اب کی باری کس کی باری؟

بے نظیر بھٹو کے قتل کو آٹھ سال گزر چکے ہیں۔ تین حکومتیں اس قتل کی تحقیقات اور اس سے متعلق مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ناکام رہی ہیں۔ دو بار منتخب ہونے والی دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کو آج ہی کے دن 27دسمبر2007ءکو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا۔ اس قتل میں ملوث چند دہشت گردوں کو تو گرفتار کیا گیا ہے مگر ان کے پیچھے سازش کرنے والے آج بھی بے نقاب نہیں کئے جا سکے۔ اس سانحے والے دن اس وقت کے فوجی اور مطلق العنان حکمران جنرل مشرف اور اس کے دنیائے جاسوسی کے صف اول کے خفیہ ادارے اس قتل کے امکان کی اطلاعات کے باوجود بے نظیر کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے، غافل رہے یا پھر خاموش تماشائی۔

[pullquote] جنرل مشرف کی حکومت نے بے نظیر کے قتل کے فوراََ بعد انتہائی چالاکی سے میڈیا کو موت کی تکنیکی وجہ کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا۔ جس وقت سوال یہ پیدا ہونا تھاکہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے کیا محرکات ہیں اور اس کے پیچھے کون لوگ ہیں حکومت نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے یہ بحث چھیڑ دی کہ بے نظیر کی موت گولی سے ہوئی یا گاڑی کی چھت کے ہینڈل سے سر ٹکرانے کے باعث۔ اس وقت کے وزارت داخلہ کے ترجمان نے میڈیا کے بھوکے گوشت خوروں کو ایسی ہڈی پھینکی کہ جس پر صحافی پل پڑے اور ان کی مفاد عامہ کی گٹھڑیاں عقب سے چوری کر لی گئیں اور میڈیا قاتلوں کا پتہ پوچھنے کی بجائے اسپتالوں کے چکر لگاتا رہا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی کمال ہوشیاری سے قاتلوں کو پکڑنے کے وعدے کے ساتھ عوام سے اقتدار میں آنے کی پرچی مانگی اور عوام نے پرچی تھما دی۔
[/pullquote]

آصف علی زرداری نے دھمکی آمیز انتخابی مہم کا اختتام اقتدار میں آنے کے بعد مفاہمت کی سیاست کے آغاز سے کیا مگر پھر اپنے ہی قومی تحقیقاتی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے لاکھوں ڈالر کے خرچے پر اقوام متحدہ سے اس قتل کی تحقیقات کرائیں۔ اقتدار بھی خون کو سفید کر دیتا ہے۔ آصف زرداری اور جیالوں کی آنکھوں میں اترا خون جب اقوام متحدہ کے تحقیقات کرنے والوں کے کاغذ کی سیاہی بنا تو ڈر کے مارے اور اقتدار بچانے کی خاطر اس رپورٹ پر بھی اعتراض کر کے اپنی بزدلی کو قانون کے برقعے میں راہ فرار عطا کی۔ نہ صرف یہ کہ چند بزدل سرکاری ملازمین کے ذریعے جائے وقوعہ کو خون کے دھبوں سے فوری صاف کرنے کے سنگین جرم میں طاقتور ملزمان کو کلین چٹ دی گئی بلکہ ا قوام متحدہ کو ایک خط کے ذریعے انہی جیالوں، جانثاروں اور خونی رشتوں نے اقوام متحدہ کی رپورٹ پر منحرف گواہ کی مانند تحفظات کا اظہار کر دیا۔ آصف علی زرداری صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد دختر مشرق کے مجازی خدا کے لقب سے دستبردار ہو گئے۔ ان سے اتنا بھی نہ ہوا کہ اپنی عظیم اہلیہ کے قتل کے مقدمے میں بطور شکایت کنندہ فریق بنتے شاید اس مقدمے میں مدعی بننے سے ان کے صدارت کے عہدے کی بے تو قیری ہو جاتی۔

گزشتہ روز 27 دسمبر کو پیپلز پارٹی گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کو یاد کیا گیا، بلاول بھٹو اپنی ماں کی قبر پر پھول چڑھائے اور آصف علی زرداری دبئی میں ہی مغفرت کی دعا کی مگر اپنے اختیارات کے تحفظ میں اور کرپشن کے لگے الزامات کے جواب میں اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دینے والے جیالے اور جناب آصف علی زرداری اس بات پر کبھی منہ نہ کھولیں گے کہ بے نظیر بھٹو کے قاتل کون ہیں اور اس قتل کی تحقیقات میں رکاوٹ کیا تھی۔[pullquote] ایک ڈمی وزیراعلی کے اختیارات پر وفاقی حکومت اور فوج کے اداروں سے ٹکر لینے والے آصف علی زرداری جب وفاق میں طاقتور ترین سیاسی صدر مملکت تھے اور بظاہر قائم علی شاہ سے زیادہ با اختیار تو اس وقت انہوں نے بے نظیر بھٹو کے قاتلوں تک پہنچنے کے لیے کچھ نہ کیا تو اب دبئی میں بیٹھ کر محض دعائے مغفرت کرنے سے کیا وہ اپنی سیاسی، سماجی، مذہبی اور قانونی ذمہ داریوں سے خود کو مبرا قرار دے سکتے ہیں؟[/pullquote] یا پھر پاکستان کھپے کا ایک اور نعرہ لگانے کے لیے کسی اور ایسے مناسب وقت کے منتظر ہیں کہ جب وہ گڑھی خدا بخش کے مزار کے صدقے دوبارہ ایوان صدر تک پہنچ جائیں گے۔

یہ سیاست دان بلکہ ان کو اقتدار تک پہنچانے والے ہم عوام کسی ڈیری فارم کی ان بھیڑ بکریوں کی مانند ہیں جو ایک دوسرے کو ذبح ہوتے دیکھ کر اپنی باری کا انتظار کرتی ہیں اور صرف اس بات پر مطمعن ہو جاتی ہیں کہ اب کی باری نہیں زرداری۔ اپنے محسن لیڈروں کے خون کا حساب مانگنے میں ہماری قومی ناکامی کی یہ کوئی پہلی مثال نہیں اور شاید یہ آخری بھی نہ ہو۔ [pullquote]موجودہ حکومت جس کی سربراہی خود ساختہ برادر دختر مشرق کر رہے ہیں اس نے بھی بے نظیر کے قتل کو اس طرح بھلا دیا ہے کہ جس طرح 12 اکتوبر 1999ءکے دن کیا جانے والا اس قوم کی اور ان کی اپنی عزت نفس کا خون معاف کر دیا گیا ہے [/pullquote]۔ 27 دسمبر کے دن ہم بے نظیر بھٹو کی مغفرت کی دعا کرنے کے اہل بھی نہیں کیونکہ بے نظیر بھٹو کی قربانی تو خود ہی ان کی مغفرت کا سبب بن سکتی ہے مگر ہم لوگوں کی بزدلی اور مصلحت پسندی بطور پارلیمان، عدلیہ، حکومت، صحافی اور عوام شاید قابل معافی نہیں۔ ہم سب اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ پہلی باری کسی اور کی ہو۔ اب دیکھتے ہیں اب کی باری کس کی باری۔

بشکریہ روزنامہ ‘نوائے وقت’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے