ماریہ کماری کا تعلق پشاور سے ہے اور اپنے دوبچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ تین سال پہلے اُس کے خاوندنے اسلام قبول کیا اور ایک مسلمان لڑکی سے دوسری شادی کرلی۔ شادی سے پہلے ایک سادہ کاغذ پر طلاق نامہ اُس کے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔ اُس نے بہت کوشش کی کہ اُس کا خاوند بچوں کے خرچہ دینے کی ذمہ داری لے لیکن اس معاملے میں کچھ نہیں ہوا اور ماریہ مہینے میں پانچ ہزار روپیہ تنخواہ پر گزراہ کررہی ہے ۔ تجزیات میں شائع ہونے والی اس کہانی کے مطابق ماریہ کماری کا خاوند اپنے بیٹے کی پرورش اور مالی ذمّے داریوں سے بالکل آزاد ہے، کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ مقامی قوانین کے مطابق ماریہ کماری کے پاس طلاق لینے، علیحدگی اختیار کرنے اور بیٹے کے لیے نان نفقہ کے حصول کا کوئی قانونی راستہ موجود نہیں۔ قانون کی عدم موجودگی میں اُس کو اپنے حقوق کے تحفظ اور مشکلات کے کم ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہے ۔
یہ کہانی صرف ماریہ کماری کی نہیں ، خیبر پختون خواہ میں ایسی کئی لڑکیاں ہیں جو آج بھی شادی بیاہ کے بعد اسی قسم کے مسائل کا شکار ہیں ۔ قانون سازی میں تاخیر اور بعض علاقوں میں قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک ان لڑکیوں کو اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہے ۔
پاکستان کی تقریبا 22 کروڑ آبادی میں اقلیتیں صرف تین فیصد ہیں ۔ اقلیتیوں میں ایک بڑی تعداد ہندو مذہب کے ماننے والوں کی ہے۔ پارلیمان نے 26ستمبر 2015 ءکو ہندو برادری کے دیرینہ مطالبے کی بنیاد پر جنوری 2017 ء متفقّہ طور پر ہندو میرج ایکٹ منظور کیا ۔ اس سے پہلے پاکستانی ہندوؤں کے پاس قانونی طور پر شادی رجسٹر کرانے کا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔
[pullquote]ہندو میرج ایکٹ کی تاریخ [/pullquote]
پاکستان سماجی موضوعات پر کام کرنے والے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کپل دیو نے آئی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندو مذہب میں طلاق کا کوئی تصور ہی نہیں تھا نہ ہی بیوہ کو دوسری شادی کی اجازت تھی، 70 کی دہائی میں بھٹو کی کابینہ میں سندھ کے رانا چندر سنگھ جو بڑے نامی گرامی شخص تھے، نے اس ہندو میرج بل کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ میرے جیتے جی یہ بل پاس نہیں ہو سکتا اور اگر یہ بل پاس ہوا تو میری لاش اٹھانی ہونی گی ۔اس وجہ سے اس وقت یہ بل پاس نہ ہو سکا کیونکہ حکومت کی مرضی بھی شامل نہ تھی اور ہندو کمیونٹی کی طرف سے بھی مخالفت ہو رہی تھی،کوئی بھی اس بات پر متفق نہ تھا کہ اس بل کو کوئی قانونی درجہ دیا جائے۔
ہندو میرج بل 2008 کے بعد 2011 میں اور پھر 2012 میں قومی اسمبلی میں پیش ہوا مگر تینوں بار مخالفت کی وجہ سے پاس نہ ہو سکا۔پہلی بار 2016 میں یہ بل متفقہ طور پر سندھ کابینہ نے پاس کیا جس کا نام "ہندو میرج رجسڑیشن ایکٹ” رکھا گیا۔2017 میں یہی بل وفاق نے پاس کیا اور 2018 میں سندھ حکومت نے وفاق کے بل کو کاپی کر کے پوری تفصیل کے ساتھ یہ بل منظور کیا۔
[pullquote]وفاق کا قانون کیا ہے؟؟؟[/pullquote]
18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ وفاق کے کسی بھی بل میں ترمیم کر کے صوبے میں ایک قرارداد پاس کریں گیں کہ ہم یہ بل متفقہ طور پر اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔ سندھ کو چھوڑ کر پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد میں وفاق کے بل کا اطلاق ہوگا ،سارے ایم پی ایز اور ایم این ایز بھی اس پر متفق تھے چنانچہ قومی اسمبلی میں سب نے متفقہ طور پر یہ بل منظور کر لیا۔
اس بل کے تحت ہر یونین کونسل کو اپنے ساتھ پنڈت رجسٹرڈ کرنے تھے تاہم کئی جگہوں پر ابھی تک پنڈت رجسٹرڈ نہیں ہوئے ۔ ہندو برادری کے لوگ بھی اس نئے قانون سے ناواقف ہیں ۔ شادیاں تو ہو رہی ہیں لیکن رجسٹریشن کے مسائل کی وجہ سے کم ہی رجسٹرڈ ہوتیں ہیں، شادی کی رجسٹریشن کے بعد چار سرٹیفیکیٹ بنتے ہیں جس کی ایک ایک کاپی دلہا،دلہن،میرج رجسٹرار اور یونین کونسل کو دی جاتی ہے۔ پاکستان میں صرف دو تحصیلیں "مٹھی تھرپارکر اور ٹنڈو محمد خان” ایسی ہیں جہاں پنڈت رجسٹرڈ ہیں اور شادیاں رجسٹرڈ کی جا رہی ہیں۔
[pullquote]ہندو میرج ایکٹ میں کیا ہے ؟[/pullquote]
اس قانون کے مطابق ہندو برادری کو ان کی شادی کی دستاویزات ’’شادی پراٹھ‘‘فراہم کی جا سکیں گی ۔
اس دستاویز کو پنڈت کے دستخط کے بعد سرکاری محکموں، جیسے نادرا میں جمع کروایا جائے گا۔
اس قانون کا تعلق شادی ، شادی کی رجسٹریشن ، علیحدگی اور دوبارہ شادی سے ہے۔
قانون میں ہندوؤں کے لیے شادی کی کم سےکم عُمر 18سال مقرر کی گئی ہے۔
قانون کے مطابق جبری شادی جیسے مسائل کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
ہندو میریج ایکٹ کے تحت بیوہ عورت کو دوسری شادی کا اختیار دیا گیا ہے۔
ہندو میرج ایکٹ میں شوہر اور بیوی برابری کی بنیاد پر علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
اگر ہندو مرد اپنی پہلی بیوی کو بتائے بغیر دوسری شادی کرے گا تو اسے 6 ماہ کی سزا اور 5 ہزار جرمانہ ادا کرنا ہوگا ۔
مرد اور عورت اگر ایک دوسرے سے خوش نہیں اورساتھ نہیں رہنا چاہتے تو علیحدگی کی صورت میں کہ ہندو مرد کو اپنے بچوں کا نان نفقہ ادا کرنا ہوگا ۔
[pullquote]18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی سے متعلق قانون کیا کہتا ہے؟[/pullquote]
چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ 2013 کے تحت 18 سال سے کم عمر لڑکی یا لڑکا شادی نہیں کر سکتے۔چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ کی خلاف ورزی کی سزا 2 سال اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے۔اسی طرح چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ کی خلاف ورزی میں معاونت کرنے والوں کو بھی دو سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ دسمبر 2021 میں ہائی کورٹ نے کم عمری کی شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کو دارالامان بھیج دیا تھا اور 18 سال عمر تک والدین کے ساتھ رہنے کی اجازت دی۔
[pullquote]شادیوں کی رجسٹریشن[/pullquote]
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی شادیوں کی رجسٹریشن کرتے وقت شیڈول اے میں دیئے گئے نکاح نامے کو مکمل طورپر فل کروائیں اور اس بات کوبھی یقینی بنائیں کہ نکاح نامہ میں دولہا،دلہن ، پنڈت اورگواہوں کی مطلوبہ معلومات موجود ہوں .متعلقہ افسران ان معلومات کی اچھی طرح جانچ پڑتال کریں، شادی کی رجسٹریشن کے لیے آنے والے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے ان کے ساتھ تعاون کریں اور اس عمل کو ہرممکن طور پر سہل بنانے کی کوشش کریں اور اگر اس ضمن میں لوگوں کو شکایات ہوں تو وہ ایس ایچ آر سی سے رابطہ کرسکتے ہیں .
پہلے پاکستان میں صرف مسلمانوں اورعیسائیوں کی شادیاں رجسٹرڈ کی جاتی تھیں جبکہ ہندو میرج ایکٹ 2018 کے بعد اب ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی شادیاں بھی رجسٹرڈ کی جاسکیں گی. آئین میں اقلیتوں کے پرسنل لاز کو تحفظ دیاگیا ہے اور اس قانون کے تحت شادی سے علیحدگی بھی اختیارکی جاسکتی ہے. اس قانون کے تحت ناصرف نئی شادیاں رجسٹرڈ کی جائیں گی بلکہ پرانے شادی شدہ لوگ بھی اپنی شادیاں رجسٹرڈ کروا سکیں گے. اس قانون کے تحت شادی کے بعد 45 روز کے اندر اس کا اندراج کرانا لازمی ہے.
[pullquote]قانون سازی تو ہوگئی لیکن رولز آف بزنس نہیں بنے۔ [/pullquote]
پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد خیبر پختون خوا سمیت تمام صوبوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ا پنے صوبے کے حالات کے مطابق قانون سازی کر سکتے ہیں۔پانچ سال قبل وفاقی حکومت نے ہندو برادری میں شادی کے معاملات کو قانونی دائرہ ٔکار میں لانے کے لیے قانون سازی کی تھی لیکن پانچ سال بعد بھی اس قانون کے نفاذ کے لیے رُولز آف بزنس اور پالیسی نہیں بن سکی، جس کے باعث درجنوں خواتین استحصالی کا شکار ہیں اور خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔
[pullquote]خیبر پختون خوا،اور ہندو میرج ایکٹ[/pullquote]
کسی بھی معاشرے میں زندگی گزارنے کے لئے طلاق ، جائیداد کی منتقلی اور وَراثت جیسے معاملات کے لیے سرکاری دستاویزی ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن خیبر پختون خوا میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کے پاس شادی کی کوئی قانونی دستاویزات نہیں ہیں کہ جن میں وہ تمام شرائط درج ہوں، جن کے ذریعے وہ اپنے قانونی اور مالی حقوق حاصل کرسکیں۔
خیبر پختون خوا حکومت نے ہندو میرج کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی قانون سازی نہیں کی، بلکہ وفاقی قانون ہی کو صوبے میں نافذکر لیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ رُولز کے نہ ہونے کے سبب پانچ سال گزرنے کے باوجود اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔’’قانون کا نفاذ نہ ہونے کے سبب ہندو خواتین استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔
خیبرپختون خوا حکومت اس مسئلے کو سنجیدہ لینے میں ناکام رہی ہے،طلاق یا علیحدگی کی صورت میں انھیں قانونی اور مالی حقوق کے تحفّظ میں مشکلات کا سامنا ہے۔’’ہندو میرج ایکٹ 2017ء ‘‘ کے قوانین کے نفاذ میں بری طرح ناکام رہی ہے ، جس کے باعث ہندو خواتین شادی کے مسائل کے ساتھ ساتھ عدم تحفّظ کا بھی شکار ہیں ۔
شہزاد بھٹی پشاور میں وکالت کے شعبے سے منسلک ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ ایسا بھی ہوتا ہےکہ ہندو شادی سے متعلق قانون نہ ہونے کے باعث گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والے جوڑے مسلم فیملی لاز کا سہارا لے لیتےہیں، یعنی اپنی مرضی کی شادی کرنے کے لیے مذہب تبدیل کر لیتےہیں، کیوں کہ کوئی پنڈت یا پادری اس طرح شادی کروانے کا مجاز نہیں ہوتا۔
[pullquote]ہندو میرج ایکٹ کےعدم نفاذ سے ہم مسلسل اذیّت کا شکار ہیں ۔ مالا کماری [/pullquote]
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن اور کمیشن برائے وقار ِنسواں، خیبر پختون خوا کے ضلع پشاور کی ممبر ،مالاکماری کا اس سےمتعلق کہنا ہے کہ’’ ہندو میرج ایکٹ کےعدم نفاذ سے ہم مسلسل اذیّت کا شکار ہیں اور متعدّد تکالیف برداشت کر رہے ہیں ۔ ہماری شادیوں کی ر جسٹریشن کا کوئی قانونی طریقہ نہ ہونے کے کئی نقصانات ہیں۔
[pullquote]دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے ہندو خواتین استحصالی رویے کا شکار ہیں ۔ سماجی کارکنان[/pullquote]
پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس بل کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے ایک غیر سرکاری تنظیم کی رکن شہناز شہیدی کہتی ہیں، ’’اب ہندو بھی مسلمانوں کی طرح اپنی شادی رجسٹر کروا سکیں گے، ایسا بل قومی و علاقائی سطح پر منظور ہونا چاہیے۔‘‘
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے یہاں ہندو خواتین شادی کے معاملے میں غیر محفوظ ہونے کے باعث استحصالی رویوں کا شکار ہو جاتی ہیں کہ ان کے پاس شادی بیاہ سے متعلق کسی قسم کی دستاویزات موجود نہیں ہوتیں۔ لہٰذا اختلافات کی صُورت میں انہیں نان نفقے کی طرز پر کوئی مالی تحفّظ حاصل نہیں ہو پاتا۔ شوہر بھی اس حوالے سے لاپروا رہتا ہے کہ اسے کسی قسم کی سزا یا معاشی اخراجات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور اس وجہ سے اکثر لڑکیوں،ان کےبچّوں اور والدین ہی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کس بنیاد پر، کون سی دستاویز لے کر عدالت جائیں۔ اب وہ زمانہ توہےنہیں کہ جرگوں میں فیصلے ہوں، جب کہ عدالتوں میں بنا ثبوت کے فیصلے نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ شادی کے وقت باقاعدہ دستاویزات نہ بنوانے کی وجہ سےہندو لڑکیوں کو شوہر کے نام سے شناختی کارڈ بنوانے تک میں بھی بہت سے مسائل پیش آتے ہیں۔ سو، ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر خیبر پختون خوا میں ہندو میرج ایکٹ نہیں بنایا جاتا، تو کم از کم وفاقی قانون کا نفاذ جلد از جلد کیا جائے، تا کہ ہندو خواتین کوتحفّظ حاصل ہو سکے اور جبری شادیوں کی بھی روک تھام ممکن ہو۔ ‘
[pullquote]قانون ضرور بنائیں لیکن نا انصافی نہ کریں ۔ پنڈت رتن ناتھ [/pullquote]
ہشت نگری مندر کے پنڈت رتن ناتھ کا کہنا تھا کہ ہندو مذہب میں بھی فرقے ہیں، جیسے برہمن شرما، راجپوت، ذات کھتری، شودر، بالیمک وغیرہ ۔ برہمن فرقے میں طلاق کاکوئی تصوّر نہیں کہ جس لڑکی سے شادی ہو، زندگی بھر اسی کے ساتھ رہنا ہوتا ہے۔ تاہم، ہندو مذہب کے بعض دوسرے فرقوں میں یہ معاملات چل رہے ہیں جن میں طلاق اور دوسری، تیسری شادیاں بھی ہو رہی ہیں۔ ہندو میرج ایکٹ کے نفاذ یا شادی بیاہ سے متعلق قانون سازی پر ہمیں اعتراض نہیں ،لیکن فیصلے انصاف کے تحت ہی ہونے چاہئیں۔ ’’ہندو میرج ایکٹ 2017 ء‘‘کے حوالے سے ان کا کہناہے کہ ’’اس وفاقی قانون کے رُولز بن جانے اور طریقۂ کار وضع ہو جا نے سے فیصلے عدالت میں ہوں گے، جرگہ سسٹم ختم ہو جائے گا۔ اس طرح لوگوں کے پاس مختلف آپشنز آ جا ئیں گے۔ مگر قوی اُمید ہے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہو گی ۔اور جن فرقوں میں طلاق یا دوسری شادی کی مذہبی طور پر اجازت ہے، وہ اپنے اختلافات کے دوران نان نفقے کی طرح کے معاملات بھی طے کر سکیں گے۔
[pullquote] دیگر صوبائی حکومتوں کی طرح خیبر پختون خوا کی حکومت بھی ہمیں رولز بنا کے دینے میں ناکام رہی ہے : ہارون سرب دیال [/pullquote]
ہندو کمیونٹی کے رہنما ہارون سرب دیال کا ہندو میرج ایکٹ 2017 ءکے حوالے سے کہناہے کہ یہ قانون ہندوؤں کے لیئے ایک جامع قانون ہے، اس میں شادی ،بچوں کی کفالت ، کم عمری کی شادیوں کو روکنا،شادی رجسٹرڈ کروانا،دوسری شادی ، علیحدگی ہو یا ناچاقی یا دیگر معاملات ، تمام قوانین موجود ہیں . لیکن بدقسمتی سے پانچ سال سات ماہ گزرنے کے باوجود اس قانون پر عمل درآمد نہیں ہو رہا.ایسے بہت سے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ شادی شدہ بیٹیوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئی ہیں اور ان کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے . ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے. دیگر صوبائی حکومتوں کی طرح خیبر پختون خوا حکومت بھی ہمیں یہ رولز بنا کے دینے میں ناکام رہی ہے.
[pullquote] قوانین کے بارے میں معلومات سے آگاہی بھی بہت ضروری ہے : افتخار حسین ایڈووکیٹ [/pullquote]
افتخار حسین ایڈووکیٹ کا ہندو میرج ایکٹ 2017 ءکے حوالے سے کہناہے کہ شادی اور رجسڑیشن الگ الگ عمل ہیں . اس صورت میں ہندو میرج ایکٹ قانونی تو ہے لیکن اس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں.شناختی کارڈ بنانا ،حق مہر، ماہانہ اخراجات اور طلاق وغیرہ،،، یہ سب آپ رجسٹریشن سےحل کر سکتے ہیں. اس لئے شادی رجسٹرڈ کرنے کے ساتھ ساتھ قوانین کی جانکاری بھی بہت ضروری ہے تا کہ اگر بعد میں مسائل پیدا ہوں تو فیملی کورٹ میں آپ اپنے حق کے لیے دعویٰ کر سکیں.
[pullquote]ہندو برادری کی جانب سے ہی ایکٹ کی مخالفت کی گئی ۔ ڈاکٹر رفعت سردار [/pullquote]
اس حوالے سے کمیشن برائے وقارِ نسواں ،خیبر پختون خوا کی چیئرپرسن، ڈاکٹر رفعت سردار اور ڈائریکٹر ،آمنہ درّانی کا کہنا ہےکہ’’ ہندو خواتین کو شادی کے معاملات میں تحفّظ فراہم کرنے کے ضمن میں ہندو میرج ایکٹ پر عمل درآمد اور خیبر پختون خوا میں متعلقہ قانون سازی یا پھر رُولز آف بزنس بنانے کے لیے 2018ءمیں ایک کمیشن نے کام شروع کیا تھا۔ تنسیخِ شادی یا طلاق کے حوالے سے یہ نکتہ زیرِ غور تھا کہ قانوناً شوہر صرف ایک صُورت میں بیوی کو طلاق دے کر علیحدگی اختیار کر سکتا ہے کہ اگر وہ یہ ثابت کردے کہ اس کی بیوی بد کردار ہے اوراس کے دو گواہان بھی پیش کرے۔ لیکن چوں کہ یہ ایک متعصبانہ شق تھی، تواس پر جب کمیشن نے ہندوبرادری کے مکتبۂ فکر سے مشاورت کی۔ جواباً ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وہ قانون میں تبدیلی لانا چاہ رہے ہیں۔ مگر پھر تبدیلی کے عمل میں ہندو کمیونٹی ہی کی طرف سے مزاحمت کی گئی ۔ برادری کے لوگ اس حوالے سے زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے تھےکہ یہ ان کامذہبی معاملہ تھا۔ ‘‘
[pullquote]وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ [/pullquote]
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ ہندو میرج ایکٹ 2017 ءکے حوالے سے کہناہے کہ یہ لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی زمداری ہے وہ اس پر کام کر رہے ہیں. کئی مرتبہ وہ ہندو کمیونٹی کے مشیروں کے ساتھ میٹنگ بھی کر چکے ہیں اور اس پر بات چیت آخری مراحل میں ہے، امید ہے دو تین ماہ میں اس پر عمل درآمد بھی ہو جائے گا.
[pullquote]پالیسی اور رُولز آف بزنس پر کام کافی حد تک مکمل ہو چُکا ہے۔وزیر زادہ [/pullquote]
وزیر اعلی خیبر پختون خواہ کے مزیر برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کاکہنا تھا کہ ’’خیبر پختون خوا نے باقاعدہ مرکز کو تحریری اختیار دیا ہےکہ وہ جو بھی قانون سازی کرے، ہم اسی کی پیروی کریں گے اور اپنے صوبے پر لاگو کریں گے۔ اس وجہ سے ہم نے اپنا قانون بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جب کہ وفاق کے ’’قانون برائے ہندو ‘‘شادی پر عمل در آمد کرنے اور اسے نافذ کرنے کے لیے رُولز آف بزنس بنانے کی غرض سے حکومت نے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے، جو ہندو مذہب کے احکامات اور ہدایات کے مطابق مشاورت اور تجاویز اکٹھی کر رہے ہیں۔ اس کمیٹی میں ہندو مہاراج پنڈت، غیر سرکاری سماجی تنظیموں کے نمائندے اور قانون دان شامل ہیں ، جیسے ہی ان کی طرف سے ہمیں مجوّزہ رُولز آف بزنس کی تفصیل ملے گی ،کابینہ سے منظور کر واکے اسے نافذ کر دیں گے۔‘‘ وزیر زادہ نے مزید کہا کہ ’’پالیسی اور رُولز آف بزنس پر کام کافی حد تک مکمل ہو چُکا ہےبلکہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، جس سے ہندو خواتین کو کافی حد تک تحفّظ حاصل ہو جائے گا اور ان کے معاشرتی و معاشی حالات بھی بہتر ہوں گے ۔