی۔ وہ قوم جو یہ باتیں درسی کتب میں پڑھ پڑھ کر جوان ہوئی تھی کہ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر ٹوپیاں سی کر اپنا خرچہ پورا کرتا تھا۔ وہی سادہ حکمران جس نے اقتدار کے لیے بھائیوں کو جنگوں میں قتل کیا اور بھتیجوں کے سر قلم کرائے۔
یاد آیا چند برس قبل میجر عامر کے گھر دوپہر کو بیٹھے تھے کہ ان کے دوست خواجہ ہوتی غصے میں اندر داخل ہوئے اور میجر عامر کو پشتو میں کہا یار جلدی سے کھانا کھلائو۔ کھانا میز پر لگ گیا تو غصے میں عمران خان کو صلواتیں سنانے لگے۔ میجر عامر نے پوچھا خیریت کیا ہوا؟ وہ نئے نئے PTI میں شامل ہوئے تھے۔ خواجہ صاحب بولے یار یہ عمران خان کیا چیز ہے؟ آج ہماری پارٹی کے سینر لوگوں کا اجلاس تھا۔اجلاس لمبا چلا۔ سب کو بھوک لگ رہی تھی۔ ہمارا خیال تھا کچھ کھانے کا بندوبست ہوگا۔اسی وقت ایک بندہ تین برگر لے آیا۔ عمران خان نے ایک برگر خود کھانا شروع کر دیا، دوسرا جاوید ہاشمی اور تیسرا شاہ محمود قریشی کو دے دیا۔وہ تینوں برگر کھاتے رہے اور باقی لوگ انہیں دیکھتے رہے۔ خواجہ صاحب بولے یار مجھے کہہ دیتے سب کے لیے برگر منگوائو میں سو برگرز اسی وقت منگوا دیتا۔ مجھے کہتے میں سب کے لیے کھانا منگوا دیتا۔یہ کیسا بندہ ہے اپنے لیے برگر منگوا کر کھا رہا ہے اور باقی منہ تک رہے ہیں۔ خواجہ ہوتی نے اور بھی بہت کچھ کہا اور اس نے پارٹی چھوڑ دی کہ ہم پشتون اس کلچر میں ان فٹ ہیں کہ بندہ خود کھاتا رہے اور باقی منہ تکتے رہیں۔
عمران خان کو اتنا سادہ سمجھ لیا گیا تھا کہ دانشوروں، کالم نگاروں اور اینکرز کی پوری فوج نے اپنے ذمے ٹھیکا لے لیا کہ عمران خان تو سادہ انسان ہے کہیں کوئی اسے غلط راہ پر نہ ڈال دے لہذا ہر ایک ان کا مشیر بن گیا، کوئی کمیٹی کا سربراہ تو کوئی ممبر بن گیا کہ عمران خان سادہ ہے اسے دنیا کا کچھ پتہ نہیں کہیں غلط ہاتھوں نہ لگ جائے۔
آج وہی بھولا عمران خان ہر بات میں کہتا ہے اسے سب پتہ ہے۔ وہ مغرب کو زیادہ جانتا ہے۔ وہ جمہوریت کو زیادہ جانتا ہے۔بھارت،امریکہ اور یورپ کو زیادہ جانتا ہے۔وہی عمران خان جسے پورا پاکستان سادہ سمجھتا تھا وہ آج انہیں روز ایک ہی تقریر بار بار سناتا ہے کہ وہ کتنا ذہین انسان ہے کہ وہ سب جانتا ہے۔ وہی عمران خان جس نے سائیکل پر دفتر آنا تھا وہ اب ہیلی کاپٹر سے نیچے نہیں اترتا۔ اس وقت جنوبی کوریا وزیراعظم کے استحفی کا ذکر ہوتا جس نے کشتی حادثے پر استحفی دے دیا تھا۔ یہاں ساہیوال میں پوری فیملی اڑا دی گئی، پشاور مسجد میں ساٹھ لوگ مارے گئے لیکن وزٹ تک نہیں کیا۔
وہ صحافی جو اسے بھولا سمجھتے تھے ان کے لیے اس نے پیکا قانون بنوایا کہ اگر خبر غلط نکل آئی تو انہیں پانچ سال کے لیے جیل بھیجا جائے گا حالانکہ خود وہ جلسوں میں ہر مخالف پر الزامات کی بارش کرتے رہے۔
آج وہ ضمیر فروشوں کے خلاف ہیں اور درست خلاف ہیں لیکن جب یہی ضمیر ان کی پارٹی آصف علی زرداری کے ساتھ 2017 کے سینٹ الیکشن میں چئرمین بنوانے کے لے بیچ رہی تھی اس وقت کوئی مسلہ نہیں تھا۔ اس وقت نواز شریف کے خلاف عمران خان اور زرداری متحد تھے جیسے آج زرداری اور شریف عمران خان کے خلاف متحد ہیں۔ اسی زرداری پارٹی کے سینٹر سلیم مانڈوی والا کو سینٹ کے ڈپٹی چئرمین الیکشن میں PTI نے ووٹ ڈالے۔ آج اسی زرداری ساتھ دشمنی چل رہی ہے۔ عمران خان نے اس وقت زرداری کے ڈپٹی چیرمین کو ووٹ دینے کو جائز قرار دیا تھا اور آج وہ جب زرداری کو سب سے بڑی بیماری قرار دیتے ہیں تو بھی خود کو ٹھیک سمجھتے ہیں۔ابھی بھی لوگ انہیں بھولا سمجھتے ہیں۔
یہ خوبی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی بات کو غلط اور دوسرے لحمے درست ثابت کر سکیں۔ یہ ذہین لوگوں کی نشانی ہوتی ہے۔ جو عمران خان کو جاننے کا دعوی کرتے تھے وہ اس عمران خان کو نہیں جانتے جو اس وقت وزیراعظم ہے۔
اپوزیشن میں تھے تو کہتے تھے یورپ لندن میں یہ ہوسکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم بنے تو یورپ کی برائیاں شروع کر دیں کہیں پاکستانی یورپ ہی مانگنا شروع کر دیں جو وہ اپوزیشن تقریروں میں انہیں دکھاتے تھے۔ وہی یورپ برا لگنے لگ گیا۔
آج کل انہیں یورپ پر پیار آیا ہوا ہے کہ اگر وہاں دس بیس لوگ وزیراعظم خلاف “بک “ جاتے تو قیامت آجاتی۔ وہ یہ نہیں بتاتے وہاں بکنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ وزیراعظم کو پتہ چل جائے ان کی پارٹی ممبران اس سے ناخوش ہیں تو وہ خود مستحفی ہوجاتا ہے۔ پچھلے سال اعتماد کا ووٹ لیا تو تقریر کی جس کا دل چاہے ان کے خلاف ہاتھ کھڑا کر دے۔ وہ ناراض نہیں ہوں گے۔ آج چند ممبران نے سرعام ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں تو کہتے ہیں وہ سب ضمیر فروش بک گئے ہیں۔
اس وقت عمران خان کہتے تھے لوگ اچھے امیدواروں کو ووٹ نہیں ڈالتے۔ یہ کرپٹ لوگ جانتے ہیں الیکشن کیسے جیتا جاتا ہے۔ اب کہتے ہیں ان کرپٹ لوگوں کو ووٹ پی ٹی آئی کی وجہ سے پڑے تھے۔ اگر امیدواروں کو ووٹ پی ٹی آئی کی وجہ سے پڑنے تھے تو پھر ان کرپٹ کو کیوں پارٹی میں لانا پڑا؟ آپ تو بھٹو کی طرح پھر کھمبے کو بھی کھڑا کرتے تو وہ جیت جاتا۔
اب ان ضمیر فروشوں کو کہا جارہا ہے کوئی بات نہیں جو آپ نے کروڑں روپے لے کر ضمیر بیچا ہے وہ پیسے بھی اپنے پاس رکھیں لیکن واپس آ جائیں تاکہ وہ وزیراعظم رہیں۔ جس طرح وزیراعظم فرما رہے تھے لوگ ان کے بچوں سے شادیاں نہیں کریں گے اس پر مجھے ہنسی کا دورہ پڑا۔ انہیں کس نے کہا ہے کرپٹ لوگوں کے بچوں سے معاشرہ شادی کرنا برا سمجھتا ہے؟ لوگ تو ڈھونڈتے ہیں کوئی تگڑی پارٹی ہاتھ لگے۔ خود خان صاحب نے کتنے کرپٹ لوگوں کو خود سے دور رکھا ہے یا انہیں برا سجھتے ہیں ؟ خان صاحب بارے تو مشہور ہے کہ جب تک کوئی بہت زیادہ امیر نہ ہو یا تگڑا چندہ نہ دے سکتا ہو اسے قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ یہ تفریق تو خود خان صاحب نے ختم کر دی تھی کہ انہیں کرپٹ یا بددیانت لوگوں کے ووٹس لے کر وزیراعظم نہیں بننا۔ یہ معاشرہ تو کرپٹ لوگوں کے آگے بچھ بچھ جاتا ہے۔ اور خان صاحب فرماتے ہیں ان کے بچوں ساتھ کوئی شادی نہیں کرے گا۔
مجھے ہنسی ان پر آرہی ہے جو ساری عمر قوم کو سمجھاتے رہے کہ عمران خان سادہ انسان ہے۔ وہ بہت چالاک لوگوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ لیکن ماضی کے اس سادہ انسان نے سب پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ سب سے زیادہ سمجھدار ہے اور سب سمجھتا ہے اور پوری دینا کو دنیا سے زیادہ جانتا ہے۔ جس سقراط کا پچھلے دنوں ایک تقریر میں حوالہ دے رہے تھے اس کا مشہور زمانہ فقرہ بھی بھول گئے “مجھے ایک ہی بات کا پتہ ہے کہ مجھے کچھ پتہ نہیں”۔
اب خان صاحب کی تقریر اس جملے سے شروع ہو کر اسی جملے پر ختم ہوتی ہے کہ “میں سب جانتا ہوں اور پوری دنیا سے زیادہ جانتا ہوں”۔
اس ملک کی بدقسمتی ہے ہم جنہیں رول ماڈل سمجھتے ہیں، مہان سمجھتے ہیں،خود سے بہتر انسان سمجھتے ہیں وہ آخر پر ہمارے جیسے ہی نکلتے ہیں۔ جب کردار دکھانے یا اپنے کہے پر عمل کرنے کی بات آتی ہے تو ہم سب دھڑام سے نیچے گرتے ہیں۔ اس قوم کو اگر کوئی درست سمجھا ہے تو وہ اور کوئی نہیں ہمارے پیارے عمران خان نے سمجھا ہے جو سب جانتے ہیں۔ وہ عمران خان جنہوں نے اپنا سفر یہ کہہ کر شروع کیا تھا کہ انہیں کچھ نہیں پتہ اورسادہ ہیں اور آج وہ کہتے ہیں وہ سب جانتے ہیں، پوری دینا کو دنیا سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ اور تو اور وہ انگریزی بھی دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