اب فیصلہ عوام کرے گی۔

اسمبلیاں تحلیل ہوگئی ہے۔اب سب کو چپ سی لگ گئی ہے۔ جس عدم اعتماد کا ڈھنڈورا مارچ کا پورا مہینہ پیٹا گیا،وہ اپنے اختمام پر پہنچا، اب ہر کسی کی نظریں سپریم کورٹ پر ہے۔ یہ مارچ کا پورا مہینہ ہی ملک میں ایک سیاسی ہل چل رہی ہے۔کبھی ادھر سے شوشہ تو کبھی کہیں سے کوئی شوشہ آتا رہا۔اقتدار کی خاطر اس ایک مہینہ میں کیا کچھ نہ ہوا۔

اور یہ پورا مہینہ ہی تحریک عدم اعتماد کی نظر ہوا۔لیکن آخر پہ یہ انکشاف ہوا،کہ یہ تو ایک عالمی سازش کے تحت ہورہا ہے جس میں پاکستان کے اندرونی کرادر بھی شامل ہیں جو عمران خان کی حکومت کے خلاف ہیں۔اور اس حکومت کا تختہ الٹ کرنے میں مصروف عمل ہے۔

8مارچ کو پی ڈی ایم کی طرف سے قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔تحریک پیش ہونے کے بعد 14دن کے اندر اندر اجلاس بلا کے ووٹنگ کروانی ہوتی ہے لیکن آو آئی سی کانفرنس کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ایک دو اجلاس ہوئے لیکن ملتوی ہوگئے۔اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے کچھ ہی دن پہلے حکومت پاکستان کو سفارتخانے سے ایک دھمکی آمیز خط موصول ہوا۔جو عسکری حکام سے بھی شئیر کیا گیا۔جس میں یہ واضح درج تھا کہ پاکستان اب جو اپنی خودمختار خارجہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔امریکہ اس سے ناخوش ہے اور اس خط میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ سب کچھ پاکستان کیلئے آنے والے وقت میں بالکل ٹھیک نہیں ہوگا۔پاکستان کو اس کے برعکس برے نتائج بھگتنے ہوگئے۔اور پاکستان میں جو عدم اعتماد ہونے جارہی ہے۔اگر تو وہ کامیاب ہوگی،تو سب معاف کر دیا جائے گا۔اگر وہ کامیاب نہ ہوئی تو حالات پہلے جیسے نہیں رہے گئے،یہ خط امریکہ کی طرف سے حکومت پاکستان کو ملا۔امریکہ جو شروع سے ہی پاکستان کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرتا آیا ہے۔

پی ڈی ایم کی کمر پہ دوبارہ تھپکی دی گئی،اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے علاوہ مہنگائی مکاو مارچ شروع ہوئے۔حکومت کے کچھ اتحادی توڑے گئے،اس کے علاوہ عمران خان پارٹی کے20 ارکان بھی اپوزیشن کے بینچوں پے جابیٹھے۔ان سارے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان نے پریڈ گراونڈ اسلام آباد میں27مارچ کو عوامی پاور شو کیا اور پاکستانی عوام کو بھی اس دھمکی آمیز خط سے آگاہ کیا۔

3 اپریل کو اسمبلی ووٹنگ ہونی تھی۔اپوزیشن کو یقین تھا کہ آج ہم اپنے مشن میں کامیاب ہونگےاور شاید امریکہ میں بھی خوشیاں منائی جارہی ہونگی۔لیکن عمران خان نے جس سرپرائز کا بار بار ذکر کرتے تھے وہ آخر سامنے لے ہی آئے۔اجلاس کے آغاز پر فواد چوہدری نے اس مشن کا تانا بانا کرتے ہوئے،اور آئین پاکستان کے آرٹیکل پانچ(1) تحت ملک کا ہر شہری وفادار رہے گا جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ نے اپوزیشن کو حیران اور پریشان کردیا۔دوسری طرف عمران خان نے صدر مملکت عارف علوی کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیج دی۔جو صدر نے منظور کرتے ہوئے،عمران خان کو عبوری حکومت کے آنے تک اپنا کام جاری رکھنے بھی احکامات جاری کیے۔

