طوائف الملوکی کی جانب دھکیلنے والی ’’سکھاّ شاہی‘‘

اکثر پنجابیوں کی طرح اردو کے بے تحاشہ الفاظ مجھے بھی سمجھ نہیں آتے۔ ان کا درست تلفظ لغات کی مدد سے دریافت کربھی لوں تو مفہوم گرفت میں نہیں آتا۔ ’’طوائف الملوکی‘‘ بھی ایسا ہی ایک لفظ یا ترکیب ہے۔ اس نے پریشان اس لئے بھی رکھا کیونکہ لاہور کی گلیوں میں جوان ہوئے شخص کے ذہن میں لفظ ’’طوائف‘‘ فقط ایک ہی تصور لاتا ہے۔ بہرحال بہت دیر بعد بالآخر یہ جان لیا کہ مذکورہ لفظ یا ترکیب درحقیقت اس دور کے لئے مختص ہے جب کسی ریاست میں خلفشار پھیل جائے۔ حکومتی بندوبست مستحکم نہ ہو۔رعایا ایک پنجابی محاورے کے مطابق یہ جان ہی نہ پائے کہ ’’کس کی ماں کو ماسی‘‘ کہیں۔

سنا ہے کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کا آغاز ہوتے ہی پنجاب میں ’’طوائف الملوکی‘‘ رونما ہونا شروع ہوگئی تھی اور تقریباََ 90برس تک جاری رہی۔ افغانوں اور مغلوں کے لگائے گورنروں کے مابین چپقلش کے علاوہ وسیع وعریض علاقوں میں سکھ گوریلا جنگ بھی جاری رہی۔ بالآخر رنجیت سنگھ نے تخت لہور پر قبضہ جماکر چند دہائیوں تک استحکام فراہم کیا۔اس کی موت کے بعد مگر ’’سکھاشاہی‘‘ شروع ہوگئی۔ فوج کے سپاہیوں کو حکمران تنخواہ دینے کے قابل نہ رہے تو انہوں نے ’’جتھے‘‘ بناکر ’’بھتے‘‘ وصول کرنا شروع کردئیے۔ 

ان کی پھیلائی افراتفری نے برطانوی راج کے لئے پنجاب میں خوش آمدید کی فضا بنائی۔ یہاں قابض ہونے کے بعد غیر ملکی آقائوں نے اراضی کی ملکیت کو’’ دوامی بندوبست‘‘ فراہم کیا۔’’انصاف‘‘ کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے ہائی کورٹ وغیرہ قائم ہوئے۔تعلیم کے فروغ کے لئے گورنمنٹ کالج جیسے ادارے وجود میں لائے گئے۔ اپنے چہیتے سہولت کاروں کی اولاد کو اگرچہ اندازِ حکمرانی سکھانے کے لئے ’’ایچی سن کالج‘‘ بنایا گیا۔

عجب اتفاق ہے کہ اسی کالج نے قیام پاکستان کے بعد ہمارے لئے عمران خان صاحب جیسا دیدہ ور بھی تیار کیا ہے۔ گزرے اتوار کے دن سے تاہم موصو ف ایسے فیصلے کئے جارہے ہیں جو ملک کو ’’طوائف الملوکی‘‘ کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ نام نہاد ’’تحریری آئین‘‘ کے ہوتے ہوئے بھی ہم اس سے بچنے کی راہ تلاش کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔

ہمارے ’’تحریری آئین‘‘ نے کسی شخص کو وزارت عظمیٰ سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کا بندوبست بھی نظربظاہر طے کررکھا ہے۔اسے بروئے کار لاتے ہوئے اپوزیشن جماعتو ں نے گزشتہ مہینے کے پہلے ہفتے میں قومی اسمبلی میں عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی۔چند تاخیری حربے استعمال کرنے کے بعد اسے قومی اسمبلی کے اجلاس میں باقاعدہ پیش کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔مذکورہ اجازت کو یقینی بنانے کے لئے اپوزیشن نشستوں سے 161اراکین اس کی حمایت میں کھڑے بھی ہوئے تھے۔ ’’تحریری آئین‘‘ نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے جو بندوبست طے کررکھا ہے اسے نگاہ میں رکھتے ہوئے ہم سادہ لوحوں نے امید باندھی کہ اتوار 3اپریل کے روز تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی کے ایوان میں گنتی ہوگی۔

اس دن اجلاس شروع ہوتے ہی مگر فواد چودھری صاحب ایک دھواں دھار تقریر فرمانے کھڑے ہوگئے۔ایک روز قبل انہیں وزارت قانون کا اضافی چارج دیا گیا تھا۔اضافی اختیارات کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے انہوں نے مقدمہ یہ بنایا کہ ویر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد درحقیقت امریکہ کی ایماء پر پیش ہوئی ہے۔ خود کو دنیا کی واحد سپرطاقت کہلواتا یہ ملک عمران خان صاحب کی اپنائی ’’آزاد وخودمختار‘‘ پالیسی سے گھبرا گیا ہے۔ و ہ انہیں فارغ کرنے کو تلا بیٹھا ہے۔ 

فواد چودھری صاحب اپنی تقریر مکمل کرچکے تو اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے قائد حزب اختلاف کو اپنے دفاع میں ایک لفظ ادا کرنے کی مہلت بھی نہ دی۔پہلے سے تیار کردہ ایک فیصلے کو پھیپھڑوں کا زور لگاکر پڑھا اور ’’غداروں‘‘ کی جانب سے پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو ’’مسترد‘‘ کردیا۔وزیر اعظم کے خلاف تحریک ’’مسترد‘‘ ہوگئی تو ایک فاتح کی طرح قومی اسمبلی کے ایوان میں داخل ہونے کے بجائے عمران خان صاحب نے وزیر اعظم کے دفتر میں بیٹھے ہوئے ہی صدر مملکت کو مذکورہ ایوان تحلیل کرنے کی سفارش بھجوادی۔ ایسی سفارش کی فی الفور منظوری ہمارے ’’تحریری آئین‘‘ نے واجب ٹھہرارکھی ہے۔

قومی اسمبلی کی تحلیل میں ’’سہولت کاری‘‘ کا کردار ادا کرنے کے بعد قاسم سوری نے نہایت مان سے ایک تصویر کھنچواکر اسے سوشل میڈیا پر لگادیا۔ مذکورہ تصویر کے بیک گرائوند میں شیرشاہ سوری کی خیالی تصویر پر مبنی ایک قدآور پینٹنگ بھی نمایاں تھی۔مغلیہ سلطنت کے بانی دلاور کے بیٹے ہمایوں کو جلاوطن کرنے کے بعد بادشاہ بنے شیر شاہ سوری غالباََ قاسم سوری کے براہ راست اجداد میں شامل ہوں گے۔اپنی دانست میں قاسم سوری نے گزرے اتوار کے روز کسی اور کی لکھی رولنگ پڑھتے ہوئے شیر شاہ سوری جیسی دلاوری دکھائی ہے۔ شیر شاہ کومگر ایک قابل منتظم بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔موصوف نے پشاور کو کلکتہ سے ملانے والی سڑک بھی تعمیر کروائی تھی۔ مجھے خبر نہیں اسے ’’جرنیلی سڑک‘‘ کیوں کہا جاتا ہے۔قاسم سوری نے تاہم اپنی رولنگ کے ذریعے قوم کو کلکتہ کا رُخ کرنے کے بجائے سپریم کورٹ پر توجہ دینے کو مجبور کردیا۔ ’’تحریری آئین‘‘ کے ہوتے ہوئے بھی ہماری اعلیٰ ترین عدالت کو یہ طے کرنے میں نہایت دشواری محسوس ہوئی کہ وہ ’’سب پہ بالادست‘‘ شمار ہوتی ’’ منتخب پارلیمان‘‘ کے ایوان زیریں کے ڈپٹی سپیکر کی جانب سے ہوئے فیصلے کی پڑتال کرسکتی ہے یا نہیں۔

جس ایوان میں اکثریت کی بنیاد پر عمران خان صاحب ساڑھے تین برس تک ہمارے وزیر اعظم رہے اسے منہدم کرنے کے باوجود وہ آج بھی ہمارے وزیر اعظم ہیں۔تین روز قبل وزیر اعظم کی سواری کے لئے مختص جہاز پر لاہو ر بھی تشریف لے گئے تھے۔ نظر بظاہر اس شہر وہ کوئی ریاستی فریضہ سرانجام دینے کے لئے نہیں گئے۔مقصد ان کا فقط تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین پنجاب اسمبلی سے ملاقات تھا۔ ان کے روبرو حاضری دینے کو تیار ایم پی ایز کی تعداد دیکھ کر خان صاحب نے بخوبی بھانپ لیا ہوگا کہ ان کی اکثریت چودھری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر بٹھانا نہیں چاہے گی۔ چودھری صاحب نے راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے بقراط عصر کی طرح ایک ذاتی مسلم لیگ بھی بنارکھی ہے۔اسے مگر قائد اعظم کے نام سے منسوب کررکھا ہے۔جولائی 2018کے انتخاب کے دوران تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین پنجاب اسمبلی کی اکثریت کے چہروں پر لکھا ہوا ہے کہ ’’اسی مر گئے ساں‘‘۔

چودھری پرویز الٰہی نے مگر عمران خان صاحب کو یقین دلادیا ہوگا کہ ’’میں سنبھال لوں گا‘‘ وزیر اعظم مطمئن ہوکر اسلام آباد لوٹ آئے۔ چودھری صاحب نے ان کی رخصت کے فوری بعد اپنی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری سے اختیارات چھین لئے۔ اس بلوچ کو قاسم سوری بننے نہیں دیا۔وہ بضد ہیں کہ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے 16اپریل تک انتظار کیا جائے۔ اس عہدے کے لئے انہیں عمران خان صاحب نے نامزد کررکھا ہے۔فی الوقت مگر وہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر بھی ہیں۔مذکورہ اسمبلی کی نئی عمارت انہوں نے اپنی نگرانی میں تعمیرکروائی ہے۔ اسے منہدم کرنے کے بجائے انہوں نے اسے تالہ بند کردیا ہے۔عمارت کو شرپسندوں سے مزید محفوظ رکھنے کے لئے اس کے گرد خاردار تاریں بھی بچھادی گئی ہیں۔

رنجیت سنگھ کی طرح چودھری پرویز الٰہی بھی ایک جاٹ ہیں۔ وہ مگر پنجاب کو استحکام فراہم کرنے کے بجائے ’’سکھاشاہی‘‘ کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ربّ کا سوبار شکر کہ اب کی بار سرحد کے اس پار ایسٹ انڈیا نام کی کمپنی نہیں بیٹھی ہوئی وگرنہ 1848کی طرح اس صوبے میں درآتی۔ تاریخی اتفاق یہ بھی ہے کہ برطانوی افواج نے ’’سکھا شاہی‘‘ کو گجرات ہی کے ایک قصبے ’’چیلیاں والی‘‘ میں حتمی شکست سے دو چار کیا تھا۔ دیکھنا ہوگا کہ چودھری پرویز الٰہی کی برتی ’’سکھا شاہی‘‘ سے اب کون نبردآزما ہوگا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے