گلگت بلتستان کی خوبصورت اور دلفریب وادی ضلع ہنزہ ایک مرتبہ پھر قدرتی آفت کی زد میں آچکا ہے۔ سانحہ عطاء آباد کا غم اور دکھ یہ ضلع اب تک اپنے دامن میں سمائے ہوئے بیٹھا ہوا تھا اور اثرات ختم نہیں ہوئے تھے کہ حسن آباد نالہ بھی عطاء آباد کی پیروی کرتے ہوئے بدلتے موسم کا نیا شکار ہوگیاجس کے نتیجے میں حسن آباد کے پل بھی بہہ گیا۔ خوش قسمتی سے حسن آباد کے سانحہ میں جانی نقصان نہیں ہوا ہے لیکن مالی طور پر پورے ہنزہ کو دیگر اضلاع سے منقطع کردیا ہے۔ متبادل راستے کے طور پر ضلع نگر کی شاہراہ کو دکھایا گیا جہاں پہلے روز ہی حادثہ پیش آیا اور غیر ملکی سیاحوں سمیت 4افراد زخمی ہوگئے۔
ضلع ہنزہ میں شاہراہ قراقرم کے دو حصوں کو آپس میں ملانے والا حسن آباد پل آج سے نہیں بلکہ گزشتہ چار سالوں سے خطرے کی زد میں تھا۔ 2018میں پہلی بار حسن آباد کے نالے میں گلیشئیرنے حرکت شروع کردی اور حسن آباد نالے کی پانی کی فراہمی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کردی جس کے نتیجے میں ایک نئی تاہم عارضی سی جھیل وجود میں آگئی۔ اسی روز سے یہ علاقہ خطرے اور آفت کی زد میں تھا۔ اس وقت حکومتی سطح پر ہنگامی اقدامات اٹھانے کی کوشش ضرور کی گئی تاہم پائیدار اقدامات نہیں اٹھائے جاسکے جس کی وجہ سے چار سال بعد بہت بڑے سانحے کا سامنا کرنا پڑگیا۔
حسن آباد نالے کا بپھر جانا اور پل کو اپنے ساتھ بہاکر لے جانا گوکہ ایک قدرتی عمل ہے اور اس قدرتی عمل کا نام موسمیاتی تبدیلی ہے جو اس علاقے میں چند برسوں سے بہت زیادہ محسوس کی جارہی ہے اور بین الاقوامی اداروں سے اس تبدیلی کو روکنے کے لئے بڑی سطح پر امداد لی جارہی ہے تاہم زمینی سطح پر دیکھا جائے تو ادارے ایسے سانحات کو اسی طرح معمولی دیکھتے ہیں جس طرح عام آدمی دیکھتا ہے۔ بین الاقوامی امداد اور مطلوبہ مقام پر پیسوں کے استعمال ہونے کے فرق کو محسوس کرنے کے لئے سابق وفاقی حکومت میں وزیراعظم کے معاون خصوصی امین اسلم کا وہ دورہ کافی ہے جس میں انہوں نے گلاف 2کی رقم سے بھرپور بین الاقوامی اسفار کئے اور ایسے ممالک دریافت کئے جہاں پر وہ پہلے شاید نہیں گئے تھے وہ بھی بمعہ اہل و عیال۔گلاف 2کا منصوبہ اقوام متحدہ کے زیلی ادارے یو این ڈی پی کی جانب سے دوبارہ شروع کیا گیا وہ منصوبہ ہے جس کا مقصد لوگوں کو حسن آباد قسم کے سانحات سے محفوظ رکھنا تھا اور یہ منصوبہ خصوصی طور پر گلگت بلتستان، چترال اور خیبرپختونخواہ کے چند ددوسرے مقامات کے لئے متعارف کرایا گیا تھا۔
گلگت بلتستان میں درجنوں گلیشیئرز پر بہت پہلے سے ہی سرخ لکیر کھینچی گئی ہے جو قدرتی آفات کے دہانے پر کھڑے ہیں، گلیشیئرز کا رویہ موسمی تبدیلی کے لئے بہت حساس ہے اور معمولی سی تبدیلی پر بھی اس کا رویہ تبدیلی ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں بھرپور قوت کے ساتھ اپنے مقام سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور آفت کی نئی داستان رقم کرجاتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے نتاظر میں ہی حسن آباد نالے کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس نالے کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا یا پھر سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔ وادی ہنزہ میں بجلی کی فراہمی کے لئے بجلی گھر بھی اسی نالے پر بنایا گیا ہے حالانکہ بجلی گھر کی تعمیر میں استعمال ہونے والی بڑی مشینری، پتھروں کو توڑنے کے لئے بلاسٹنگ اور دیگر امور کے گلیشیئرز پر منفی اثرات مرتب ہونا فطری امر ہے تاہم حکومت کو اور متعلقہ اداروں کو بجلی گھر بنانے کے لئے یہی مقام مل گیا تھا۔ 2018میں جب پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر گلیشیئر کی حرکت سامنے آگئی تو اسی وقت سے آفت زدہ قرار دیکر طویل المدتی اور پائیدار اقدامات اٹھانے کی ضرورت تھی جو نہیں اٹھائے گئے۔ ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی ششپر گلیشیئر کو گلاف ماننے سے بھی انکار کرتی رہی حسن آباد پل بہہ جانے کی وجہ سے ضلع ہنزہ کا رابطہ عملی طور پر ملک کے دیگر علاقوں سے کٹ چکا ہے۔ سانحہ بھی ایسے موقع پر پیش آیا ہے جب بڑی تعداد میں سیاح گلگت بلتستان بالخصوص ہنزہ کا رخ کررہے تھے۔ گلگت بلتستان کے قدرتی حسن کی معترف تو پوری دنیا ہے اور اس قدرتی حسن میں کسی فرد واحد، سیاسی جماعت، حکومت یا انتظامیہ کا تو کوئی کردار نہیں ہے، ان کا کام تو اس قدرتی حسن کو محفوظ کرنے، اثرات بد سے بچانے اور ان کو دیکھنے آنے والے لوگوں کو سہولیات پہنچانے کا ہے جو کہ نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ اس وقت ہنزہ پہنچنے کے لئے ضلع نگر کے متبادل شاہراہ کو استعمال کی جارہی ہے جو بوسیدہ ہونے اور عدم توجہی کا اپنا منظر پیش کررہی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق گلگت بلتستان اور خیبرپختونخواہ میں 70لاکھ سے زائد لوگ ماحولیاتی تغیرات کے زد میں ہے جہاں پر حسن آباد جیسے اچانک حادثات اور سانحات تیار پڑے ہوئے ہیں جن سے نہ صرف مال مویشی، گھر، کھیت کے نقصان کا اندیشہ ہے بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع کا بھی خطرہ موجود ہے۔ مذکورہ 70لاکھ افراد میں سے بڑی تعداد ایسی ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں اور ان وسائل پر منحصر ہیں جو کسی بھی وقت ایسے آفات میں بہہ سکتے ہیں۔ 12سال قبل عطاء آباد سانحے کے متاثرین آج بھی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں اور ان کا کوئی والی وارث نہیں ہے زندگی کی جمع پونجی ساری ایک سانحے میں اڑ گئی ہے۔
حسن آباد کا سانحہ گوکہ قدرتی ہے تاہم انسانی عمل دخل کے اندیشے بہت زیادہ ہے۔ ہنگامی اور بحالی اقدامات اٹھانے کے ساتھ ساتھ زمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے بھی اقدامات اٹھانے چاہئے۔جس نے آفات کو کم کرنے کے نام پر لوگوں کو مزید آفات میں جھونک دیا ہے۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے تیسرے روز متاثرہ علاقے کا دورہ کرکے ہنگامی اقدامات اٹھانے اور متاثرین کو سہولیات پہنچانے کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن اور اپوزیشن لیڈر امجد حسین ایڈوکیٹ نے بھی دورہ کرکے سوالات اٹھادئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے اعلانات اور اپوزیشن کے رہنماؤں کے سوالات دونوں اپنی نوعیت کے اہمیت کے حامل ہیں۔ متاثرین کی بحالی کے لئے اقدامات کا محض اعلان نہیں ہونا چاہئے بلکہ عملی طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور حکومت خود اس عمل کی مسلسل نگرانی کرتی رہے اور اپوزیشن کے رہنماؤں نے جس جانب اشارہ کرکے سوالات اٹھائے ہیں ان کو بھی سنجیدہ لیتے ہوئے ان کی تفتیش کرنی ضروری ہے، یہ معاملہ ’ہوا یا کرایا گیا‘ تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔
ششپر نالے میں پانی کا اخراج اچانک GLOF تیز ہو گیااور اس میں بتدریج اضافہ ہوتے ہوئے 5000سے بڑھ کر 10000 کیوسک تک پہنچ گیا۔ گر می کی لہر کی وجہ سے ششپر گلیشئر پھٹ پڑا اور نتیجتاً اس نے ایک بڑے سیلابی ریلے کو جنم دیا جس نے 12 گھنٹوں میں ہی حسن آباد پل کے علاوہ 4مکانات کو مکمل تباہ جبکہ 5مکانات کو شدید نقصان پہنچایا ہے جبکہ بجلی گھر کا نظام بھی اس وقت معطل ہے۔