23مارچ1940کو قراردادلاہور منظور ہوئی،جسے قراردادپاکستان بھی کہاجاتا ہے۔اس دن کی یاد کو تازہ کرنے اور اپنی آنے والی نئی نسلوں کے دلوں میں اس دن کی یاد کو اجاگر کرنے کیلئے ہر سال کی طرح کل23مارچ کو ایک نئے جذبے اور ولولے سے اسلام آباد پریڈ گراونڈ میں یہ دن منایا گیا۔جس میں آو آئی سی کانفرنس میں آئے مختلف اسلامی ممالک کے وزراءخارجہ نے بھی شرکت کی۔
سب سے پہلے تو یہ اچھا ہوا کہ یہ آو آئی سی کانفرنس خیروعافیت سے ہوگئی،اور آنے والے مہمان بھی واپس حفاظت سے لوٹ رہے ہیں۔کیونکہ کہ ہمارے کچھ ننھے منھے جمہورے کہنے لگے کہ دیکھتے ہیں یہ کانفرنس کیسے ہوتی ہے۔اور دوسری طرف سے آواز آئی کہ کانفرنس کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا۔
ان سب کو یہ نہیں پتا کہ یہ کانفرنس کسی ایک فرد کسی ایک ملک کیلئے نہیں اور نہ عمران خان کے لئے سجائی گئی بلکہ یہ کانفرنس تو تمام اسلامی ملک کی بہتری اور فلاح کیلئے تھی۔
اسلام آباد میں کل عمران خان نے صحافیوں سے ملاقات کی ہے۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ میں لڑائی سے پہلے ہاتھ نہیں کھڑے کرونگا۔اپوزیشن اپنے سارے پتے کھیل چکی،میں اپنا پتا آخری دن کھیلوں گا۔استعفی کی بجائے سرپرائز دونگا۔وغیرہ وغیرہ۔
بلاول بھٹو نے کل مالاکنڈ میں ہونے والے جلسے میں جیسی زبان استعمال کی،سب نے سنی۔
یہ آگ دونوں طرف پھیلی ہوئی۔اور حالات گھمبیر سے گھمبیر ترہوتے جارہے ہیں۔کل25مارچ کو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اجلاس بھی بلا رکھا ہے۔اب نجانے کیا ہوتا ہے۔دوسری جانب اپوزیشن نے26مارچ اور عمران حکومت نے27مارچ کو اقتدار شہر میں عوامی پاور شو کرنے کا اعادہ کررکھا ہے۔
سیاسی صورتحال میں اس قدر بے یقینی آچکی ہے کہ اگلے لمحہ کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔واقعات اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ ہر نیا لمحہ کسی انہونی کا پتہ دے رہا ہے۔
[pullquote]اب آجائیں صدارتی ریفرینس پر[/pullquote]
حکومت کی جانب سے دائر کیے جانے والے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے رائے مانگی گئی ہے کہ کوئی رکن اسمبلی پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے عدم اعتماد میں ووٹ دے تو کیا اس کے خلاف کوئی قانونی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی؟اسے ڈی سیٹ نہیں کیا جاسکتا؟سپریم کورٹ سے پوچھا گیا ہے کہ جو رکن پارٹی پالیسی کے خلاف جائےاور ثابت ہوجائے کہ رکن اسمبلی نے آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کی ہے۔تو کیا ایسے رکن کو تاحیات نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔چوتھے سوال میں سپریم کورٹ سے یہ رائے مانگی گئی ہے کہ ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو کسے روکا جاسکتا ہے۔موجودہ آئینی ڈھانچے میں اس کے لئیے کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں کہ اس فلورکراسنگ کو روکاجاسکے۔
اس کے برعکس سپریم کورٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کو تحریری جواب جمع کروانے کا کہا ہے۔اس لئیے یہ اب طے ہوچکا ہے کہ اب سب سیاسی جماعتوں کو جواب جمع کروانا ہوگا۔کہ کون سی سیاسی جماعت فلور کراسنگ کو جائز سمجھتی ہے اورکون سی سیاسی جماعت فلورکراسنگ کے خلاف کھڑی ہے۔
منحرف ارکان تاحیات نااہل ہونگے یا دوبارہ الکیشن لڑ سکیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال پانچ رکنی بنچ کے تحت صدارتی ریفرینس کی سماعت آج کررہے ہیں۔
منحرف ارکان اب کھل کر آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں۔اتحادی بھی کوئی سیدھی بات ابھی تک کسی کو نہیں پکڑا رہے۔کیونکہ اتحادی اپوزیشن اور حکومت سے زیادہ سیانے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے تحریک عدم اعتماد میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے تاکہ اسے سندھ میں ‘اسپیس’ مل سکے۔صوبائی وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی جو متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف سخت زبان رکھتے تھے۔لیکن اعلی قیادت کے سمجھانے کے بعد اب وہ بھی کافی ٹھنڈے نظر آتے ہیں۔اور ان کا تو مزید کہناتھا کہ ایم کیو ایم کے تمام مطالبات قابل قبول اور قابل عمل ہیں۔
گجرات کے چوہدری بھی نجانے کس تاک میں بیٹھے ہیں کبھی ان کا جھکاؤ حکومت کی طرف،تو کبھی اپوزیشن کی جانب ہوتا ہے۔
لیکن چند ہی دنوں میں اس تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ بھی ہوجائے گا۔اور اس ڈھول کی آواز سے کان پک گئے ہیں۔امید ہے یہ اس ہفتے پھٹ جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ تحریک کامیاب ہوبھی جائے تو پاکستان کے حق میں کیا یہ بہترہوگا؟ کیا معشیت صحیح ڈگر پر آجائے گئی؟غریب عوام کے سب مسائل حل ہوجائے گئے؟یا ہرطرف دودھ شہدکی نہریں بہنے لگ جائے گی۔
لیکن ان سب جمہوریت کی ج سے بھی ناواقف جمہوروں کو یہ بات کون سمجھائیں کہ سب اکھٹے مل بیٹھ کے ہم پاکستان کی بہتری کیلئے سوچیں،اس میں بسنے والے باسیوں پر بھی کچھ ترس کھائیں اور ذاتی مفاد کی بجائے ملکی مفاد کو ترجیح دیں۔
ایک طرف سے آواز آتی ہے کہ میں سرپرائز دونگا۔دوسری طرف سے آواز گونجتی ہے کہ ہم بڑا سرپرائز دیں گئے۔کاش کہ کہیں سے یہ آواز بھی آجائے کہ جس’پاکستان’ اور اس میں رہنے والے لوگوں کو ہم دہائیوں سے رسوا کررہے ہیں۔اس بار پاکستان اور پاکستانی عوام کیلئے ہم سرپرائز لے کے آئیں گئے۔تاکہ پاکستان میں صحیح معنوں میں جمہوریت پروان چڑھے۔اور غریب عوام بھی اب سکھ کی زندگی بسر کرے گی۔کاش۔۔۔کہیں سے تو ایسی بھی آواز آجائے۔