سب کچھ اتنا بھی اچانک نہیں تھا

نریندر مودی کا "اچانک” خیر سگالی کے دورے پر لاہور آنا کچھ لوگوں کے لئے معمہ بنا ہوا ہے۔

یہ دورہ اچانک تھا، نہ ہی صرف سالگرہ کی مبارک باد یا پھر نری خیر سگالی کا اظہار تھا۔ یہ "بین القوامی دہشت گردی” کے خلاف جاری امریکی جنگ کا ایک طے شدہ قدم ہے۔ شام اور افغانستان اس وقت دو بڑے مسئلے بنے ہوئے ہیں۔

نیٹو اور امریکہ افغانستان میں جنگ ہار رہے ہیں۔ شام میں تو نیٹو اور امریکہ کے علاوہ روس و ایران نے بھی اپنی سی کوشش کر کے دیکھ لی ہے۔ لیکن تمام تر قتل غارتگری کے باوجود نتیجہ صفر ہی ہے۔ اب شام کے لئے تو امریکہ کے حکم پر سعودیہ کی قیادت میں 34 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا قیام عمل میں آچکا ہے۔

[pullquote]دوسری جانب افغان طالبان کا زور شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگلے موسم بہار میں امریکی اور کٹ پُتلی افغان افواج طالبان کے حملوں کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ کو فوری طور پر ایک مقامی فوجی اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے یہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی دوسری اچانک ملاقات ہوئی ہے۔ اتوار کے روز جنرل راحیل شریف کابل کے دورے پر جا رہے ہیں۔ اگلے چند ہفتوں یا مہینوں کے اندر "دہشت گردی کے خلاف” بھارت، پاکستان اور وسط ایشیا کے کچھ ممالک پر مبنی ایک علاقائی اتحاد وجود میں آجاے گا۔[/pullquote]

اس اتحاد کے وجود میں آنے کے نتیجے میں افغانستان میں موجود قابض افواج کو کتنی کامیابی ملتی ہے، یہ تو وقت بتائے گا۔

لیکن اس اتحاد کے نتیجے میں لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین جیسی تنظیموں کے لئے مشکل وقت ضرور آجائے گا۔ پاکستان افغانستان میں قائم ہندوستانی کونسلخانوں کے وجود پر اعتراض ختم کر دے گا۔

بھارت میں آر ایس ایس اور بی جے پی جیسی تنظیمیں پاکستان کی مخالف مہم میں خاطر خواہ کمی آ جائے گی۔ ویزے کی مشکلات میں کمی اور کرکٹ والا رومانس دوبارہ شروع ہو جائے گا۔

اس اتحاد کا ایک فائدہ یہ بھی متوقع ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کسی حد تک امن بحال ہو جائے گا۔ کنٹرول لائن کے آر پار آمد رفت میں آسانی آنے کا بھی امکان ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے