"جنابِ صدر یہ ہماری انتہائی عاجزانہ سی عرضی ہے، جناب صدر یہ ہماری عاجزانہ سی درخواست ہے، (ہم وقت کی کمی کو سمجھتے ہیں، ہم وقت کا زیاں نہیں کریں گے) جنابِ صدر ہم کل صبح دس بجے تک اپنی تجویزوں کے ساتھ حاضر ہو جائیں گے.”
یہ الفاظ متحدہ ہندوستان کے سنہ 1946ء کے انتخابات کے تحت بنی مرکزی مجلسِ قانون کے بطن سے بنے پاکستان کے حصے میں آئے علاقوں کے عوامی نمائندوں سے تشکیل پائی پاکستان کی مجلسِ دستور ساز میں مشرقی بنگال سے جنرل نشست پر منتخب ہونے والے ہندو رکن کی التجا کے ہیں۔
یہ الفاظ مسٹر دھریندر ناتھ دتّہ کے ہیں۔ انھوں نے یہ الفاظ 11 اگست سنہ 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں اس وقت ادا کیے جب نواب زادہ لیاقت علی خان پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی مشہور 11 اگست 1947 کی تقریر کے بعد اس دن کی پہلی قرار داد پیش کر چکے تھے۔
قائد اعظم محمد علی جناح مجلسِ دستور ساز کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہوئے اور اپنی تقریر میں اقلیتوں کے لیے علاوہ دیگر چیزوں کے یہ کہا:
"ہم اس بنیادی اصول سے آج اپنی قومی زندگی کا آغاز کر رہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور اسِ ریاست کے برابر کے شہری ہیں۔”
صفحہ 20 دستور ساز اسمبلی کاروائی 11 اگست 1947
نواب زادہ لیاقت علی خان کی پیش کردہ قرارداد کا نام ہے، ‘وفاقِ پاکستان کا قومی پرچم’
نواب زادہ لیاقت علی خان پاکستان کے قومی پرچم کی منظوری کے لیے قرارداد کے متن میں ہی پرچم کے طول و عرض اور بناوٹ کی مکمل تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ کہاں سبز ہے، کہاں سفید ہے، اور یہ سبز اور سفید آپسی کس نسبت و تناسب میں ہیں۔ سبز رنگ کس کے لیے ہے اور سفید رنگ کس لیے ہے۔
سرسری سی نظر میں دیکھنے اور تھوڑا سا سوچنے پر ہی قرارداد میں تجویز کردہ پرچم آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم کی کسی حد تک تبدیل شدہ صورت محسوس ہوتا ہے۔ اس بات کو اقلیتی رکن دھریندر ناتھ دَتّہ نے، نواب زادہ لیاقت علی خان کی جانب سے قرارداد پیش کرنے کے بعد کسی رکنِ اسمبلی کی دوسری تقریر میں واضح کرنے کی کوشش کی، جس کا جواب بھی لیاقت علی خان نے دیا۔
نواب زادہ لیاقت علی خان قومی پرچم کی قرارداد پیش کرنے کے فوری بعد اپنے پاس موجود تہہ لگے ایک کپڑے کو کھول کر مجلسِ دستور ساز میں لہراتے ہیں۔ اسمبلی کی کارروائی کے دوران پیش کردہ قرارداد نمبر 1 میں تجویز کردہ پرچم ہوا میں لہراتا ہے تو اسمبلی کی کارِروائی کا متن قوسَین میں بتاتا ہے کہ ایوان کے ارکان کی جانب سے داد کے ڈونگرے برستے ہیں۔ کارروائی کے متن سے یہ بات واضِح نہیں ہوتی کہ داد دینے والے ارکانِ اسمبلی کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔
قومی پرچم کی تسلیم شدہ سیاسی علامتی حیثیت
نواب زادہ لیاقت علی اپنی تقریر شروع کرتے ہیں تو کسی بھی قوم و ملک کے لیے قومی پرچم کی مسلّم اہمیت کو واضح کرنے لگتے ہیں۔وہ کہتے ہیں:
"… جنابِ صدر (مجلسِ دستور ساز) آپ نے دیکھا ہے کہ یہ جھنڈا کسی خاص سیاسی جماعت، یا کسی خاص مذہبی عقیدے کا جھنڈا نہیں دکھائی دیتا… کسی بھی ملک کا قومی پرچم محض کپڑے کا ایک ٹکڑا ہی نہیں ہوتا … یہ اُن تصورات کا قائم مقام ہوتا ہے جن کی یہ علامت بنتا ہے۔ میں بِلا خوفِ تردید کہتا ہوں کہ جو اس جھنڈے سے وفاداری کا دَم بھریں گے ان کے لیے یہ جھنڈا آزادی، حُریّت اور مساوات کا نمائندہ بنے گا … اس جھنڈے کا رنگ کیا ہے، یہ بھی اس قدر اہم نہیں۔ اگر اہم ہے تو یہ بات ہے کہ یہ جھنڈا کن تصورات کی نمائندگی کرتا ہے۔ میں اس معزز ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کے بننے والے آئین کے بارے میں میرا جو تصور ہے اس میں یہ پرچم سب کے لیے آزادی، حریت اور برابری کا نمائندہ بن کر سامنے آئے گا… ۔”
نواب زادہ لیاقت علی خان قومی پرچم کے لیے قرارداد پیش کرنے کے بعد تشریف رکھتے ہیں تو مغربی پنجاب سے جنرل نشست پر منتخب رکنِ اسمبلی بھیم سین سچر، دستور ساز اسمبلی کے اسی اجلاس میں نو منتخب شدہ صدر جناب محمد علی جناح سے تقریر کرنے کی اجازت مانگتے ہیں۔
مجلسِ دستور ساز کی کارروائی 10 اگست 1947 کا سکرین شاٹ؛ قومی اسمبلی کے ویب سائٹ سے حاصل کیا گیا۔ اسمبلی کارروائی صفحہ نمبر 5
اسمبلی کی کاروائی آگے چلتی ہے تو بھیم سین سچر قومی پرچم کے ڈیزائن کے عمل میں اقلیتی نمائندوں کی شمولیت کے متعلق ایک دو طرفہ کمیٹی بنانے کے لیے ترمیم پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وقت کم ہیں اور وہ اس کم وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے کہ کل 12 اگست کی صبح 10:00 بجے مشترکہ سفارشات کے ساتھ پیش ہو جائیں گے۔ اس سے قومی پرچم جیسی اہم نمائندہ علامت میں ان اقلیتوں کو بھی شمولیت کا احساس ملے گا، اس سے ان کا اپنے وطن کے متعلق مان بڑھے گا۔
بھیم سین سچر اپنی تقریر میں نواب زادہ لیاقت علی خان کی جانب سے قومی جھنڈے کی اس قدر برق رفتاری سے منظوری کی خواہش اور وقت کی کمی کا بار بار حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ وہ صرف چوبیس گھنٹے میں اپنی سفارشات پیش کر دیں گے۔
مسٹر سچر نے نواب زادہ لیاقت علی خان کی تقریر میں اقلیتوں کے حقوق اور استحقاق کو سراہا تو ہے مگر وہ کہتے ہیں:
” یہ امر میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ میرے معزز دوست (نواب زادہ لیاقت علی خان) کو اس سے قبل (کے وقتوں میں) بھی جھنڈے کے ڈیزائن کے لیے اقلیتی افراد کے نمائندہ ارکان سے مشاورت کا وقت نہیں مل سکا تھا۔ تب تو کافی وقت میسر تھا۔… جنابِ (صدرِ دستور ساز اسمبلی) ایک چیز بہت اہم ہے کہ ریاستِ پاکستان کو ان بنیادوں پر استوار کیا جائے کہ سب مل جل کر اس ریاست کی تعمیر و تشکیل میں حصہ لیں۔ اقلیتوں کے اندر کسی صورت میں یہ احساس جنم نہیں لینا چاہیے کہ یہاں ایوان میں کوئی ایسی عددی اکثریت ہے جو اپنی اکثریت کی سرشاری میں عددی اقلیتوں کی قومی معاملات میں شمولیت کی فکر اور سوچ رکھے بغیر ہی انھیں روندتی ہوئی آگے بڑھتی جائے؛ عددی اکثریت کے بَل بُوتے پر اکثریت قومی پرچم جیسے اہم قومی و ملکی معاملے پر عددی اقلیتوں سے مشورہ تک کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرے۔ … ہم قومی اہمیت کے معاملات پر ان سب افراد جن کے ساتھ ہمیں اس دیس اور ریاست میں بسنا ہے ان سے کام کرنے کے مساوی مواقع اور کندھے سے کندھا ملا کر مختلف امور سر انجام دینے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔”
مجلسِ دستور ساز کی کارروائی 11 اگست کا 1947 کا سکرین شاٹ؛ قومی اسمبلی کے ویب سائٹ سے حاصل کیا گیا۔ صفحہ نمبر 24 سے 25
بھیم سین سچر کے بعد مشرقی بنگال سے جنرل نشست پر منتخب رکنِ اسمبلی دھریندر ناتھ دتّہ نے بولنے کی اجازت مانگی اور کہا:
"جناب (بھیم سین) سچر کی پیش کردہ ترمیم ریاستِ پاکستان کی اقلیتوں کی ایک عاجزانہ سی عرضی ہے۔ ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ ہم ریاستِ پاکستان کے پیش کردہ حقوق اور استحقاق سے فائدے سمیٹیں گے اور اس پر پڑنے والی مشکلات میں اکٹھے رہیں گے۔ یہ کتنی اچھی بات ہو گی کہ ہمارے پرچم کے ڈیزائن میں ہم اقلیتوں کا بھی حصہ ہو گا تو اس پرچم کے ساتھ ہماری وابستگی کا جوش و جذبہ اور اپنا پن زیادہ گہرا ہو گا۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ آج پیش کردہ جھنڈے کے ڈیزائن میں اقلیتوں کا کوئی مشورہ شامل نہیں۔”
بہر کیف، دھریندر ناتھ دتّہ نے اپنی چھوٹی سی تقریر کے دوران پانچ مرتبہ عاجزانہ عرضی، عاجزانہ درخواست کی بات کی، لیکن کچھ لمحے بعد نواب زادہ لیاقت علی خان نے اپنی جوابی تقریر میں کہا کہ وقت کی بہت کمی ہے۔ انھوں نے وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ تجویز کردہ پرچم مسلم لیگ کے پرچم جیسا نہیں۔
انھوں نے دوبارہ یقین دلانے کو کہا کہ ہم اقلیتوں کو سب معاملات میں ساتھ لے کر چلیں گے۔ نواب زادہ لیاقت نے کہا اقلیتوں کا یہ دعویٰ درست ہے کہ جھنڈے کے ڈیزائن میں انھوں نے کسی اقلیتی رہنما کی مشاورت شامل نہیں کی، لیکن بعد کے دیگر قومی معاملات میں ایسا نہیں ہو گا۔
نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا:
"یہ پرچم دہلی میں ہم چند افراد نے مل کر ڈیزائن کیا تھا۔ اس پرچم کو یہاں بیٹھے باقی کے مسلمان ارکان بھی پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔”
مجلسِ دستور ساز کی کارروائی 11 اگست کا 1947 کا سکرین شاٹ؛ قومی اسمبلی کے ویب سائٹ سے حاصل کیا گیا۔ کارروائی کا صفحہ نمبر 28
اقلیتی ارکان کی ترمیم پر رائے شماری
اسمبلی کے صدر جناب محمد علی جناح نے نواب زادہ لیاقت علی خان کی وضاحتی تقریر کے بعد ایوان میں بھیم سین سچر کی قومی پرچم کے ڈیزائن کے حوالے سے ایوان کی دو طرفہ کمیٹی بنانے کی ترمیم پر ووٹنگ کرانے کا اعلان کیا۔
بھیم سین سچر کی ترمیم جسے دھریندر ناتھ دتّہ نے عاجزانہ عرضیوں اور درخواستوں سے بار بار قبول کرنے کا کہا وہ اکثریتِ رائے سے رَد کر دی گئی۔ دہلی میں چند افراد کی جانب سے ڈیزائن کردہ جھنڈے کے طول و عرض اور رنگ والی نواب زادہ لیاقت علی خان کی قرارداد منظور کر لی گئی۔
وہ قومی پرچم جس کے ڈیزائن کے کسی بھی مرحلے میں اقلیتوں کا کوئی نمائندہ یا کسی قسم کا مشورہ شامل نہیں تھا، جب ایوان کی عددی اکثریت نے اس کی منظوری دے لی تو مشرقی بنگال سے جنرل نشست سے منتخب رکن کِرن سنکر رائے نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر کہا:
"میں صرف یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ ہم نے ایک تجویز پیش کی، اور بہت افسوس ہوا کہ اس تجویز کو قبول نہیں کیا گیا۔”
صدرِ اسمبلی نے اقلیتی رکن کو اسمبلی قواعد کے مطابق بیٹھنے کا کہا۔ مگر کرن سنکر رائے نے اجازت مانگ کر کہا کہ وہ اس جھنڈے کو اپنے ریاستی نشان کے طور پر قبول کرتے ہیں اور اس سے وفاداری کا دم بھرتے ہیں۔
بہ قولِ نواب زادہ لیاقت علی خان دہلی میں بیٹھ کر چند افراد کے ذہن کی پیداوار اس جھنڈے کو قومی نشان کے طور پر منظور اور اقلیتوں سے کرن سنکر رائے کے مُنہ سے قبولیت کے لفظ سننے کے بعد ایوان کی اکثریت نے بھر پُور انداز سے داد دی۔
خواتین ارکان کا کردار
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ قومی پرچم کے ڈیزائن پر ہونے والی پوری بحث میں کسی خاتون رکن نے کوئی بات نہیں کی۔ البتہ اسی دن کی کاروائی میں جب جناب محمد علی جناح کو دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا تو اس وقت مسلم نشست پر پنجاب سے منتخب رکن بیگم جہاں آراء شاہ نواز نے مسٹر جناح کے لیے مبارک باد کی تقریر کی۔ دلچسپ پہلو یہ تھا کہ بیگم جہاں آراء شاہ نواز نے بھی عورتوں کے لیے برابر کے شہری حقوق کے موضوع کو اپنی تقریر میں پیش کیا، اور ان حقوق کا تقاضا کیا۔
قومی جھنڈے کے اکثریتی فیصلے سے اقلیتوں نے کیا سبق سیکھا؟
اس معاملے پر ہم نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور آئینی و پارلیمانی معاملات میں گہرا فہم اور نظر رکھنے والے جناب ظفراللہ خان کی رائے دریافت کی تو انھوں نے کہا:
"پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا 10 اگست کو جوگندر ناتھ منڈل کی صدارت میں اجلاس کثیرُ الفکری سیاست و ریاست کا رسمی اظہار تھا۔ (باقی رہی بات کہ) اسمبلی کی کارروائی کے چلانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اکثریتی رائے کا فیصلہ قبول کرنا ہوتا ہے۔… دنیا کے کسی بھی ملک کے جھنڈے کی طرح پاکستان کا جھنڈا اپنی قومی علامات کا مظہر بننے کا حق رکھتا ہے۔… دستوری اور آئینی بحثوں میں اکثریتِ رائے کی بنیاد پر ہی فیصلہ ہونا ہوتا ہے؛ یہی بات قراردادِ مقاصد پر بحثوں کی ذیل اور اسمبلی کی کارروائی اصولوں کے مطابق چلی۔… البتہ یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ پاکستان میں ہم معاشرتی اور سماجی سطح پر اقلیتوں کو مناسب مرتبہ نہیں دے پائے۔”
سعدیہ سعید سان فرانسسکو یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور ان کی سنہ 2016 میں کیمبرج یونیورسٹی پریس سے Politics of Secularization: Law and the Minority Question in Pakistan کتاب شائع ہوئی ہے۔
چند گھنٹوں بعد نئی وجود میں آنے والی ریاست کی مجلسِ دستور ساز میں قومی و ریاستی زندگی کی اہم علامت کے بارے میں اقلیتوں کو جیسے ا کھیڑ کر الگ تھلگ کر دیا گیا اس پر اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 85 پر وہ کہتی ہیں:
"قومی پرچم پر بحث کے دوران جس انداز سے اقلیتوں کے خدشات کو نظر انداز کر دیا گیا اس سے ان کے لیے مستقبل میں ہونے والی دستوری بحثوں کے لیے ایک اہم واقعاتی نظیر وجود میں آ گئی؛ خاص طور پر قراردادِ مقاصد کے لیے دستور ساز اسمبلی کی بحثیں اس کی مثال ہیں۔”
سعدیہ سعید اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 86 پر کہتی ہیں:
"قومی جھنڈے پر ہونے والی بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ با قاعدہ رسمی اداروں کے اندر سے اقلیتوں کی الگ تھلگ حیثیت کو محسوس کرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔”
سعدیہ سعید کے اس آخری جملے میں دھریندر ناتھ دتّہ کی ایوان کی تقریر میں پانچ مرتبہ وہ التجا کرنا کہ بھیم سین سچر کی جانب سے وسیعُ البنیاد کمیٹی بنانے کے لیے ترمیم کی عاجزانہ درخواست کو قبول کر لیا جائے، اور بھیم سین سچر کی پیش کردہ ترمیم کے اکثریت کے ہاتھوں روندے جانے پر کرن سنکر راؤ کا رنج اور افسوس کا اظہار سما گیا ہے۔