متحدہ اپوزیشن کی طرف سے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بننے والی نئی حکومت جس میں کم وبیش 11اتحادی جماعتیں شامل ہیں۔شہباز شریف بطور وزیراعظم ان سب کو لیڈ کررہے ہیں۔شہباز شریف کے وزیراعظم کا حلف اٹھانے اور طویل مشاورت کے بعد کچھ آدھی کابینہ فائنل ہوئی ہے۔جس میں سب نے اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے،اپنا اپنا حصہ لیا،اور جو عمران خان کی حکومت میں صرف ممبر قومی اسمبلی رہے،خان کو چھوڑنے کے صلے میں ان کو بھی وزارتوں سے نوازے گیا ہے۔قابل غور بات یہ بھی ہے کہ وزیراعظم سے لیکر اسپیکر اسمبلی تک،وفاقی وزرا سے لیکر متوقع صدر تک سب کے سب ہی ضمانتوں پر ہیں۔اللہ خیر کرے۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے گٹھ جوڑ کا اکھٹے ایک پیج پر رہے کر چلنا اور کام کرنا بہت مشکل ہوگا۔شہباز شریف جب پنجاب کے وزیراعلی تھےتو پنجاب میں بیورکریسی کے ذریعے وہ کام لینا جانتے تھے لیکن یہاں پاکستان کے تمام ادارے،یہ بھان منتی کا کنبہ اور پاکستان کو اس وقت جن جن درپیش مسائل کا سامنا ہے۔ان کو حل کرنا وزیراعظم شہباز شریف کیلئے ایک بہت بڑا ٹاسک ہوگا۔
میاں شہباز شریف نے وزیراعظم بنتے ساتھ ہی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں جو اعلان کیے،دو دن بعد ہی غبارے سے ہوا نکل گئی،اور اپنے وعدوں سے بھی مکر گئے،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گھی کی قیمتوں میں مزید اضافہ بھی کر ڈالا ہے۔ٹائی لگا کے آٹھ بجے آفس آجانا،کبھی ادھر بھاگ کبھی ادھر بھاگ،انھیں یہ کون سمجھائیں،کہ دفتری اوقات کار میں تبدیلی کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئےاس وقت روایت سے ہٹ کر معاشی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔سپیڈ پنجاب اور ہے سپیڈ پاکستان اور ہے۔پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھانے کیلئے اوگرا کی بھجوائی جانے والی سمری ایک دفعہ تو مسترد کردی گئی،لیکن اطلاع یہی ہے کہ جس طرح کے حالات چل رہے ہیں جلد ہی اس پر عمل درآمد کرکے عوام کو سرپرائز دیا جائے گا۔
کچھ مبصرین کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے یہ جو چند ماہ کیلئے اچکن پہنی ہے۔آنے والے جنرل الیکشن میں(ن) لیگ کو اس کے بہت برے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔پیپلزپارٹی کے رکن اور سابقہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بلامقابلہ اسپیکر نیشنل اسمبلی منتخب ہوئےہیں۔اور اس کے ساتھ ہی ہی پی پی نے تین اہم وزارتیں بھی مانگ لی ہیں۔دو اہم وزارتیں لینے میں پی پی کامیاب بھی ہوگئی ہے۔اور متوقع وزیر خارجہ کے امید وار بلاول بھٹو اپنے والد محترم آصف علی زرادری کو دوبارہ صدر بنانے،پنجاب کی گورنرشپ اور کچھ وزارتوں کے چکر میں لندن پہنچے ہوئے ہیں۔
ایم کیو ایم نے اپنے مطالبات لے کے ایک الگ کٹا کھولا ہو ہے۔اختر مینگل اور خالد مگسی بھی وزارتوں کے امید وار ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ درجن بھر اتحادیوں کا یہ بھان منتی کا کنبہ زیادہ دیر نہیں چل پائے گا۔امید ہے کہ ان اتحادیوں کے اپنے اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے جلد ہی کابینہ کے نام فائنل کرنے میں تھوڑا اور مزید وقت لگے گا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ہاؤس آف شریف اس وقت بڑے مشکل کنارے میں پھنس گیا ہے۔بلکہ پھنسایا گیا ہے۔ان درجن بھر اتحادیوں کے ٹولے کو ساتھ لے کر چلنا شہباز شریف کیلئے بہت مشکل ہوگا۔اس وقت (ن) لیگ میں ایک طبقہ وہ ہے جو یہ چاہتا ہے کہ جو حالات چل رہے ہیں جلد الیکشن کی طرف جایا جائے، لیکن دوسرا طبقہ چاہتا ہے کہ ہمیں الیکشن میں تو جانا چاہیئے،لیکن الیکشن سے پہلے اپنے نیب،ایف آئی آئی میں لگے کیسیز کا خاتمہ کرنا ہوگا،اور من مرضی کی انتخابی اصلاحات کرکے ہی الیکشن کا رخ کرنا چاہیئے۔شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے ساتھ ہی نیب اور دوسرے اداروں میں جو اوپر لیول پہ تقرریاں ہورہی ہے وہ سب کے سامنے ہیں۔اور مزید بھی جاری ہیں۔مولانا فضل الرحمان اپنے موقف پر آج بھی قائم ہے کہ مجھے اس وقت صدر بنایا جائے،اگر اتنی محنت کے بعد بھی میں صدر نہ بنا،تو دوبارہ شاید زندگی میں ایسا موقع کبھی ہاتھ میں نہیں آئےگا،لیکن اس کے ساتھ ہی آصف علی زرداری نے بھی دوبارہ صدر پاکستان بننے کی خواہش ظاہر کی ہے۔بلوچستان میں دو پارٹیاں جو شہباز شریف کے اس اتحاد کا حصہ ہیں دونوں گورنرشپ کی امید وار ہے۔اسی طرح سے شہر اقتدار میں،اس وقت اقتدار کیلئے بڑی عجیب سی صورتحال بنی ہوئی ہے۔اب یہ چند دن تک واضح ہوجائے گا،کہ کون سا سہرا کس کے سر سجے گا۔
وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل اور مریم اورنگزیب نے بھی آج کل وہی ڈیوٹی سنبھالی ہوئی ہے جو پہلے فواد چوہدری اور شہباز گل نے سنبھال رکھی تھی،ہر تقریر میں ایک ہی بات کہ پچھلی حکومت کی ناکامیوں کو ہم بھگت رہے،یہ سب گند پچھلے پھیلا گئےہیں۔پاکستانی عوام کو آج تک یہ سمجھ نہیں آرہی کہ آخر ملک میں یہ گند کس نے پیھلایا ہے۔اس کا ذمہ دار آخر ہے کون؟