اس سارے ماجرے کو بندہ خاکسار بھی پہلی بار پارلیمنٹ کے تیسرے فلور پر پریس گیلری میں بیٹھا دیکھ رہا تھا۔اپوزیشن اپنی طرف سے تعداد پوری کر کے بیٹھی تھی اور سب چہرے ہشاش بشاش نظر آرہے تھے اور آج ان کا خیال تھا عمران خان ایون میں اپنی اکثریت کھو بیٹھے ہیں۔لیکن جس سرپرائز کا ذکر عمران خان اور وفاقی وزرا کیا کرتے تھے 3 اپریل کو اس کا استعمال کرکے متحدہ اپوزیشن کو دن کو تارے دکھا دئیے۔حکومت نے اپوزیشن سے ایسا ہاتھ کیا کہ وہ ششدرہ رہے گئے۔

بعد میں اپوزیشن ارکان نے سابق اسپیکر اسمبلی اور رکن (ن) لیگ ایاز صادق کو اسپکیر کی کرسی پر بیٹھا کے آئینی اور قانونی طریقے سے اپنی گنتی پوری کی،اور سپریم کورٹ میں قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے اس ساری سیاسی صورتحال کا از خود نوٹس لیتے ہوئے عدالت پہنچے اور کیس کی سماعت شروع کی۔جس کی سماعت پانچ رکنی بنچ کے تحت ابھی بھی جاری ہے۔سپریم کورٹ کس کے حق میں فیصلہ کرتی ہے۔ایک آدھ دن تک سب سامنے آ جائے گا۔

اب بنیادی سوال یہ ہے اگر سپریم کورٹ اسپیکر کی رولنگ کو کلعدم قرار دے تو دوبارہ ووٹنگ ہوگی جس کے نتیجے میں شہباز شریف وزیراعظم ہونگے۔رولنگ کے بعد شہاز شریف پریشان نظر آرہے تھے اور زرداری صاحب مسکرا رہے تھے۔ایسا لگ رہا تھا کہ زرداری دل سے نہیں چاہتے کہ شہباز شریف وزیر اعظم بنے۔

حیران ہوں کہ اگر بالفرض شہاز شریف وزیراعظم بن بھی جائے۔تو کیا پاکستان کی قسمت بدل جائےگی؟سب مسائل کا حل نکل آئے گا؟پاکستان میں کوئی دودھ شہد کی نہریں بہنے لگ جائے گی؟ پی ڈی ایم دوبارہ بنی تو صرف اپنے اپنے مفاد کی خاطر،ان سب کو پاکستان اور اس عوام سے کوئی سروکار نہیں۔یہ سب ایک گاڑی ایک منزل کے مسافر ثابت ہوگئے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ چاہتے ہیں اگر ہم اب اقتدار پہ براجمان ہوں،توہمارےسب کیس ختم ہو، ہمیں اگلا الیکشن بھی جیتنے،اور عمران حکومت کی غلطیاں کو صحیح طرح سے عوام کے سامنے ننگا کیا جانا موقع فراہم ہوگا۔لیکن شاید یہ سب اب ممکن نہیں رہا۔پاکستانی عوام ان سب کو آزما چکی،ن لیگ پی پی جب اقتدار میں رہے تب پاکستان کیلئے کیا کیا،جو اب کرے گئے۔

بلاول بھٹو اور شہاز شریف جب یہ کہتے تھے کہ اسمبلیاں جیلی،وزیراعظم عمران خان جیلی ہیں۔نئے الیکشن ہی واحد حل ہے۔کل خواجہ سعد رفیق بھی کہے رہے تھے کہ اسمبلیاں دوبارہ بحال کی جائے۔

مجھے کوفت ہوتی ہے ویسے جب یہ سب نئے الیکشن کے حامی تھے۔اور اب حکومت عام انتخابات کی طرف جارہی ہے۔تو اب میدان میں آئیں اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرے اور جس کے حق میں عوام کا فیصلہ آئے گا۔وہ ہی برسراقتدار آئے گا۔

جن سینئر صحافیوں اور ماہرین سے ہماری بات ہوئی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملک اب جس سیاسی اور آئینی بحران کی طرف جا رہا ہے۔اس کا حل صرف اور صرف اب عام انتخابات میں ہے اور یہی پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے